جمہوری نظام میں پی ایم ہی سربراہ ہوتے ہیں، انتظار حسین
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
اسلام آباد:
رہنما مسلم لیگ (ن) قیصر احمد شیخ کا کہنا ہے کہ انڈیا کے ساتھ ہماری جو جنگ ہوئی ہے اس میں فیلڈ مارشل کی ڈیٹرمنیشن اور ان کی پلاننگ ہے جس کا رزلٹ ہے کیونکہ خود ٹرمپ اس میں انوالو تھے صلح کرانے میں، وہ نیگوشی ایٹ کر رہے تھے تو انھوں نے خود دیکھا ہے کہ ان میں کتنی ہمت ہے.
ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ اس میں پرائم منسٹر کا کیسے کردار نہیں ہے، وہ ہمارے سی ای او ہیں، پرائم منسٹر ہی کنٹرول کر رہے تھے ٹھیک ہے جو وہ کرتے ہیں، فیلڈ مارشل اس کے حقدار ہیں جو انھوں نے تعریف کی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ پرائم منسٹر کونکال دیں، میں کیونکہ خود کابینہ کا حصہ ہوں وزیر اعظم پورے کنٹرول میں ہیں اور آپس میں بڑی یگانگت اور یکسانیت ہے.
رہنما تحریک انصاف انتظار حسین پنجوتا نے کہا کہ پاکستان میں ایک جمہوری نظام ہے اور جمہوری نظام میں جو پی ایم ہوتے ہیں وہی سربراہ ہوتے ہیں، بے شک فارم 47کے ہوں، جب یہ کھانا تھا وہاں پر پی ایم کا نہ ہونا، یہ تو آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا کہ مائنس پی ایم کر دیا گیا ہے.
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ وہاں نمائندگی کس چیز کی ہو رہی ہے؟ پاکستان کی بات ہو رہی ہے نہ، ٹرمپ اگر عاصم منیر کی بات کر رہے ہیں کہ وہ مجھ سے ملنے آئے تھے اور بڑے زبردست آدمی ہیں تو پاکستان کی بات کر رہے ہیں اور پاکستان کا نام لیکر بات کر رہے ہیں، شہباز شریف کو تو بلایا ہی نہیں گیا وہ تو میٹنگ کا حصہ ہی نہیں تھے.
(ر)میجر جنرل طارق رشید نے کہاکہ میرا خیال ہے کہ ہماری ہسٹری کچھ ایسی رہی ہے کہ زیادہ امریکا کے نزدیک ہوتے ہیں اور آخر کار مایوسی ہی ہو تی ہے مگر اس وقت حالات مختلف ہیں، فیلڈ مارشل کی جو تعریف کر رہے ہیں انھوں نے اپنی صلاحیت کا لوہا منوا لیا ہے، انڈیا کے ساتھ ہماری جنگ ہوئی تھی اس میں فرق فیلڈ مارشل عاصم منیر ہی تھے، باقی چیزیں ویسی ہی تھیں، ان میں جو عزم تھا اس عزم نے ہمیں انڈیا پر فتح دی، ویسے بھی بڑے پروفیشنل سولجر ہیں.
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں امریکا پاکستان میں انٹرسٹ ہے جیسے ٹرمپ ہے، ٹرمپ کو ویسے بھی جو طاقتور ممالک ہیں یا شخصیات وہ ان کو پسند کرتے ہیں، پاکستان میں جب مائنز اینڈ منرلز کانفرنس ہوئی تو اس میں ہمیں بھی پتہ چلا کہ تقریباً70فیصد رقبہ ہے وہ مال و دولت سے مالا مال ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فیلڈ مارشل کر رہے ہیں نے کہا کہ انھوں نے ہوتے ہیں پی ایم
پڑھیں:
بعض ججز طاقتوروں کو خوش کرنے کیلئے اپنے ضمیر کا سودا کرلیتے ہیں؛ جسٹس صلاح الدین
عمر کوٹ ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 09 اگست 2025ء ) سپریم کورٹ کے جج جسٹس صلاح الدین پہنور کا کہنا ہے کہ بعض ججز طاقتوروں کو خوش کرنے کیلئے اپنے ضمیر کا سودا کرلیتے ہیں، اگر ہم کچھ نہیں کر سکتے تو استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں۔ عمرکوٹ بار ایسوسی ایشن کی حلف برداری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ملک کے عدالتی نظام اور اداروں کی کوتاہیوں پر گہرے افسوس کا اظہار کیا اور ان ججز، وکلاء و پولیس افسران کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو عوام کو انصاف کی فراہمی میں تاخیر یا انکار کے ذمہ دار ہیں، انہوں نے "انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے" کے مقولے کو بالکل درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو عدالت انصاف نہ دے اس کا کوئی فائدہ نہیں، ایک خاتون کو وراثت کا فیصلہ آنے میں 71 سال لگے جب کہ ایک اور شخص کا حادثے سے متعلق کیس 24 سال بعد نمٹایا گیا۔(جاری ہے)
جسٹس صلاح الدین پہنور نے جاگیرداروں اور بیوروکریٹس کے اثر و رسوخ کے استعمال کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بعض جج طاقتوروں کو خوش کرنے کے لیے اپنے ضمیر کا سودا کر لیتے ہیں، ججوں کو بے خوف ہو کر دیانتداری سے فیصلے دینے چاہئیں کیوں کہ حلف سے غداری عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتی ہے، ہم کس کے جج ہیں عوام کے یا اشرافیہ کے؟ کبھی کبھی لگتا ہے ہم جج نہیں ڈاکو ہیں، پاکستان میں لوگ نیکی کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر عمل اس کے برعکس ہوتا ہے، ججز عوام سے براہ راست تعلق قائم کریں کیوں کہ ہمیں خود کو الگ تھلگ رکھنا چھوڑ کر دیکھنا ہوگا کہ لوگ کیسے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بالائی سندھ میں "ڈاکو کلچر" اور زیریں سندھ میں "منشیات کی وباء" ہے، خاص طور پر عمرکوٹ میں یہ پورے نظام کو مفلوج کرچکی ہے، سکھر کے ایک ایس ایس پی نے جرائم پر قابو پانے میں بے بسی کا اعتراف کیا، عمرکوٹ پولیس جرائم روکنے کی بجائے بھتہ خوری میں مصروف ہے، ایک سابق سیشن جج کے دور میں جرائم میں اضافہ ہوا، ہمارے حکمران جھوٹ بولتے ہیں، ہمارے ادارے جھوٹ بولتے ہیں، اور عوام نے بھی سچ بولنا چھوڑ دیا ہے۔ اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو یہ نظام تباہ ہو جائے گا۔