بھارتی فلم انڈسٹری کی تازہ بحث کا مرکز بننے والی فلم سردار جی 3 ایک نئے تنازعے کی زد میں ہے، جہاں پاکستانی اداکارہ ہانیہ عامر کو مبینہ طور پر آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) سے تبدیل کرنے کی اطلاعات نے شائقین کو چونکا دیا ہے۔

بھارت میں پاکستانی فنکاروں پر پابندی کے بعد یہ خبر ایک افواہ کے طور پر سامنے آئی، لیکن تیزی سے آن لائن فضا میں پھیلتی چلی گئی۔

فلم کے ہیرو دلجیت دوسانجھ، جو اپنی نرم مزاجی اور فنکارانہ صلاحیتوں کے باعث دونوں ملکوں میں خاصے مقبول تھے، اس وقت بھارت میں تنقید کی زد پر ہیں۔ جس کی وجہ پاکستان سے اُن کی قربت، خصوصاً ہانیہ عامر کے ساتھ اُن کا کام ہے۔ جہاں پاکستان میں دلجیت کو ہیرو سمجھا جا رہا ہے، وہیں بھارت میں ان کے خلاف نفرت انگیز مہم چل رہی ہے۔

بھارتی حکومت کی جانب سے پاکستانی فنکاروں پر کام کرنے کی پابندی کے بعد رواں برس متعدد فلموں کو روک دیا گیا، جن میں سب سے پہلے فواد خان کی فلم عبیر گلال کو شیلف کر دیا گیا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ سردار جی 3 کا انجام بھی یہی ہو گا، لیکن 22 جون کو جب فلم کا ٹریلر ریلیز ہوا تو ان تمام قیاس آرائیوں کو جھٹلا دیا گیا۔ ٹریلر میں نہ صرف ہانیہ عامر کے سینز شامل تھے، بلکہ وہ مرکزی کرداروں میں نمایاں نظر آئیں۔

دلجیت دوسانجھ نے دباؤ کے باوجود فلم کو اوورسیز میں ریلیز کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن بھارت میں ان کی حمایت کرنے والے ساتھی فنکاروں نے مکمل خاموشی اختیار کر لی۔ نہ کسی نے ٹریلر شیئر کیا، نہ کوئی تبصرہ سامنے آیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دلجیت اس وقت انڈسٹری میں تنہا کھڑے ہیں۔

دلجیت کی اس ’جرأت‘ پر بھارتی سوشل میڈیا دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔ ایک طرف میکا سنگھ اور بی پراک جیسے نامور فنکار تنقید کر رہے ہیں، تو دوسری جانب فلم اور دلجیت کے بائیکاٹ کی مہم بھی زور پکڑ رہی ہے۔

سب سے دلچسپ موڑ وہ ہے جہاں بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ ہانیہ کے سینز کسی بھارتی اداکارہ سے دوبارہ شوٹ کرائے جائیں گے۔ جب ٹریلر میں ہانیہ کی موجودگی نے اس دعوے کو غلط ثابت کیا، تو اب نئی چہ مگوئیاں جنم لے رہی ہیں: کیا ہانیہ کو AI کے ذریعے فلم میں برقرار رکھا جائے گا؟ یعنی ان کے چہرے پر کسی اور کا چہرہ لگا دیا جائے گا تاکہ فلم بھارت میں ریلیز کی جا سکے۔

یہ قیاس آرائیاں اپنی جگہ، لیکن فلم کے پروڈیوسرز اور دلجیت دوسانجھ کی جانب سے ابھی تک کوئی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی۔ ایسے میں سچ کیا ہے اور افواہ کیا، یہ جاننے کے لیے شاید مداحوں کو فلم کی ریلیز تک انتظار کرنا پڑے گا۔

یاد رہے کہ سردار جی 3 کو 27 جون کو اوورسیز شائقین کے لیے ریلیز کیا جا رہا ہے، اور ہانیہ عامر کے پاکستانی فینز اس لمحے کے لیے خاصے پُرجوش ہیں۔

TagsShowbiz News Urdu.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: ہانیہ عامر بھارت میں

پڑھیں:

بھارت، امریکا تعلقات میں نیا موڑ

امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں یہ بات تو کسی تردد کے بغیر کہی جا سکتی ہے کہ امریکا کی تاریخ میں ان جیسا صدر نہیں گزرا۔ امریکا کے اندر اور دنیا بھر میں سیاسی تجزیہ نگار اور مبصرین ان کے رویے اور بیانات پر حیران ہیں۔

امریکا میں تاثر عام ہے کہ صدر جھوٹ بولنے میں بلا کی مہارت رکھتے ہیں اور اس پر نادم بھی نہیں ہوتے۔ امریکا کے ایک مقبول اور ممتاز صدر آئزن ہاور کہا کرتے تھے کہ امریکا کے صدر کے پاس جو سب سے موثر ہتھیار ہے، وہ لوگوں کا اس کے منہ سے نکلی ہر بات پر اعتبار ہے۔ یہاں ٹرمپ کے معاملے میں صورت یہ ہے کہ ان کے منہ سے نکلے الفاظ کا اعتبار یہ بات طے کرتی ہے کہ وہ الفاظ کس کے بارے میں کہے گئے ہیں۔

آیا وہ دوست ہے یا دشمن‘ اپنی جماعت کا ہے کہ مخالف پارٹی کا۔ گو کہ صدر ٹرمپ کی اس طرح کی باتیں ایک عالمی طاقت کے سربراہ کو زیب نہیں دیتیں لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ان کی کہی ہوئی اکثر باتیں مزاحیہ پن کا شاہکار ہوتی ہیں اور سننے والا ان سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مثال کے طور پر اپنے عرصہ صدارت کے آغاز میں انھوں نے امریکا کے ایک مقبول ٹیلی ویژن ہوسٹ ’جو ساربروہ‘ کو قاتل قرار دے دیا۔

انتخابات ابھی ہوئے نہیں تھے لیکن ٹرمپ انھیں ’’عنقریب ہونے والے دھاندلی زدہ الیکشن‘‘ کہا کرتے تھے۔ پھر انھوں نے الزام لگا دیا کہ صدر اوباما ان کی انتخابی مہم کی جاسوسی کروا رہے ہیں۔ اس کے پیچھے شاید امریکی تاریخ میں پیش آنے والے واٹر گیٹ اسکینڈل‘ کا تصور ہو جب امریکی صدر نکسن کو مخالف جماعت کی جاسوسی پر اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ ایک ایسے وقت پر جب دنیا کورونا وائرس کی وبا کی لپیٹ میں تھی اور امریکا میں ہزاروں لوگ اس وباء کا شکار ہو کر ہلاک ہو رہے تھے۔ صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کیا ’’صرف وہی ڈیموکریٹ ایک اچھا ڈیموکریٹ ہے جو وفات پا چکا ہو‘‘۔ڈیمو کریٹ سے مراد مخالف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کا بندہ۔

"The only good democrat is a dead democrat" یہ بلاشبہ ایک سفاکانہ تبصرہ ہے۔

صدر ٹرمپ کا ایک اور ’’امتیاز‘‘ یہ ہے کہ آپ ان کی اگلی بات یا عمل کی پیشگوئی نہیں کر سکتے۔ عین ممکن ہے کہ وہ اپنے ہی قائم کردہ کسی تاثر کے بالکل الٹ حرکت یا فیصلہ کر دیں۔ ابھی حال ہی میں جب فلسطین کے معاملے پر اہم مسلم ممالک کے سربراہان صدر ٹرمپ سے ملاقاتیں کر رہے تھے تو ترکی کے صدر اردوان سے ون ٹو ون ملاقات کے موقع پر دونوں صدور ساتھ ساتھ بیٹھ کر پریس سے مخاطب تھے۔

صدر ٹرمپ نے بات شروع کرتے ہوئے کہا ’’صدر اردوان میرے قریبی دوست ہیں۔ گزشتہ چار برس سے ہم ایک دوسرے کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔ جب مجھے ایک دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعے سیاست سے دیس نکالا دے دیا گیا‘‘ … یہاں ٹرمپ ڈرامائی انداز میں رکتے ہیں اور صدر اردوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’دھاندلی زدہ الیکشن کے بارے میں آپ سے بہتر کون جانتا ہے۔‘‘حالیہ دنوں میں پاکستان اور بھارت بھی صدر ٹرمپ کی گفتگو کا خاص موضوع رہے‘ بالخصوص دونوں ملکوں میں ہونے والی 4 روزہ جنگ پر صدر ٹرمپ نے بہت دلچسپ تبصرے کیے۔ پہلے تو انھوں نے جنگ رکوانے کو اپنا کارنامہ قرار دیا اور ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو دنیا بڑے خطرے سے دوچار ہو جاتی۔

دو روز قبل میامی میں امریکن بزنس فورم سے خطاب میں انھوں نے کہا ’’گزشتہ آٹھ مہینوں میں‘ میں نے آٹھ جنگیں ختم کروائی ہیں‘‘۔ ان میں سے آخری جنگ پاکستان اور بھارت کی تھی۔ پھر فرمایا ’’میں دونوں ملکوں کے ساتھ تجارتی معاہدے کے قریب تھا کہ ایک اخبار کی شہہ سرخی میں دونوں ملکوں کی جنگ کی خبر تھی‘ اخبار کا نام نہیں لوں گا کیونکہ یہ اکثر جھوٹی خبریں چھاپتا ہے‘ پھر پتہ چلا کہ واقعی جنگ ہو رہی ہے۔ آٹھ طیارے…سات طیارے تو گرا دیے گئے۔ آٹھواں شدید زخمی تھا … یہی کہنا بنتا کہ آٹھ طیارے گرے۔‘‘ اور پھر انھوں نے وہی بات دھرائی کہ میں نے دونوں ملکوں سے کہا کہ جنگ کرو گے تو تجارتی معاہدہ نہیں ہو گا۔

ان دنوں انھوں نے بھارتی وزیراعظم مودی کی سُبکی کا کوئی موقع نہیں جانے دیا اور پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ حتی کہ اس تاثر کے زیر اثر نریندر مودی نے ٹرمپ کے سامنے نہ آنے کی شعوری کوشش شروع کر دی۔ لیکن کہانی میں اب ایک اور ڈرامائی موڑ آ چکا ہے۔ امریکا اور بھارت کے درمیان عسکری تعاون کا دس سالہ معاہدہ ہو گیا ہے۔

دونوں ملکوں کے وزراء دفاع نے اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ معاہدہ ایسے وقت ہوا ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے معاملات کو طے کرنے کے لیے بات چیت آخری مراحل میں ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ امریکا کی طرف سے بھارت پر بھاری محصولات عائد کرنے کا معاملہ بھی بھارت کی سہولت کے مطابق طے پا جائے گا۔

صدر ٹرمپ کی ان ڈرامائی حرکتوں سے ایک تاثر یہ ملتا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امریکا سے زیادہ سے زیادہ قریب ہونے کی دوڑ شروع کرانا چاہتے ہیں۔ طیارے گرنے کے بار بار ذکر کے بعد اب امریکا بھارت معاہدے کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ بھارت کو امریکی اسلحے تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے اور اس کے لیے جدید ترین امریکی طیارے F-35 ملنے کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔

اسی طرح امریکا کی کوشش ہو گی کہ اسلحہ کے لیے بھارت کے روس پر انحصار کو ختم کرا دے۔ نئی صورتحال میں پاکستان اور چین کے لیے پیغام ہے کہ خطے میں امریکی مفادات کی حفاظت کے لیے بھارت پر امریکی انحصار کا تصور برقرار ہے۔ پاکستان کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ امریکی مفاد میں کسی نئی جنگ یا محاذ آرائی کا حصہ نہ بنے۔

متعلقہ مضامین

  • اسمگلنگ سے بچائے گئے اڑیال کے تین بچوں کی مصنوعی خوراک پر کامیاب پرورش
  • انوشکا شرما سات سال بعد اسکرین پر واپسی کیلئے تیار
  • حیدرآباد:کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر عامر نواز وڑائچ آئینی ترمیم کے مسودے کے خلاف وکلاء کنونشن سے خطاب کررہے ہیں
  • گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان سے مسجد الحرام مکہ مکرمہ کے معلم قاری عبدالمنان ناصر ملاقات کررہے ہیں
  • مصنوعی ذہانت اور میڈیا کی نئی دنیا
  • مائیکل جیکسن کی بائیوپک کا پہلا ٹریلر ریلیز، موسیقی کے بادشاہ کا کردار کون نبھا رہا ہے؟
  • وکلاء برادری اور پیپلزپارٹی کے درمیان دل کا رشتہ: گورنر پنجاب
  • بھارت، امریکا تعلقات میں نیا موڑ
  • سردارایاز صادق سے اپوزیشن وفد ملاقات، قائدِ حزبِ اختلاف کی تعیناتی پر گفتگو
  • اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے اپوزیشن وفد کی ملاقات، قائد حزب اختلاف کے تقرر کا مطالبہ