افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مغرب کی انصاف پسندی کی حقیقت
انسان کا انفرادی رویّہ اور انسانی گروہوں کا اجتماعی رویّہ کبھی اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک یہ شعور اور یہ یقین انسانی سیرت کی بنیاد میں پیوست نہ ہو کہ ہم کو خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اب غور طلب یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اس شعور و یقین کے غائب یا کمزور ہوتے ہی انسانی سیرت و کردار کی گاڑی بُرائی کی راہ پر چل پڑتی ہے؟ اگر عقیدۂ آخرت حقیقت ِ نفس الامری کے مطابق نہ ہوتا اور اُس کا انکار حقیقت کے خلاف نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس اقرار وانکار کے یہ نتائج ایک لزومی شان کے ساتھ مسلسل ہمارے تجربے میں آتے۔ ایک ہی چیز سے پیہم صحیح نتائج کا برآمد ہونا اور اس کے عدم سے نتائج کا ہمیشہ غلط ہو جانا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ وہ چیز بجاے خود صحیح ہے۔
٭…٭…٭
اس کے جواب میں بسااوقات یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ بہت سے منکرین آخرت ایسے ہیں جن کا فلسفۂ اخلاق اور دستورِعمل سراسر دہریت و مادّہ پرستی پر مبنی ہے۔ پھر بھی وہ اچھی خاصی پاک سیرت رکھتے ہیں اور ان سے ظلم و فساد اور فسق و فجور کا ظہور نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنے معاملات میں نیک اور خلقِ خدا کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔ لیکن اس استدلال کی کمزوری بادنیٰ تامل واضح ہوجاتی ہے۔
تمام مادّہ پرستانہ لادینی فلسفوں اور نظاماتِ فکر کی جانچ پڑتال کرکے دیکھ لیا جائے، کہیں اُن اخلاقی خوبیوں اور عملی نیکیوں کے لیے کوئی بنیاد نہ ملے گی جن کا خراجِ تحسین اِن ’نیکوکار‘ دہریوں کو دیا جاتا ہے۔ کسی منطق سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ ان لادینی فلسفوں میں راست بازی، امانت، دیانت، وفاے عہد، عدل، رحم، فیاضی، ایثار، ہمدردی، ضبطِ نفس، عفت، حق شناسی اور اداے حقوق کے لیے محرکات موجود ہیں۔ خدا اور آخرت کو نظرانداز کردینے کے بعد اخلاق کے لیے اگر کوئی قابلِ عمل نظام بن سکتا ہے تو وہ صرف افادیت (Utilitarianism) کی بنیادوں پر بن سکتا ہے۔ باقی تمام اخلاقی فلسفے محض فرضی اور کتابی ہیں نہ کہ عملی۔ اور افادیت جو اخلاق پیدا کرتی ہے اسے خواہ کتنی ہی وسعت دی جائے، بہرحال وہ اس سے آگے نہیں جاتا کہ آدمی وہ کام کرے جس کا کوئی فائدہ اِس دنیا میں اُس کی ذات کی طرف، یا اُس معاشرے کی طرف جس سے وہ تعلق رکھتا ہے، پلٹ کر آنے کی توقع ہو۔ یہ وہ چیز ہے جو فائدے کی اُمیداور نقصان کے اندیشے کی بنا پر انسان سے سچ اور جھوٹ، امانت اور خیانت، ایمان داری اور بے ایمانی، وفا اور غدر، انصاف اور ظلم، غرض ہر نیکی اور اس کی ضد کا حسب ِ موقع ارتکاب کراسکتی ہے۔
٭…٭…٭
اِن اخلاقیات کا بہترین نمونہ موجودہ زمانے کی انگریز قوم (مغرب) ہے جس کو اکثر اس امر کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے کہ مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات رکھنے اور آخرت کے تصور سے خالی ہونے کے باوجود اس قوم کے افراد بالعموم دوسروں سے زیادہ سچے، کھرے، دیانت دار، عہد کے پابند، انصاف پسند اور معاملات میں قابلِ اعتماد ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افادی اخلاقیات کی ناپایداری کا سب سے زیادہ نمایاں عملی ثبوت ہم کو اسی قوم کے کردار میں ملتا ہے۔ اگر فی الواقع انگریزوں کی سچائی، انصاف پسندی، راست بازی اور عہد کی پابندی اس یقین و اذعان پر مبنی ہوتی کہ یہ صفات بجاے خود مستقل اخلاقی خوبیاں ہیں، تو آخر یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک ایک انگریز تو اپنے شخصی کردار میں ان کا حامل ہوتا مگر ساری قوم مل کر جن لوگوں کو اپنا نمایندہ اور اپنے اجتماعی اُمور کا سربراہِ کار بناتی ہے وہ بڑے پیمانے پر اس کی سلطنت اور اس کے بین الاقوامی معاملات کے چلانے میں علانیہ جھوٹ، بدعہدی، ظلم، بے انصافی اور بددیانتی سے کام لیتے اور پوری قوم کا اعتماد ان کو حاصل رہتا؟ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ لوگ مستقل اخلاقی قدروں کے قائل نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے اور نقصان کے لحاظ سے بیک وقت دو متضاد اخلاقی رویّے اختیار کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں؟
٭…٭…٭
تاہم اگر کوئی منکرِ خداو آخرت فی الواقع دنیا میں ایسا موجود ہے جو مستقل طور پر بعض نیکیوں کا پابند اور بعض بدیوں سے مجتنب ہے، تو درحقیقت اس کی یہ نیکی اور پرہیزگاری اس کے مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ اُن مذہبی اثرات کا نتیجہ ہے جو غیرشعوری طور پر اس کے نفس میں متمکن ہیں۔ اس کا اخلاقی سرمایہ مذہب سے چرایا ہوا ہے اور اس کو وہ ناروا طریقے سے لامذہبی میں استعمال کر رہا ہے، کیونکہ وہ اپنی لامذہبی و مادّہ پرستی کے خزانے میں اِس سرمایے کے ماخذ کی نشان دہی ہرگز نہیں کرسکتا۔ (تفہیم القرآن، جلد دوم، ص 266-267)
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اور اس
پڑھیں:
سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ صاحب تفہیم القرآن، بانی جماعت اسلامی!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مولانا مودودیؒ ایک نا بغہ روزگار شخصیت تھے جن کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔مولانا سید مودودی ؒ نے اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر پیش کیا اورقرآن و سنت کی روشنی میں جدید مسائل کے حل پیش کیے۔ ان کی تصانیف نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا با لخصوص مصر، ترکی، تیونس، الجزائر، اور دیگر ممالک میں اسلامی تحریکوں کو متاثر کیا۔ ‘’’الجہاد فی الاسلام‘‘، ’’اسلامی ریاست‘‘،’’سیرت رسول ﷺ‘‘، ’’سود‘‘، ’’پردہ ‘‘، اور’’رسائل و مسائل‘‘ جیسی مشہور و معروف تصانیف ان کے قلم کا شاہکار ہیں۔’’الجہاد فی الاسلام‘‘ ان کی پہلی بڑی تصنیف تھی، جسے 24 سال کی عمر میں لکھا۔ علامہ محمد اقبال نے اس کتاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ’’اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانون صلح و جنگ پر ایک بہترین تصنیف ہے‘‘۔سید مودودیؒ سے راقم کو کبھی ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ ان سے میرا پہلا تعارف بھی ان کی کتب کے ذریعے ہوا۔
مولانا مودودیؒ کے نزدیک اسلام محض چند عبادات کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک کامل تہذیب اور نظام زندگی ہے۔ انہوں نے مغربی تہذیب کے ’’دین و سیاست کی جدائی‘‘ کے نظریے کی مخالفت کی اور کہا کہ اسلام میں دین اور سیاست ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں علامہ اقبال شعر لکھاکہ: ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی پیدائش: 25 ستمبر 1903ء، وفات: 22 ستمبر 1979ء کو ہوئی۔وہ بیسویں صدی کے عظیم اسلامی مفکر، مفسر قرآن، مصنف، صحافی، اور سیاسی رہنما تھے۔ آپ کا شمار دنیا کے مؤثر ترین مسلم علماء میں ہوتا ہے۔ آپ کی فکر اور تحریک نے نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو متاثر کیا۔ مولانا مودودیؒ کی 46ویں برسی 22 ستمبر کو منائی جا رہی ہے، جو ان کی گراں قدر خدمات کو یاد کرنے کا ایک موقع ہے۔
مولانا مودودی ؒ نے جماعت اسلامی کی شکل میں ایسی تحریک اٹھائی جو خالصتا ً حکومت الٰہیہ کے قیام کی تحریک تھی۔اسلام کے نام پر مسلم معاشروں میں بہت سی جماعتیں پہلے سے کام کررہی تھیں مگر وہ سب اسلام کو ایک مذہب اور عبادت و ریاضت سے آگے بڑھ کر دیکھنے کو بھی تیار نہیں تھیں،جبکہ سید مودودیؒ نے اسلام کو ایک دین اور نظام زندگی کے طور پر پیش کیا۔بلا شبہ یہ ان کا بڑا کارنامہ اور امت مسلمہ پر عظیم احسان ہے۔
1933ء میں مولانا مودودیؒ نے ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کا اجراء کیا، جو ان کے افکار و خیالات کے اظہار کا اہم ذریعہ بنا۔ اس رسالے کے ذریعے انہوں نے براہ راست مسلمانوں سے خطاب کیا اور اسلام کے بنیادی اصولوں کو واضح کیا۔مولانا مودودیؒ کی سب سے عظیم دینی خدمت ’’تفہیم القرآن‘‘ ہے، جو چھ جلدوں پر مشتمل قرآن مجید کی تفسیر اور ترجمہ ہے۔ اس کی تدوین میں انہوں نے 30 سال (1942ء تا 1972ء) صرف کیے۔ یہ تفسیر روایتی تفسیر سے ہٹ کر لکھی گئی، جس میں معاشیات، سماجیات، تاریخ، اور سیاسیات جیسے موضوعات پر قرآن کے نقطہ نظر کو واضح کیا گیا۔جدید مسائل کے حوالے سے قرآن کریم کی رہنمائی۔قرآن کے فلسفہ اور مقاصد کی گہری شرح۔سیرت نبوی ﷺ اور تاریخی واقعات کی روشنی میں آیات کی تشریح۔ اس تفسیر کا ترجمہ انگریزی، عربی، ہندی، بنگالی، ملیالم، ماراٹھی، پشتو، اور دیگر کئی زبانوں میں ہو چکا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی کے عظیم اسلامی مفکر تھے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور انسانیت کی ہدایت کے لیے وقف کی۔ انہوں نے نہ صرف علمی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں، بلکہ جماعت اسلامی کی شکل میں ایک تحریک بھی چلائی، جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو متاثر کیا۔ ان کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ اور دیگر تصانیف آج بھی اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے اور اسلامی تعلیمات کو واضح کرنے کا ذریعہ ہیں۔
مولانا مودودیؒ نے صرف علمی و فکری میدان میں ہی خدمات انجام نہیں دیں، بلکہ انہوں نے معاشرتی اصلاح اور انسانیت کی بہبود کے لیے بھی کام کیا۔ انہوں نے ’’خدمت خلق‘‘کو اسلامی تعلیمات کا اہم حصہ قرار دیا اور اس پر عمل بھی کیا۔ ان کی قیادت میں جماعت اسلامی نے سماجی خدمات کے متعدد منصوبے شروع کیے، جن میں غریبوں کی مدد، تعلیمی اداروں کا قیام، اور مفت طبی امداد شامل تھے۔مولانا مودودیؒ کی 46ویں برسی پر ہمیں ان کے افکار و نظریات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ ان کی جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکے۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ’’توحید‘‘کا حقیقی شعور دیا اور اسلام کو ایک کامل ضابطہ حیات کے طور پر پیش کیا۔ آج کے دور میں جب اسلام کو غلط تشریحات کے ذریعے پیش کیا جا رہا ہے، مولانا مودودیؒ کی فکر ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
مولانا مودودیؒ نے 26 اگست 1941ء کو جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی، جو ایک اسلامی تحریک اور سیاسی جماعت تھی۔ اس کا مقصد اسلام کے نفاذ اور اسلامی نظام حیات کی بحالی تھا۔ ابتداء میں مولانا مودودیؒ ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھے، لیکن بعد میں پاکستان کے اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے کوشاں رہے۔
مولانا مودودیؒ کی فکر اور تحریروں نے عالمی سطح پر اسلامی تحریکوں کو متاثر کیا۔ اخوان المسلمون مصر،فلسطین میں حماس اور شمالی امریکہ میں اسلامک سرکل جیسی تنظیموں نے ان کے افکار سے استفادہ کیا۔ ترکی، تیونس، الجزائر، اور مصر میں اسلامی جماعتوں کی کامیابی میں مولانا مودودیؒ کے لٹریچر نے کلیدی کردار ادا کیا۔1979ء میں مولانا مودودیؒ کو سعودی عرب کے شاہ فیصل انٹرنیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا، جو ان کی اسلامی خدمات کا اعتراف تھا۔ انہوں نے مدینہ اسلامی یونیورسٹی کے قیام اور انتظام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
1953ء میں تحریک ختم نبوت کے دوران مولانا مودودیؒ کو گرفتار کیا گیا اور ایک فوجی عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی۔ تاہم، بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے یہ سزا تبدیل کر دی گئی۔ مولانا نے سزا کے خلاف اپیل کرنے سے انکار کر دیا اور کہا: ’’زندگی و موت کے فیصلے زمینوں پر نہیں آسمانوں پر ہوتے ہیں ‘‘۔اگر اللہ کے ہاں میری موت کا فیصلہ ہوچکا ہے تو مجھے کوئی بچا نہیں سکتا اور اگر وہاں ابھی میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا تو یہ سارے الٹے بھی لٹک جائیں تب بھی میرا بال بیکا نہیں کرسکتے۔
مولانا مودودیؒ نے ہمیشہ اسلامی اصولوں کی تشریح میں ’’توحید‘‘اور ’’حاکمیت الہی‘‘ کو مرکزی حیثیت دی، اور ان کی کوشش تھی کہ اسلام کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا جائے۔
مولانا مودودیؒ 22 ستمبر 1979ء کو لاہور میں وفات پا گئے۔ ان کی نماز جنازہ قذافی سٹیڈیم لاہور میں ادا کی گئی، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ انہیں 75 سال کی عمر پائی، لیکن ان کا علمی و فکری ورثہ آج بھی زندہ ہے۔مولانا مودودیؒ نے اپنی زندگی میں 120 سے زیادہ کتابیں لکھیں، جو دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ ان کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی، اور یہ جدید دور کی سب سے مقبول تفسیروں میں سے ایک ہے۔