Jasarat News:
2025-08-11@19:01:32 GMT

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مغرب کی انصاف پسندی کی حقیقت
انسان کا انفرادی رویّہ اور انسانی گروہوں کا اجتماعی رویّہ کبھی اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک یہ شعور اور یہ یقین انسانی سیرت کی بنیاد میں پیوست نہ ہو کہ ہم کو خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اب غور طلب یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اس شعور و یقین کے غائب یا کمزور ہوتے ہی انسانی سیرت و کردار کی گاڑی بُرائی کی راہ پر چل پڑتی ہے؟ اگر عقیدۂ آخرت حقیقت ِ نفس الامری کے مطابق نہ ہوتا اور اُس کا انکار حقیقت کے خلاف نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس اقرار وانکار کے یہ نتائج ایک لزومی شان کے ساتھ مسلسل ہمارے تجربے میں آتے۔ ایک ہی چیز سے پیہم صحیح نتائج کا برآمد ہونا اور اس کے عدم سے نتائج کا ہمیشہ غلط ہو جانا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ وہ چیز بجاے خود صحیح ہے۔
٭…٭…٭

اس کے جواب میں بسااوقات یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ بہت سے منکرین آخرت ایسے ہیں جن کا فلسفۂ اخلاق اور دستورِعمل سراسر دہریت و مادّہ پرستی پر مبنی ہے۔ پھر بھی وہ اچھی خاصی پاک سیرت رکھتے ہیں اور ان سے ظلم و فساد اور فسق و فجور کا ظہور نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنے معاملات میں نیک اور خلقِ خدا کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔ لیکن اس استدلال کی کمزوری بادنیٰ تامل واضح ہوجاتی ہے۔
تمام مادّہ پرستانہ لادینی فلسفوں اور نظاماتِ فکر کی جانچ پڑتال کرکے دیکھ لیا جائے، کہیں اُن اخلاقی خوبیوں اور عملی نیکیوں کے لیے کوئی بنیاد نہ ملے گی جن کا خراجِ تحسین اِن ’نیکوکار‘ دہریوں کو دیا جاتا ہے۔ کسی منطق سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ ان لادینی فلسفوں میں راست بازی، امانت، دیانت، وفاے عہد، عدل، رحم، فیاضی، ایثار، ہمدردی، ضبطِ نفس، عفت، حق شناسی اور اداے حقوق کے لیے محرکات موجود ہیں۔ خدا اور آخرت کو نظرانداز کردینے کے بعد اخلاق کے لیے اگر کوئی قابلِ عمل نظام بن سکتا ہے تو وہ صرف افادیت (Utilitarianism) کی بنیادوں پر بن سکتا ہے۔ باقی تمام اخلاقی فلسفے محض فرضی اور کتابی ہیں نہ کہ عملی۔ اور افادیت جو اخلاق پیدا کرتی ہے اسے خواہ کتنی ہی وسعت دی جائے، بہرحال وہ اس سے آگے نہیں جاتا کہ آدمی وہ کام کرے جس کا کوئی فائدہ اِس دنیا میں اُس کی ذات کی طرف، یا اُس معاشرے کی طرف جس سے وہ تعلق رکھتا ہے، پلٹ کر آنے کی توقع ہو۔ یہ وہ چیز ہے جو فائدے کی اُمیداور نقصان کے اندیشے کی بنا پر انسان سے سچ اور جھوٹ، امانت اور خیانت، ایمان داری اور بے ایمانی، وفا اور غدر، انصاف اور ظلم، غرض ہر نیکی اور اس کی ضد کا حسب ِ موقع ارتکاب کراسکتی ہے۔
٭…٭…٭

اِن اخلاقیات کا بہترین نمونہ موجودہ زمانے کی انگریز قوم (مغرب) ہے جس کو اکثر اس امر کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے کہ مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات رکھنے اور آخرت کے تصور سے خالی ہونے کے باوجود اس قوم کے افراد بالعموم دوسروں سے زیادہ سچے، کھرے، دیانت دار، عہد کے پابند، انصاف پسند اور معاملات میں قابلِ اعتماد ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افادی اخلاقیات کی ناپایداری کا سب سے زیادہ نمایاں عملی ثبوت ہم کو اسی قوم کے کردار میں ملتا ہے۔ اگر فی الواقع انگریزوں کی سچائی، انصاف پسندی، راست بازی اور عہد کی پابندی اس یقین و اذعان پر مبنی ہوتی کہ یہ صفات بجاے خود مستقل اخلاقی خوبیاں ہیں، تو آخر یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک ایک انگریز تو اپنے شخصی کردار میں ان کا حامل ہوتا مگر ساری قوم مل کر جن لوگوں کو اپنا نمایندہ اور اپنے اجتماعی اُمور کا سربراہِ کار بناتی ہے وہ بڑے پیمانے پر اس کی سلطنت اور اس کے بین الاقوامی معاملات کے چلانے میں علانیہ جھوٹ، بدعہدی، ظلم، بے انصافی اور بددیانتی سے کام لیتے اور پوری قوم کا اعتماد ان کو حاصل رہتا؟ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ لوگ مستقل اخلاقی قدروں کے قائل نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے اور نقصان کے لحاظ سے بیک وقت دو متضاد اخلاقی رویّے اختیار کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں؟
٭…٭…٭

تاہم اگر کوئی منکرِ خداو آخرت فی الواقع دنیا میں ایسا موجود ہے جو مستقل طور پر بعض نیکیوں کا پابند اور بعض بدیوں سے مجتنب ہے، تو درحقیقت اس کی یہ نیکی اور پرہیزگاری اس کے مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ اُن مذہبی اثرات کا نتیجہ ہے جو غیرشعوری طور پر اس کے نفس میں متمکن ہیں۔ اس کا اخلاقی سرمایہ مذہب سے چرایا ہوا ہے اور اس کو وہ ناروا طریقے سے لامذہبی میں استعمال کر رہا ہے، کیونکہ وہ اپنی لامذہبی و مادّہ پرستی کے خزانے میں اِس سرمایے کے ماخذ کی نشان دہی ہرگز نہیں کرسکتا۔ (تفہیم القرآن، جلد دوم، ص 266-267)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اور اس

پڑھیں:

زبانی تاریخ: کیا اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اگست 2025ء) زبانی تاریخ کا تعلق فرد کی یادداشت اور حافظے سے ہوتا ہے۔ انسان کے ذہن میں دور اور نزدیک کے واقعات اور اشخاص کی یادیں ہوتی ہیں۔ ہمارا ذہن طویل عرصے میں ہونے والے واقعات میں یا تو کوئی اضافہ کرتا ہے یا اس کے کچھ حصوں کو یادداشت سے نکال دیتا ہے۔ دوسری وہ زبانی تاریخ ہوتی ہے جس کو بیان کرنے والا شخص اس کا عینی شاہد ہوتا ہے۔

ایسے کسی فرد سے لیے گئے انٹرویو میں دیکھا جاتا ہے کہ اس کے بیان میں کوئی تضاد ہے یا نہیں۔ اس کا تعلق انٹرویو لینے والے پر بھی ہوتا ہے کہ اس سے وہ سوالات کرے جن کا تعلق اس کی ذات اور واقعات سے ہو۔

زبانی تاریخ کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا حصہ تاریخی شخصیات کے بارے میں ہے۔

(جاری ہے)

ان کے بارے میں ان کے اپنے عہد اور بعد میں جو زبانی بیانات مشہور ہوئے وہ لوک کہانیوں کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں۔

مثلاً مغل بادشاہ اکبر کے بارے میں ایسی بہت سی روایتیں ہیں جن کا تعلق مستند تاریخ سے نہیں ہے۔ ان روایتوں کے ذریعے اکبر کی رواداری کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ ایک بار جب وہ پیدل معین الدین چشتی کے مزار کی زیارت کے لیے جا رہا تھا تو راستے میں اسے ایک مندر سے گانے کی آواز سنائی دی۔ وہ اس آواز سے متاثر ہو کر مندر میں گیا جہاں میرا بائی بھجن گا رہی تھی۔

وہ اسے سنتا رہا۔ جب اس کا بھجن ختم ہوا تو اکبر نے اپنا ہیروں کا ہار اتار کر اس کے گلے میں ڈال دیا اور خاموشی سے مندر سے باہر آ گیا۔ میرا بائی کو بعد میں پتہ چلا کہ یہ ہار اکبر نے اس کے گلے میں ڈالا تھا۔

ڈاکٹر مبارک علی کی مزید تحاریر:
کیا تاریخ اپنے آپ کو دُہراتی ہے؟

خاموشی – ڈاکٹر مبارک علی کی تحریر

اکبر سے ایسی دیگر کئی کہانیاں منصوب ہیں۔

اس کے دربار میں بیربل اور ملا دوپیازہ کا ذکر ہے جن کے لطیفے مشہور ہیں مگر ان کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ زبانی تاریخ میں اولیاء اور پیروں کی شفقت کے بارے میں ان کے مریدوں نے ان کی کرامات فیاضی اور رواداری کی روایت کے ذریعے ان کو عام لوگوں میں مقبول بنا دیا ہے۔ اس کا فائدہ سجادہ نشینوں کو بھی ہے جو کئی نسلوں سے مریدوں سے عطیات وصول کرتے ہیں۔

سیاست میں حصہ لے کر لیڈر بن جاتے ہیں اور اپنے پیر یا ولی کا عرس منا کر اس کی یاد کو باقی رکھتے ہیں۔

زبانی تاریخ کے ذریعے سیاسی شخصیتوں کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ ہندوستان میں سبھاش چندر بوس جو برطانوی حکومت کے سخت مخالف تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہ فرار ہو کر جرمنی چلے گئے۔ وہاں سے ریڈیو پر برطانوی حکومت کی مخالفت میں تقریریں کرتے رہے۔

وہاں سے یہ جاپان چلے گئے اور آزاد ہند فوج کی بنیاد رکھی۔ یہ ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں مر گئے مگر ہندوستان میں ان کے چاہنے والوں نے ان پر یقین نہیں کیا اور یہ مشہور کر دیا کہ وہ زندہ ہیں اور بنگال کے ایک دور دراز گاؤں میں بحیثیت سنیاسی کے زندگی گزار رہے ہیں۔ عقیدت مند لوگ اپنے ہیرو کی موت کا یقین نہیں کرتے۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ہندوستان میں یہ بھی مشہور ہو گیا تھا کہ ہٹلر مرا نہیں ہے بلکہ روپوش ہو گیا ہے اور دوبارہ آ کر انگریزوں سے جنگ کرے گا۔

سیموئل رافیل نے اپنی کتاب ’ہسٹری اینڈ پولیٹکس‘ میں کئی مؤرخین کے مضامین زبانی تاریخ کے سلسلے بھی شامل کیے ہیں۔ ان میں ایک مضمون گیلی پولی کی جنگ پر ہے۔ اس میں آسٹریلیا کے فوجی پہلی مرتبہ یورپی ملکوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ آسٹریلیا اس بات پر خوش تھا کہ یورپی ملکوں نے اس کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے مساوی مقام دیا۔

اس جنگ میں ترکوں کے راہمنا مصطفی کمال نے یورپی فوجوں کو شکست دی۔ شکست کے بعد جب آسٹریلیا کے فوجی واپس آئے اور ان سے جنگ کے بارے میں انٹرویو لیے گئے تو فوجیوں کے بیانات مختلف تھے۔ ان میں سے کچھ نے جنگ میں ہونے والی سختیوں اور مسائل کا ذکر کیا۔ کچھ نے یہ کہا کہ وہ زندہ واپس آ گئے، ان کے لیے یہی بہت ہے لیکن ان میں سے کچھ فوجی ایسے تھے جنہوں نے انٹرویو دینے سے انکار کر دیا کیونکہ اس جنگ کی تلخ یادیں ان کے ذہن میں تھیں اور وہ ان یادوں کے ذریعے دوبارہ سے جنگ کی خونریزی اور مصائب کو بیان کرنا نہیں چاہتے تھے۔

ایک ایسی جنگ جس میں ان کے دوست مارے گئے تھے اور وہ مشکل سے اپنی جان بچا کر آئے تھے۔

یہی یادیں بنگلہ دیش اور پاکستان کے ان افراد کے ذہنوں میں ہیں جن کے رشتے دار اور دوست بنگلہ دیش میں مارے گئے تھے۔ میرے ایک جاننے والے تھے جن کا نام شبیر کاظمی تھا۔ ان کے پانچ بیٹوں کو مکتی باہنی نے قتل کر دیا تھا۔ میرے ساتھ ہونے والی کئی ملاقاتوں میں انہوں نے کبھی بنگلہ دیش کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا۔

میری ملاقات جب ایک بنگلہ دیشی صحافی سے ہوئی جس کے والد اور بھائی کو پاکستانی فوج نے گولی ماری تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ضرور آئے مگر اس نے فوجی ایکشن کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا۔

یہی صورتحال تقسیم کے دوران ہندو مسلم فسادات کی تھی۔ ان فسادات پر لوگوں کے انٹرویوز لیے گئے ہیں لیکن ان میں جذبات کا اس قدر غلبہ ہے کہ پوری صورتحال کو نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔

اگرچہ زبانی تاریخ کو تاریخ نویسی میں اہمیت دی جاتی ہے لیکن زبانی تاریخ کے ذریعے جب زبانی بیانات کو تعصب، نفرت، تعریف اور مدح سرائی کے ذریعے تشکیل دیا جائے تو یہ تاریخ کے بیانیے کو مسخ کرتی ہے۔ زبانی تاریخ سے جھوٹ اور فریب کو نکالنا مشکل عمل ہے اس لیے اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

متعلقہ مضامین

  • کرکٹرز کو کنٹرول کریں
  • ڈپریشن کی 14 عام علامات: اگر یہ علامات 2 ہفتوں سے زائد برقرار رہیں تو ڈاکٹر سے رجوع کریں
  • فیک کاونٹرز اور خواتین کو بطورِ جنگی ہتھیار استعمال کرنا۔۔۔ بھارت کی اخلاقی شکست
  • صدرِ مملکت نے مقبول گوندل کو آڈیٹر جنرل تعینات کرنے کی منظوری دے دی
  • عمران خان کا مخمصہ
  • زبانی تاریخ: کیا اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟
  • نائیکوپ بننے کے کتنے ٹائم بعد سفر ممکن ہوتا ہے؟
  • دھرتی جنگ نہیں امن چاہتی ہے
  • قصائی خانے اور افسر خانے
  • باجوڑ میں خوارج سے سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا(سکیورٹی ذرائع )