’سپریم کورٹ کو ڈی چوک بنا دیا ‘، ججز اور وکیل حامد خان میں سخت جملوں کا تبادلہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں 10 رکنی آئینی بینچ کی سماعت کے دوران وکلا اور ججز کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ عدالت نے کیس کی سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، تاہم وکیل حامد خان نے بینچ پر اعتراض کر دیا۔
دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ نے گزشتہ روز میرے مینٹور قاضی فائز عیسیٰ کا نام لیا، سٹنگ ججز پر الزامات عائد کیے، آپ کو کس نے حق دیا؟ آپ نے کل سپریم کورٹ کو ڈی چوک بنا دیا۔
حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ 10 رکنی بینچ اس کیس کی سماعت نہیں کر سکتا۔
جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ یہ کس قانون کے تحت کہہ رہے ہیں؟ ہمیں وہ قانون بتائیں۔
جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ ہم بارہ کے بارہ کیس سنیں گے، تقریبا کیس کنکلوڈ ہو چکا ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ عزت سے عزت ملتی ہے، آج آپ کی عزت ہے تو سپریم کورٹ کی وجہ سے ہے۔ آج ہم ہیں، کل ہم نہیں ہوں گے۔
حامد خان نے کہا کہ ’آپ غصے میں ہیں، کیس نہ سنیں‘، جس پر جسٹس امین الدین نے جواب دیا کہ ہم نے بینچ بنا دیا ہے، آپ کو اعتراض ہے تو بتا دیں۔
حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ 13 رکنی بینچ کے فیصلے پر نظرثانی کو 12 رکنی بینچ نہیں سن سکتا، تاہم جسٹس امین الدین نے اعتراض مسترد کر دیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے وکیل دلائل دے چکے تھے، آپ کے پاس بات کرنے کا حق نہیں تھا۔ ہم نے آپ کو عزت دی۔
حامد خان نے الزام لگایا کہ ’آپ میری زبان بندی کر رہے ہیں‘، جس پر عدالت نے واضح کیا کہ سنی اتحاد کونسل نے فیصل صدیقی کو وکیل مقرر کیا ہے، آپ کو نہیں۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ آپ کے پاس 10 منٹ ہیں، بات کرنی ہے تو کریں، ورنہ بیٹھ جائیں۔ ہم رولز، قانون اور آئین کے مطابق چلیں گے۔ کوئی غیر متعلقہ بات نہیں سنیں گے۔
دوران سماعت جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ ہم آپ کو اچھا وکیل سمجھتے ہیں، لیکن جو آپ کر رہے ہیں وہ اچھے وکیل والی بات نہیں۔
حامد خان نے جواب دیا آپ کو کوئی حق نہیں ایسی بات کہیں۔ جس پر جسٹس مندوخیل نے تنبیہ کی کہ ’ایسا نہیں کہ ہمیں سختی کرنا نہیں آتی‘۔
مزید دلائل دیتے ہوئے حامد خان نے کہا کہ ’جوڈیشل کمیشن بینچ بناتا ہے‘، جس پر جسٹس مندوخیل نے پوچھا ’جوڈیشل کمیشن کس قانون کے تحت بینچ بناتا ہے؟‘
حامد خان نے جواب دیا کہ ’26ویں ترمیم کے تحت، آرٹیکل 191 اے کے تحت بینچز بنتے ہیں۔
جسٹس مندوخیل نے جواباً کہا کہ آپ 26ویں ترمیم کے مخالف ہیں، تو اس پر کیسے انحصار کر رہے ہیں؟‘
حامد خان نے کہا کہ اسی لیے کہا تھا کہ 26ویں ترمیم پر پہلے فیصلہ کر دیں۔
جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ قانون کا حوالہ دیں گے تو آپ کو کل تک سنیں گے۔
جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ ہم نے آپ کا نکتہ نوٹ کر لیا، آگے بڑھیں۔
دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ نے گزشتہ روز میرے مینٹور قاضی فائز عیسیٰ کا نام لیا، سٹنگ ججز پر الزامات عائد کیے، آپ کو کس نے حق دیا؟ آپ نے کل سپریم کورٹ کو ڈی چوک بنا دیا۔
بینچ ٹوٹ گیا
قبل ازیں سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواستوں پر آئینی بینچ نے سماعت کا آغاز کیا تاہم ۔جسٹس صلاح الدین پنوار کی بینچ سے علیحدگی کے بعد 11 رکنی بینچ ٹوٹ گیا۔
سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل حامد خان نے دلائل کا آغاز کیا، تاہم اسی دوران جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ’حامد خان صاحب، آپ سن رہے ہیں؟ آپ کو آواز آرہی ہے یا نہیں؟‘۔
جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ ’جی میں سن رہا ہوں‘۔
جسٹس پنہور نے کہا کہ 2010 سے ہمارا ساتھ رہا ہے، مگر آپ کی طرف سے میرے بینچ میں بیٹھنے پر اعتراض افسوس ناک ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جن ججز پر 26ویں آئینی ترمیم کے بعد بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض کیا گیا، ان میں میں بھی شامل ہوں۔
جسٹس پنہور نے عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی فریق کو بینچ پر اعتراض ہو تو یہ مناسب نہیں کہ ہم بیٹھے رہیں۔
انہوں نے واضح طور پر کہا کہ میں ان وجوہات کی بنا پر اس بینچ کا مزید حصہ نہیں رہ سکتا۔
بینچ ٹوٹنے کے بعد عدالت نے سماعت میں 10 منٹ کا وقفہ کر دیا۔
پس منظر:
سپریم کورٹ نے حالیہ فیصلے میں ۔سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے سے انکار کیا تھا، جس کے بعد سنی اتحاد کونسل سمیت دیگر متعلقہ فریقین نے نظرثانی کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
کیس کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ مخصوص نشستیں پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں پارلیمانی طاقت کے توازن کو متاثر کرتی ہیں۔
آج کی سماعت میں بینچ کے اندر اختلاف رائے اور اعتراضات کے بعد ایک بار پھر آئینی معاملات پر عدلیہ کے اندرونی اتحاد اور غیرجانب داری پر بحث چھڑ گئی ہے، جس کے سیاسی اور قانونی اثرات آنے والے دنوں میں مزید نمایاں ہو سکتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سنی اتحاد کونسل جسٹس مندوخیل نے نے جواب دیا سپریم کورٹ نے کہا کہ کی سماعت کہا کہ ا رہے ہیں بنا دیا کے بعد کے تحت کیا کہ
پڑھیں:
جعلی ڈگری کیس: جسٹس طارق محمود جہانگیری نے جلد سماعت کی درخواست دائر کردی
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے اپنی درخواست کی جلد سماعت کی استدعا کی ہے، جس میں 16 ستمبر کو جاری ہونے والے اس حکمنامے کو چیلنج کیا گیا ہے جس کے تحت انہیں عدالتی فرائض انجام دینے سے روک دیا گیا تھا۔ یہ حکم آئی ایچ سی کے ڈویژنل بینچ نے اس وقت جاری کیا جب جسٹس جہانگیری کی کراچی یونیورسٹی سے مبینہ طور پر حاصل کردہ قانون کی ڈگری کی حیثیت پر سنگین سوالات اٹھائے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن ٹریبونل: جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تبدیلی سے متعلق الیکشن کمیشن کا حکم کالعدم قرار
جسٹس جہانگیری کے خلاف مبینہ جعلی ڈگری کی شکایت جولائی 2024 میں سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کی گئی تھی، جب کہ ان کی تقرری کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست رواں برس کے اوائل میں آئی ایچ سی میں دائر ہوئی تھی، تنازع کی بنیاد وہ خط بنا جو گزشتہ سال سوشل میڈیا پر گردش کرتا رہا اور مبینہ طور پر کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔
گزشتہ ہفتے ایک غیر معمولی پیشرفت میں آئی ایچ سی کے دو رکنی بینچ، جس کی سربراہی چیف جسٹس محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان کر رہے تھے، نے وکیل میاں داؤد کی آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت دائر رِٹ پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس جہانگیری کو عدالتی اختیارات استعمال کرنے سے روک دیا تھا۔ اس فیصلے کو جسٹس جہانگیری نے سپریم کورٹ میں براہ راست چیلنج کیا اور حکم امتناع کو کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر کی۔
بعد ازاں، جسٹس جہانگیری نے اپنے وکیل سید رفاقت حسین شاہ کے ذریعے ایک اور درخواست دائر کی جس میں کہا گیا کہ انہیں عدالتی فرائض سے روکنے کا حکم قانون کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے، کیونکہ ہائی کورٹ کے جج کو اپنے فرائض کی انجام دہی سے اس طرح نہیں روکا جاسکتا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ یہ معاملہ ہائی کورٹ کے جج کے فرائض اور عدلیہ کی آزادی سے متعلق اہم قانونی سوالات اٹھاتا ہے، اس لیے سپریم کورٹ کی فوری مداخلت ناگزیر ہے۔ مزید کہا گیا کہ اس فیصلے سے ایک خطرناک مثال قائم ہو گی جس کے تحت کسی بھی زیر التوا ریفرنس یا شکایت کی بنیاد پر ہائی کورٹ کسی جج کو فرائض انجام دینے سے روک سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جعلی ڈگری کے الزام کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ حکم درخواست گزار کو سنے بغیر جاری کیا گیا، جو انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ جسٹس جہانگیری نے مؤقف اپنایا کہ چونکہ ہائی کورٹ کے جج کی مدت ملازمت عمر کی حد سے مشروط ہے، اس لیے ضائع ہونے والا وقت دوبارہ نہیں مل سکتا۔ چنانچہ سپریم کورٹ کو فوری طور پر مداخلت کرنی چاہیے تاکہ انہیں اپنے منصب پر بحال کر کے عدالتی فرائض سرانجام دینے کا موقع دیا جا سکے۔
یاد رہے کہ یہ معاملہ ان کئی تنازعات میں سے ایک ہے جن کا اسلام آباد ہائی کورٹ حالیہ دنوں میں سامنا کر رہی ہے۔ چند روز قبل آئی ایچ سی کے پانچ ججز، بشمول جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس سمن رفت اعجاز اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سپریم کورٹ میں الگ الگ درخواستیں دائر کی تھیں جن میں بینچوں کی تشکیل، روستر اور کیسوں کی منتقلی جیسے معاملات پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس طارق محمود جہانگیری جعلی ڈگری کیس جلد سماعت درخواست دائر سپریم کورٹ