مخصوص نشستیں کیس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا گیارہ رکنی آئینی بینچ ٹوٹ گیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ کا مخصوص نشستیں کیس کی سماعت کرنے والا گیارہ رکنی آئینی بینچ ٹوٹ گیا۔
عدالت عظمیٰ کے گیارہ رکنی بینچ میں شامل جسٹس صلاح الدین پنہور نے مخصوص نشستیں کیس کے بینچ سے علیحدگی اختیار کرلی۔ کیس کی آج ہونے والی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جاری تھی، تاہم سماعت کے آغاز ہی پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شمولیت پر اعتراض کیا گیا ہے۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ آپ سے میرا 2010 کا تعلق بھی ہے، فیصل صدیقی اور سلمان اکرم راجا جیسے وکلا نے ججز پر اعتماد کا اظہار کیا، لیکن جس انداز سے اعتراض کیا گیا، اس سے عدالت کے وقار پر سوال اٹھا، لہٰذا ادارے کی ساکھ کے تحفظ کے لیے بینچ سے الگ ہو رہا ہوں۔
انہوں نے واضح کیا کہ ان کا علیحدہ ہونا کسی اعتراض کے اعتراف کے طور پر نہ لیا جائے۔
عدالت میں موجود ایڈووکیٹ حامد خان نے جسٹس صلاح الدین پنہور کے فیصلے کو قابلِ ستائش قرار دیا، تاہم جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ ستائش کا معاملہ نہیں، یہ سب آپ کے کنڈکٹ کی وجہ سے ہوا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کہا کہ آپ کا طرزِ عمل اس ردعمل کی بنیاد ہے۔ ہم نے آپ کا لحاظ کرتے ہوئے آپ کو سنا، حالانکہ ایک ہی پارٹی سے 2 وکیل دلائل کے حقدار نہیں ہوتے، پھر بھی آپ کو بولنے کا موقع دیا۔
حامد خان نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ اس کیس میں نظرثانی کی بنیاد پر دلائل دینے کا حق رکھتے ہیں،تاہم جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ اس کیس میں دلائل دینے کے حقدار نہیں تھے۔
دوران سماعت جسٹس صلاح الدین پنہور نے مزید کہا کہ آپ کے دلائل سے میں ذاتی طور پر رنجیدہ ہوا، لیکن یہاں میری ذات کا معاملہ نہیں، ججز پر جانبداری کا الزام لگایا گیا جس سے تکلیف ہوئی۔ عوام میں یہ تاثر جانا کہ جج جانبدار ہے، درست نہیں۔
اس موقع پر کیس کی سماعت کو 10 منٹ کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ بینچ 10 منٹ بعد دوبارہ آ کر سماعت کرے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس صلاح الدین پنہور نے کیس کی کہا کہ
پڑھیں:
جعلی ڈگری کیس: جسٹس طارق محمود جہانگیری نے جلد سماعت کی درخواست دائر کردی
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے اپنی درخواست کی جلد سماعت کی استدعا کی ہے، جس میں 16 ستمبر کو جاری ہونے والے اس حکمنامے کو چیلنج کیا گیا ہے جس کے تحت انہیں عدالتی فرائض انجام دینے سے روک دیا گیا تھا۔ یہ حکم آئی ایچ سی کے ڈویژنل بینچ نے اس وقت جاری کیا جب جسٹس جہانگیری کی کراچی یونیورسٹی سے مبینہ طور پر حاصل کردہ قانون کی ڈگری کی حیثیت پر سنگین سوالات اٹھائے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن ٹریبونل: جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تبدیلی سے متعلق الیکشن کمیشن کا حکم کالعدم قرار
جسٹس جہانگیری کے خلاف مبینہ جعلی ڈگری کی شکایت جولائی 2024 میں سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کی گئی تھی، جب کہ ان کی تقرری کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست رواں برس کے اوائل میں آئی ایچ سی میں دائر ہوئی تھی، تنازع کی بنیاد وہ خط بنا جو گزشتہ سال سوشل میڈیا پر گردش کرتا رہا اور مبینہ طور پر کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔
گزشتہ ہفتے ایک غیر معمولی پیشرفت میں آئی ایچ سی کے دو رکنی بینچ، جس کی سربراہی چیف جسٹس محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان کر رہے تھے، نے وکیل میاں داؤد کی آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت دائر رِٹ پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس جہانگیری کو عدالتی اختیارات استعمال کرنے سے روک دیا تھا۔ اس فیصلے کو جسٹس جہانگیری نے سپریم کورٹ میں براہ راست چیلنج کیا اور حکم امتناع کو کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر کی۔
بعد ازاں، جسٹس جہانگیری نے اپنے وکیل سید رفاقت حسین شاہ کے ذریعے ایک اور درخواست دائر کی جس میں کہا گیا کہ انہیں عدالتی فرائض سے روکنے کا حکم قانون کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے، کیونکہ ہائی کورٹ کے جج کو اپنے فرائض کی انجام دہی سے اس طرح نہیں روکا جاسکتا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ یہ معاملہ ہائی کورٹ کے جج کے فرائض اور عدلیہ کی آزادی سے متعلق اہم قانونی سوالات اٹھاتا ہے، اس لیے سپریم کورٹ کی فوری مداخلت ناگزیر ہے۔ مزید کہا گیا کہ اس فیصلے سے ایک خطرناک مثال قائم ہو گی جس کے تحت کسی بھی زیر التوا ریفرنس یا شکایت کی بنیاد پر ہائی کورٹ کسی جج کو فرائض انجام دینے سے روک سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جعلی ڈگری کے الزام کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ حکم درخواست گزار کو سنے بغیر جاری کیا گیا، جو انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ جسٹس جہانگیری نے مؤقف اپنایا کہ چونکہ ہائی کورٹ کے جج کی مدت ملازمت عمر کی حد سے مشروط ہے، اس لیے ضائع ہونے والا وقت دوبارہ نہیں مل سکتا۔ چنانچہ سپریم کورٹ کو فوری طور پر مداخلت کرنی چاہیے تاکہ انہیں اپنے منصب پر بحال کر کے عدالتی فرائض سرانجام دینے کا موقع دیا جا سکے۔
یاد رہے کہ یہ معاملہ ان کئی تنازعات میں سے ایک ہے جن کا اسلام آباد ہائی کورٹ حالیہ دنوں میں سامنا کر رہی ہے۔ چند روز قبل آئی ایچ سی کے پانچ ججز، بشمول جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس سمن رفت اعجاز اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سپریم کورٹ میں الگ الگ درخواستیں دائر کی تھیں جن میں بینچوں کی تشکیل، روستر اور کیسوں کی منتقلی جیسے معاملات پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس طارق محمود جہانگیری جعلی ڈگری کیس جلد سماعت درخواست دائر سپریم کورٹ