اسلام آباد:

وفقی ادارہ شماریات نے کہا ہے کہ ملک میں مہنگائی میں اضافے کی رفتار میں کمی کا رجحان بدستور جاری ہے جبکہ گزشتہ ہفتے سالانہ بنیاد پر مہنگائی میں اضافے کی رفتار کی شرح منفی 1.52 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ ہفتہ وار مہنگائی میں اضافے کی رفتار میں 0.18 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری مہنگائی کی ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق ملک میں مہنگائی میں اضافے کی رفتار میں کمی کا رجحان بدستور جاری ہے اور حالیہ ایک ہفتے کے دوران ملک میں ہفتہ وار مہنگائی میں اضافے کی رفتار میں مزید 0.

18 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ ہفتے سالانہ بنیاد پر بھی مہنگائی میں اضافے کی رفتار کی شرح منفی 1.52 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے، ایک ہفتے میں 12 اشیا سستی اور 14 مہنگی ہوئیں جبکہ 25 کی قیمتوں میں استحکام رہا۔

ادارہ شماریات کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ حالیہ ایک ہفتے کے دوران بجلی 6.88 فیصد، گڑ ایک فیصد، چینی0.88 فیصد، ایل پی جی 1.24فیصد، ٹماٹر 0.99 فیصد، باسمتی ٹوٹا چاول 0.69 فیصد، خشک پاوڈر دودھ0.03 فیصد، تازہ کھلا دودھ0.38 فیصد، دہی 0.36 فیصد، جلانے والی لکڑی 0.11 فیصد اور لہسن5.15فیصد مہنگا ہوا۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے آلو1.27 فیصد، انڈے 12.27 فیصد، پیاز 1.46فیصد، چکن کی قیمتوں میں10.75 فیصد، دال ماش 0.49 فیصد، دال مونگ 0.39، کیلے2.75فیصد اور آٹا 1.01 فیصد سستا ہوا ہے۔

اعدادوشمار میں بتایا گیا کہ حالیہ ہفتے کے دوران حساس قیمتوں کے اعشاریہ کے لحاظ سے سالانہ بنیادوں پر 17 ہزار 732روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی میں اضافے کی رفتار 0.06 فیصد کمی کے ساتھ منفی 2.06 فیصد اور 17 ہزار 733روپے سے 22 ہزار 888روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیےمہنگائی میں اضافے کی رفتار 0.03 فیصدکمی کے ساتھ منفی 3.31 فیصد رہی ہے۔

اسی طرح 22 ہزار 889روپے سے 29 ہزار 517 روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی میں اضافے کی رفتار0.15 فیصد کمی کے ساتھ منفی1.80فیصد، 29 ہزار 518روپے سے 44 ہزار 175 روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی میں اضافے کی رفتار0.27 فیصد کمی کے ساتھ منفی 0.97 فیصد رہی۔

ادارہ شماریات کے مطابق 44 ہزار 176 روپے ماہانہ سے زائد آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی میں اضافے کی رفتار0.25 فیصد کمی کے ساتھ منفی 0.20 فیصدرہی ہے۔

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی 

پاکستان کی 25 کروڑ آبادی میں نوجوانوں کی تعداد 60 فیصد کے قریب ہے۔ نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد ایک بہت بڑا امکان بھی ہے اور خطرہ بھی۔ امکان اور خطرے کا تعلق سرکاری پالیسی سے ہے۔ اس آبادی کو ہنر مند بنایا جا رہا ہے، اس کے لیے روزگار کاروبار اور تفریح کے مواقع موجود ہیں تو ملک کی ترقی کی رفتار کو پر لگ جائیں گے۔ ایسا نہیں ہے تو پھر بیٹھے ہیں سوشل میڈیا پر اور آتما رول رہے ہیں اپنی سب کی۔

ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کی درجہ بندی میں ہمارا نمبر 164 واں ہے۔ روانڈا اک ایسا ملک ہے جو شدید انتشار اور خانہ جنگی کا شکار رہا ہے ۔ 2019 میں اس کا گروتھ ریٹ 9 اشاریہ 45 فیصد رہا۔ اگلے 4 سال میں یہ منفی 3 فیصد سے تقریبا 11 فیصد اور 2022 اور 23 میں 8 فیصد سے زیادہ رہا۔ اس ترقی کی وجہ معیشت میں خواتین کی شمولیت، ڈیجیٹل سرمایہ کاری، بہتر گورننس اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کو بتایا جاتا ہے۔

ترقی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لانگ ٹرم پالیسی بنائی جائیں۔ ان پالیسیوں میں تسلسل ہو، گورننس بہتر ہو، عدالتی نظام موثر اور شفاف ہو، سول بیوروکریسی ایکٹیو، مقامی حکومتوں کا نظام کام بھی کرتا ہو اور لوگوں کو مقامی سطح پر شمولیت کا احساس بھی دلوائے اور ان کو سروس بھی فراہم کر رہا ہو۔ اس سب کو دیکھیں تو مقامی حکومتیں ہیں ہی نہیں۔ ہمارا نظام انصاف سفارتی اور معاشی معاملات میں جا گھستا ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ جاری ہے جس میں انصاف کا مورچہ بنچ اور بار نے خالی چھوڑ رکھا ہے۔ جیسے حوالدار بشیر سے کہہ رکھا ہو کہ تیریاں تو ہی جانے۔

یہ بھی پڑھیں: پاک سعودی دفاعی معاہدہ، لڑائیوں کا خیال بھی شاید اب نہ آئے

جو ملک معیشت کے حوالے سے بڑا سوچتے ہیں۔ وہ ریجنل کنیکٹویٹی، کاریڈور، باہمی تجارت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی سفارت کاری میں بزنس پہلی ترجیح ہوتا ہے۔ الحمدللہ اس محاذ پر مکمل ٹھنڈ ہے۔ چین سے زمینی تجارت 2 مہینے سے بند ہے، وجہ خود پتا کر لیں۔ بلوچستان کے ساتھ ایرانی باڈر حال ہی میں بند ہونے سے تجارت کو فائر وج گیا ہے اور مقامی آبادی کو روزہ رکھوا دیا گیا ہے، انڈیا سے تجارت توبہ توبہ۔

افغانستان کے ساتھ باہمی تجارت پی پی حکومت میں زور پکڑ کر 2 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ پھر اس کو نظر لگ گئی اور یہ گرتی رہی۔ اس تجارتی حجم میں پاکستان کو ایک ڈیڑھ ارب سالانہ فائدہ ہو رہا تھا۔ اس فائدے کو 20 سال کے ساتھ حساب کریں تو اندازہ ہو گا کہ ہمارا تجارتی خسارہ کتنا کم ہوتا اگر صرف افغانستان کے ساتھ تجارت جاری رہتی۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ افغانستان سے پاکستان آ کر جو دہشتگرد حملے کر رہے ہیں۔ ان میں افغانوں کی تعداد جو کبھی 10 فیصد بھی نہیں ہوتی تھی اب 70 فیصد کے قریب ہے۔

پاک سعودی دفاعی معاہدے کے بعد اکثر پاکستانی یہ پوچھتے پائے گئے کہ اس میں ہمارا فائدہ کیا ہو گا۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ ہمیں پیسے کتنے ملیں گے۔ یہ پوچھنے والے یہ نہیں دیکھتے جو پیسے لگائے گا تو کمانے کے لیے لگائے گا یا ڈبونے کے لیے۔ ٹریڈ کا حال ہمسایہ ملکوں کے ساتھ سامنے ہے۔ تو جواب کا اندازہ بھی اسی سے لگا لیں۔

مزید پڑھیے: چھوٹی، بڑی عینک اور پاکستان بطور ریجنل پاور

 آئی ایم ایف اور سعودی عرب کے تعلقات سمجھیں تاکہ مزہ ڈبل آئے۔ سعودی عرب نے کبھی آئی ایم ایف سے کوئی بیل آؤٹ پیکج یا قرض نہیں لیا۔ آئی ایم ایف کا آرٹیکل فور ہر ممبر ملک کو سالانہ بنیاد پر مشاورت کا پابند بناتا ہے۔ مالیاتی، اقتصادی اور زری پالیسیوں پر یہ مشاورت کی جاتی ہے۔ اس کے لیے آئی ایم ایف کا وفد متعلقہ ملک کا دورہ کرتا ہے۔ وزارت خزانہ، مرکزی بنک، نجی شعبے اور سول سوسائٹی سے ملاقات کر کے معاشی کارکردگی، پالیسی، درپیش خطرات اور اصلاحات کا جائزہ لیتا ہے۔ پھر یہ رپورٹ ایگزیکٹیو بورڈ کو پیش کی جاتی ہے۔

آئی ایم ایف نے سعودی معیشت کو 2025 میں مضبوط، متنوع، اور اصلاحات سے بھرپور قرار دیا ہے۔ سعودی ولی عہد کے وژن 2030 کی تعریف کی ہے۔ معیشت میں خواتین کی شمولیت اس کو ڈیجیٹل کرنے اور تیل پر انحصار کم کرنے کو سراہا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے نام کی جس طرح ہم سب مجلس پڑھتے ہیں۔ وہ یاد کریں اور سعودی عرب کی آئی ایم ایف سے مشاورت اور ہم آہنگی دیکھیں۔ اک عالمی نظام میں کوئی بھی ملک کسی کو بغیر حساب اور وجہ کے پیسے دے تو اس پر بھی قسم ہا قسم کے چیک موجود ہیں۔

 ہم آئیڈیاز اور منصوبوں کا کباڑ جمع کر کے بیٹھے ہیں۔ خیر سے لانگ ٹرم منصوبوں کو دھوم دھام سے شروع کرتے ہیں اور پھر وہ کب کیسے ختم ہوئے کسی کو پتا ہی نہیں چلتا کہ کب اسٹور میں کباڑ کی صورت پھینک دیے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا انفراسٹرکچر، حکومتی ڈھانچہ، ہیومن ریسورس، گورننس، مقامی حکومتوں کا نہ ہونا یہ سب اس قابل ہی نہیں ہے کہ اگر گروتھ بڑھے تو اس کو ہینڈل کر سکے۔ اس سارے سیٹ اپ کے ساتھ بڑا گروتھ ریٹ حاصل کرنا ممکن نہیں ہے ۔

چھوٹی سوچ کے ساتھ یوتھ کی اتنی بڑی تعداد کو کہیں کھپایا نہیں جا سکتا۔ اس وجہ سے یوتھ کی یہی بڑی تعداد ریاست کو اچھی طرح پنجابی والا کھپا رہی ہے۔

مزید پڑھیں: اے پیاری مہمان، سرحد پر باڑ لگ گئی

ہمیں سوچ کو بڑا کرنے کی ضرورت ہے جو اتنی بڑی آبادی کو کام سے لگا سکے۔ یہ کام سے لگیں گے تو ترقی کا سائکل چلے گا، کاروبار نقصان کی بجائے فائدے میں چلیں گے۔ فائدہ دکھائی دے گا تو سرمایہ کاری بھی آ جائے گی۔

یہ سب خود کرنا ہے، کوئی بھی باہر سے آ کر اتنی بڑی آبادی کو نہیں پال سکتا۔ بڑا سوچیں، اتنا بڑا جتنی بڑی آبادی ہے جتنی اس کی ضرورت ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

آئی ایم ایف پاک سعودی معاہدہ پاکستان سعودی عرب

متعلقہ مضامین

  • وفاقی حکومت کے دعوؤں کے باوجود 17 اشیائے ضروریہ مہنگی، 17 اشیاء مہنگی
  • مہنگائی کی شرح میں کمی کے دعوؤں کے باوجود 17 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ
  • پاکستان کا ہر شہری 3 لاکھ 18 ہزار 252 روپے کا مقروض ہے، معاشی تھنک ٹینک کی رپورٹ
  • ملک میں مہنگائی کی شرح میں کمی کے دعوؤں کے باوجود 17 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ
  • سونے کی قیمت میں لگاتار دوسرے روز بڑی کمی
  • دنیا کا سب سے گیلا ترین خطہ کہاں ہے؟
  • امریکی جنگلات میں بھڑکنے والی آگ سالانہ کتنی جانیں نگل جاتی ہے؟
  • ایشیائی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی
  • اسٹاک ایکسچینج میں تیزی، 100 انڈیکس 159 ہزار پوائنٹس کے قریب پہنچ گیا
  • پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی