جوڈیشل کمیشن نے اپنی کارروائی پبلک کرنے کا مطالبہ پھر مسترد کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کی کارروائی کو پبلک کرنے کا مطالبہ ایک بار پھر مسترد کر دیا گیا۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک باخبر ذریعے نے انکشاف کیا کہ 25 نومبر 2024 کے اجلاس میں سینئر پیونی جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے تجویز پیش کی تھی کہ جے سی پی اجلاس کے منٹس کو پبلک کیا جائے، لیکن اس خیال کو ارکان کی اکثریت نے مسترد کر دیا تھا۔
رواں سال 25 جون کو، جسٹس منصور علی شاہ نے ایک بار پھر جے سی پی پر زور دیا کہ وہ اپنے اجلاسوں کے منٹس شیئر کرے اور اس کے لیے انہوں نے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں کیے گئے شفافیت کے اقدامات کا حوالہ دیا، جب سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے تحت تشکیل دی گئی تین ججز کی کمیٹی کے منٹس باقاعدگی سے سپریم کورٹ کی آفیشل ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے جاتے تھے۔
25 نومبر 2024 کو جے سی پی کا اجلاس سندھ ہائی کورٹ کے لیے 9 ججز پر مشتمل آئینی بینچ کی تشکیل کے لیے بلایا گیا تھا، جسے 11 کے مقابلے 4 ووٹوں کی اکثریت سے منظور کیا گیا۔
تاہم پی ٹی آئی کے نمائندے، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔
جے سی پی نے تقریباً دو گھنٹے تک دونوں اراکین کے آنے کا انتظار کیا، لیکن ان کے موبائل فون بند رہے۔ اس کے بعد کمیشن نے اپنے اجلاس کو آگے بڑھایا۔ بعد ازاں پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اور سینیٹر بیرسٹر سید علی ظفر کو عمر ایوب اور شبلی فراز کی جگہ جے سی پی میں نامزد کیا گیا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہونے والے سیشن کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے آئین کے آرٹیکل 19 اے کا بحث کے لیے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کمیشن کے فیصلوں میں اہم عوامی مفاد کی وجہ سے اس کی کارروائی کو عام کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عدالتی تقرریوں میں شفافیت جمہوری اصولوں اور عوامی اعتماد کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
وزیر قانون تارڑ نے جواب دیا کہ فیصلہ کمیشن کے ارکان کی اجتماعی دانش پر مبنی ہونا چاہیے۔
اے جی پی منصور اعوان نے نوٹ کیا کہ جے سی پی اجلاسوں کی ان کیمرہ نوعیت کمیشن کے 2010 کے قوانین کے ذریعے طے کی گئی تھی اور کسی بھی انحراف کے لیے ان قواعد میں باقاعدہ ترمیم کی ضرورت ہوگی۔
چیف جسٹس نے واضح کیا تھا کہ موجودہ قانونی ڈھانچہ کارروائی کو پبلک کرنے کی اجازت نہیں دیتا، کیونکہ موجودہ قوانین واضح طور پر اس کی ممانعت کرتے ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے اس معاملے کو ووٹ کے لیے پیش کیا۔
اس تجویز کو مسترد کر دیا گیا، 11 ارکان نے اس کے خلاف ووٹ دیا اور جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر سمیت صرف 3 نے ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شفیع صدیقی غیر حاضر رہے تھے۔
ایک تازہ خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے اپنی تشویش کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن کے کام کے ارد گرد کی دھندلاپن نہ تو صحت مند ہے اور نہ ہی جمہوری اور آئینی اقدار کے محافظ کے طور پر سپریم کورٹ کے کردار سے مطابقت رکھتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ عدالتی تقرریاں دور رس نتائج کے ساتھ عوامی اہمیت کے حامل عمل ہیں۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جسٹس منصور علی شاہ منصور علی شاہ نے مسترد کر دیا چیف جسٹس انہوں نے کمیشن کے جے سی پی کے لیے
پڑھیں:
صبا قمر نے الزامات عائد کرنے پر صحافی کیخلاف قانونی کارروائی کا اعلان کردیا
اداکارہ صبا قمر نے سینئر صحافی کیخلاف سنگین الزامات پر قانونی کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ان دنوں اداکارہ صبا قمر اپنے دو ڈراموں ’پامال‘ اور ’کیس نمبر ‘9 کے باعث خبروں میں ہیں۔ حال ہی میں ان کے کراچی سے متعلق ایک بیان پر بھی سوشل میڈیا پر بحث جاری تھی، جس کے بعد ایک صحٓفی نے ان کے بارے میں متنازع دعوے کیے ہیں جس نے سوشل میڈیا پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
View this post on InstagramA post shared by Showbiz Spy (@showbizspy_)
مذکورہ صحافی نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ صبا قمر 2003-2004 میں لاہور میں ایک ایسے گھر میں رہتی تھیں جو مبینہ طور پر ان کے کسی ’قریبی تعلق‘ والے شخص کا تھا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ صبا اس شخص کی ہراسانی کے باعث نجی خبر رساں ادارے؎ کے دفتر شکایت کے لیے آئی تھیں، جہاں ان کی پہلی ملاقات ہوئی۔
صبا قمر نے صحافی کے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ ایسے جھوٹے دعووں کیلئے ان کیخلاف قانونی چارہ جوئی کریں گی۔
سوشل میڈیا صارفین پر بڑی تعداد نے صبا قمر کے اس فیصلے کی حمایت کی ہے۔ ایک صارف نے لکھا، ’بہترین فیصلہ، ایسے لوگوں کو عدالت میں جواب دینا چاہیے۔‘ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’یہ شخص پہلے شعیب ملک کے حوالے سے بھی بیانات دے چکا ہے‘۔