سوما، ہوما اورشوما (دوسرا اور آخری حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
کیا یہ حیران کن بات نہیں کہ اتنی اہم، مفید اورمقدس ’’بوٹی‘‘ یا پودا دنیا سے یوں غائب ہوجائے۔ اول تو ’’بوٹیاں‘‘ (پودے )غائب نہیں ہوتیں،قدرت کانظام ایسا ہے کہ بوٹیوں میں نئی نئی قسمیں اورانواع پیدا ہوتی ہیں، غائب نہیں ہوتیں، پھر اگر غائب ہوگئی تو کم ازکم ہندی دھرم کے نوشتوں میں اس کی شناخت اورپہچان تو باقی رہنی چاہیے تھی،یوں ایک بوٹی بھی غائب ہوگئی، اس کو پہچاننے والے بھی غائب ہوگئے اورنوشتوں میں کسی نے بھول کر بھی اس کی نشاندہی نہیں کی ہے ، دیانند سرسوتی نے تو محض ہوائی چھوڑی ہے ۔دراصل یہ پورا قصہ ہی افسانہ اورلاعلمی کاشاخسانہ ہے، ایسی بوٹی یا پودا دنیا میں کبھی تھا ہی نہیں اوراس حقیقت کاانکشاف مجھ پر خوشحال خان خٹک کے ایک شعر سے ہوا ، شعر ہے
شیخ دے مونزروژہ کا زہ بہ ڈکے پیالے شوقم
ہرسڑے پیدا دے خپل خپل کارلرہ کہ نہ
ترجمہ:(شیخ اپنا روزہ نماز کرے اورمیں بھرے ہوئے پیالے پیوں گا ، ہرکسی کا اپنا اپنا کام ہے۔)
اس شعر میں لفظ’’شوقم‘‘ استعمال ہوا ہے حالانکہ پشتو میں پینے کے لیے ’’سکل یا سکم‘‘ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ’’شوم، شوامنا، شومتا‘‘ عام پینا نہیں بلکہ ’’خاص پینا‘‘ ہوتا ہے جیسے عربی میں عام پینے کے لیے سقا، ساقی، سقہ کے الفاظ ہوتے ہیں لیکن خاص چیز کے لیے ’’شرب‘‘ استعمال ہوتا ہے ، اردو ،فارسی میں بھی عام پینے کے لیے پینا اورخاص پینے کے لیے’’نوش‘‘ استعمال ہوتا ہے ۔ یہی سلسلہ پشتو، شوم، شومتا اورشومہ کاہے ، کوئی مخصوص مشروب پیا نہیں جاتا ، شوماجاتا ہے۔ اس کی شہادت لفظ ’’شوملے‘‘ سے بھی ملتی ہے جو پشتو میں ’’لسی‘‘ کو کہا جاتا ہے۔ لفظ شوم (کنجوس) کا بھی اس سے تعلق ہے کیوں کہ ساقی کو اکثرشوم (کنجوس) کہا جاتا ہے۔
ہندی اورفارسی میں (س) اور(ھ) کاذکر ہوچکا ہے، ان دونوں کے درمیان ایک تیسرا ہجہ (ش) کابھی ہے جو ساری ہندی زبانوں میں عام ہے جیسے سری اورشری،اسنان اوراشنان ، کاسی اورکاشی،سیو، شیو، کرسنا،کرشنا، دیس، دیش، سوپن شوپن وغیرہ ، یہ ش کا ہجہ کسی حد تک پشتو میں بھی ہے جیسے مہینے کو ہندی میں ’’ ماس‘‘ کہتے ہیں ، ایرانی ’’ماہ‘‘ اورپشتو میں ماش یا میاشت۔
سنسکرت میں محترم لوگوں کو مہسر یا مسرا (مہاسر)کہتے ہیں، فارسی میں مہاہر،مہر کہتے ہیں جیسے شہنشاہ ایران کو ’’آریامہر‘‘ کہتے تھے، مذہبی بزرگوں کو بھی مہرکہتے تھے اور پشتو میں مشریاجیسے کس اورکش۔۔ سیندوکش، ہندوکش یادیس ، دیہہ اوردیش۔ اسی طرح لفظ سوما ،ہوما اورشوما کا معاملہ بھی ہے۔ اور یہ بھی بتادوں کہ اصل لفظ’’شومہ‘‘ ہے کیوں کہ کوئی بھی چیز پیتے وقت ہونٹوں سے ’’شو‘‘ کی آواز نکلتی ہے لیکن پینے کے لیے ایک قدرتی آواز ہے شو، شوم ، شومہ اورشومل ، شوملے وغیرہ ۔پشتو کے ایک اورلفظ’’شومہ دم‘‘ سے یہ سارا معمہ حل ہوجاتا ہے۔ ’’دم‘‘ تو پشتو میں وقت کے لیے عام لفظ ہے اردو اورفارسی میں بھی ’’صبح دم‘‘ گرم دم گفتگو۔ جس ’’دم، یک دم ،ہردم
نمی دانم کہ آخر چوں ’’دم دیدار‘‘مے رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیش یاررقصم
توہر’’دم‘‘ می سرائی نغمہ وہربارمی رقصم
لہرطرزے کہ می رقصائی من اے یارمی رقصم
مطلب ’’دم ‘‘ ویسے تو سانس کوکہتے ہیں مگر مجازی طورپر وقت یاکسی خاص کام کے لیے مقررہ وقت کو کہا جاتا ہے، یوں شومہ دم کا مطلب شومہ یاپینے کاوقت۔ یہ عشاکے بعد اورآدھی رات سے پہلے کا وقت ہے، عام بول میں شومہ دم سو گیا یا شومہ دم جاگا۔ شومہ دم کھیتوں کو پانی دے ۔شومہ دم اچانک شورہوا۔
اب ذرا شعروشاعری اورناؤنوش کی بھی بات ہوجائے ، اردو، فارسی، پشتو اوردوسری کئی مشرقی زبانوں میں مئے نوشی کے لیے مخصوص مقررہ اوربہترین وقت یہی سمجھاجاتا ہے جس سے چاند کابھی تعلق ہے ۔
غالب چھٹی شراب، پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روزابر وشب ماہتاب میں
کوئی کہے کہ شب مہ میں کیا برائی ہے
بلاسے آج اگر دن کو ابروباد نہیں
اس سے یہ بھی کھل جاتا ہے کہ اصل چیز سومہ، ہومہ اورشومہ ہے ۔ یہ چاند، چاند دیوتا، چاندنی راتیں وغیرہ محض رومانی وارداتیں ہیں ۔ خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہوا کہ سوما، ہوما یاشوما نہ تو کوئی جڑی بوٹی ہے نہ پودا ہے، نہ کسی خاص چیز کا رس ہے ۔یا یوں کہیے کہ یہ اسم نہیں فعل پینا نوش کرنا وغیرہ ۔
لیکن یاروں نے اسے معمہ بنادیا ۔اوراس کے ساتھ ہی یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ ہرقوم ، نسل، مذہب یاخطے کااپنا اپنا شومہ ہوتا ہے جس میں کچھ تقدیس، کچھ عقیدت اورکچھ رومانویت بھی ہوتی ہے یا قومی، نسلی یامذہبی پہچان اور شناخت بھی ۔مثلاً ہندوستان میں ساؤتھ کی طرف کا شومہ ’’توتاڑی‘‘ ہے لیکن اتریعنی شمال کی طرف کاشومہ ’’بھنگ ‘‘ ہے ۔
جے جے شیوشنکر ، کاٹنالگے نہ کنکر
کہ پیالہ تیرے نام کا پیا
ہندی تہواروں میں بڑے پیمانے پر بھنگ کاشومہ ہوتا ہے بلکہ ملنگ، فقیر، یوگی جو خود کو برتر سمجھتے ہیں، اسے حرزجاں بنائے ہوئے ہیں، اسی کی ایک شکل چرس پینے والے کہتے ہیں چرسی کدی نہ مرسی (درازی عمر)
یوں عربوں کاشومہ نیند تھا جو کھجورکی مئے ہوتی تھی۔ منگولوں کاشومہ گھوڑی کے دودھ کی شراب ہوتی تھی۔ چین کاشومہ ایک زمانے میں افیون ہوا کرتی تھی ، عیسائی بھی ایک موقع پر شراب کو شوما بناتے تھے۔ دیکھاجائے تو سکھوں کابھی ایک طرح لسی شوما ہے ، ستو بھی تقریباً شوما ہے۔
مشہور کردار حسن بن صباح کے فدائیوں کاشومہ بھی بھنگ تھا ۔حسن بن صباح کے بارے میں یوں تو تقریباً ساری کہانیاں محض افسانے ہیں کہ اس نے قلعہ الموت میں ایک جنت بنائی تھی، تاتاری دورمیں جب یہ قلعہ فتح ہوا تو وہاں ایسا کچھ نہیں تھا، کیوں کہ بھنگ پی کر انسان خود کو گل وگلزار میں محسوس کرتا ہے، چاہے وہ کسی کوڑے کے ڈرم یا گٹر میں کیوں نہ پڑا ہو بلکہ تمام نشے والے گلزار نشین ہوجاتے ہیں اورجب نشہ چلا چاتا ہے اسی گلزار کو پھر پانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔ حسن بن صباح کے فدائی بھی شاید اسی ’’جنت‘‘ کے لیے سب کچھ کرتے تھے ۔
بہرحال ایک مرتبہ پھر دہراؤں گا کہ سوما ، ہوما یاشوما نام کا پودا نہ کبھی تھا نہ ہے ۔یعنی شوما نام ہے ، اس کا جو ہونٹوں کی آواز سے پیدا ہوتی ہے ، باقی سب افسانے ہیں ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پینے کے لیے کہتے ہیں پشتو میں ہوتا ہے جاتا ہے
پڑھیں:
کوئی نہ آیا
یہ سوات کی وادی جو اپنی خوبصورتی اور دلفریب نظاروں کے لیے مشہور ہے، آج وہاں وحشت طاری ہے۔ کبھی برف پوش پہاڑ پہ زندگی کا راز چھپا ہوتا تھا، کبھی ندی نالوں کی گونج میں انسان کا کلام، اس بار وہاں صرف بے بسی تھی، درد تھا، سسکیاں تھیں۔ جون کے آخری ہفتے میں ایک ہی خاندان کے سترہ افراد تفریح کی غرض سے گئے اور اس وادی سے نہیں لوٹے۔ یہ عام لوگ تھے جو وہاں پانی کے ریلے میں کئی گھنٹے پھنسے رہے اور مدد کے لیے پکارتے رہے مگر کوئی ان کی مدد کو نہ آیا۔
وہ آخر وقت تک ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے اس امید میں رہے کہ انھیں بچا لیا جائے گا لیکن ریاست کی مشینری خاموش تھی۔ انتظامیہ نے بعد میں یہ بیان دیا کہ ریسکیو ٹیمیں بھیجی گئیں، ہم نے کوشش کی مگر موسم خطرناک تھا، لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس دن حکومت اور ارباب اختیار کی نااہلی کی وجہ سے وہ لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔
یہ سانحہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا، اس سے پہلے بھی حکومت اور ارباب اختیار اس ہی طرح غیر ذمے داری کا ثبوت دیتے آئے ہیں۔ یہ واقعہ صرف سوات کا نہیں یہ ہمارا قومی المیہ ہے۔اور پھر سوال اٹھتا ہے کیا یہ ریاست ہے یا صرف ایک لفظ ہے کیونکہ ریاست کی کچھ ذمے داریاں ہوتی ہیں اور ریاست عوام کو جوابدہ ہوتی ہے۔
آپ ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کرسکتے ہیں، چاند پر مشن بھیج سکتے ہیں لیکن سیلابی باڑ میں پھنسے انسانوں کو نہیں نکال سکتے، غریب کے لیے صرف افسوس باقی رہ جاتا ہے۔ چند دنوں میں لوگ اس واقعے کو بھول جائیں گے مگر جن معصوم اور بیگناہ لوگوں کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا، ان کا خاندان یہ کبھی بھلا نہیں سکے گا۔ ہم کچھ عرصے بعد پھر کوئی ایسی خبر سن رہے ہوں گے کیونکہ ہمارے ہاں حکومت یا ارباب اختیار کو کٹہرے میں تو کوئی کھڑا کر نہیں سکتا۔
ان میں ایک ماں، ایک باپ، ایک بھائی، ایک بیٹا تھے۔ ان کی موت ہم سے سوال کر رہی ہے کہ ہم کیوں خاموش ہیں؟ کیا ہم نے دیکھا سنا اور سن کر ان سے سوال کیا جن کی خاموشی اور بے حسی کی بدولت یہ واقعہ رونما ہوا۔ ہماری ریاست کا چلن ہے، وہ طاقتور کے لیے تو کچھ بھی کر گزرے مگر عام آدمی کے لیے اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ ابھی بھی حکومت نے افسوس کا اظہار کیا اور بس ان کی نظر میں ان کی ذمے داری پوری ہوگئی۔ ریاست کا کام ہے کہ وہ عوام کے لیے ہر وقت اور ہر حال میں موجود رہے اور اپنی ذمے داری کو نبھائے۔ حکومت ذمے دار ہوتی ہے اور ریاستی مشین کو عوام کے لیے ہر حال میں حرکت کرنا چاہیے۔
ہم جانتے ہیں کہ فلڈ الرٹس سسٹم موجود ہے، ڈرون موجود ہیں، ہیلی کاپٹر موجود ہیں لیکن یہ سب اس دن کہاں تھے؟ کیونکہ جب کوئی سرکاری اہمیت کا معاملہ ہوتا ہے تو یہ سب فوراً حرکت میں آجاتے ہیں، طاقتور کی پکار ہوتی ہے عوام کی نہیں۔ لوگ کچھ دن اس سانحے پہ بات کریں گے اور پھر خاموشی چھا جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس خاموشی کو قبول کرلیا ہے؟ کیونکہ اگر ہم نے قبول کر لیا ہے تب ہمیں تیار رہنا ہوگا کہ ہمارے ساتھ یہی سب ہوگا، اگر ہمارے پاس ریاست ہے تو ریاست کی کچھ ذمے داری ہوتی ہے اور آج پاکستانی عوام اپنی ریاست اور ارباب اختیار سے سوال کررہے ہیں کہ جب عوام کو اس کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ تب کہاں ہوتے ہیں۔
یہ کالم ایک احتجاج ہے یہ سوال ہے ریاست سے، سماج سے، ہم سب سے کہ آخر یہ بے حسی، یہ ظلم کب تک۔ریاست کو ہمارے سوالوں کا جواب دینا ہوگا اور اپنی ذمے داری نبھانی ہوگی، ہم کب تک لاوارث ہو کر جیئیں۔ ورنہ ہم ایک بے عمل ریاست کے زیر سایہ جیتے رہیں گے، وہ ریاست جو الفاظ میں تو موجود ہے مگر عمل کی دنیا میں کہیں کھو گئی ہے۔
وہ ریاست جو سترہ لوگوں کو ڈوبتا دیکھتی ہے اور اپنا سر جھکائے بیان دے دیتی ہے لیکن پھر چپ ہو جاتی ہے، یہ ریاست خود کو بچانا جانتی ہے مگر عوام کو خطرہ میں چھوڑ دیتی ہے۔اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ہمیں اس خاموشی کے بیچ بولنا ہوگا، سوال کرنا ہوگا، اداروں کو ذمے دار ٹھہرانا ہوگا اور انصاف کے لیے لڑنا ہوگا۔ ہم صرف مایوس ہوکر نہیں رہ سکتے، ہماری ریاست زندہ ہے یا مردہ ہمارے درد اور خوشی میں ہماری ساتھ ہے یا نہیں۔
ہمارا حق ہے کہ ہم سوال کریں اور انصاف مانگیں ریاست کی خاموشی ناقابل قبول ہے، اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ آیندہ کوئی ایسا سانحہ نہ ہو تو ریاست کو اور ارباب اختیار کو جواب دینا ہوگا اور عوام کے لیے اپنی ذمے داری کو بہ خوبی نبھانا ہوگا۔ کیا ہم واقعی اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ بے گناہوں کے جنازے بھی ہماری بے حسی کو نہیں ہلا سکتے۔ کیا ان گھروں کے سناٹے کو ہم سننے کے قابل نہیں رہے جہاں ایک ہی وقت میں سترہ پیارے پانی کا ریلہ بہا کر لے گیا ہو اور وہ بھی ان کے پیاروں کی آنکھوں کے سامنے۔
میں سوچتی ہوں جب وہ پانی کے بیچ کھڑے سترہ لوگ آخری لمحوں میں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ رہے تھے تو کیا ان کے دل میں یہ خیال آیا ہوگا کہ ریاست انھیں بچانے آرہی ہے یا شاید وہ جان چکے تھے کہ کوئی نہیں آئے گا۔ یہ المناک واقعہ ایک آئینہ ہے ہمارے نظام کا، ہماری حکومت کا، ہمارے ضمیر کا۔ ہمیں خود سے سوال کرنا ہوگا کیا ہم واقعی ایک ریاست رکھتے ہیں؟ یا ہماری ریاست صرف طاقتور اور بااثر لوگوں کے لیے ہے، عام لوگوں کے لیے نہیں۔