سوما، ہوما اورشوما (دوسرا اور آخری حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
کیا یہ حیران کن بات نہیں کہ اتنی اہم، مفید اورمقدس ’’بوٹی‘‘ یا پودا دنیا سے یوں غائب ہوجائے۔ اول تو ’’بوٹیاں‘‘ (پودے )غائب نہیں ہوتیں،قدرت کانظام ایسا ہے کہ بوٹیوں میں نئی نئی قسمیں اورانواع پیدا ہوتی ہیں، غائب نہیں ہوتیں، پھر اگر غائب ہوگئی تو کم ازکم ہندی دھرم کے نوشتوں میں اس کی شناخت اورپہچان تو باقی رہنی چاہیے تھی،یوں ایک بوٹی بھی غائب ہوگئی، اس کو پہچاننے والے بھی غائب ہوگئے اورنوشتوں میں کسی نے بھول کر بھی اس کی نشاندہی نہیں کی ہے ، دیانند سرسوتی نے تو محض ہوائی چھوڑی ہے ۔دراصل یہ پورا قصہ ہی افسانہ اورلاعلمی کاشاخسانہ ہے، ایسی بوٹی یا پودا دنیا میں کبھی تھا ہی نہیں اوراس حقیقت کاانکشاف مجھ پر خوشحال خان خٹک کے ایک شعر سے ہوا ، شعر ہے
شیخ دے مونزروژہ کا زہ بہ ڈکے پیالے شوقم
ہرسڑے پیدا دے خپل خپل کارلرہ کہ نہ
ترجمہ:(شیخ اپنا روزہ نماز کرے اورمیں بھرے ہوئے پیالے پیوں گا ، ہرکسی کا اپنا اپنا کام ہے۔)
اس شعر میں لفظ’’شوقم‘‘ استعمال ہوا ہے حالانکہ پشتو میں پینے کے لیے ’’سکل یا سکم‘‘ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ’’شوم، شوامنا، شومتا‘‘ عام پینا نہیں بلکہ ’’خاص پینا‘‘ ہوتا ہے جیسے عربی میں عام پینے کے لیے سقا، ساقی، سقہ کے الفاظ ہوتے ہیں لیکن خاص چیز کے لیے ’’شرب‘‘ استعمال ہوتا ہے ، اردو ،فارسی میں بھی عام پینے کے لیے پینا اورخاص پینے کے لیے’’نوش‘‘ استعمال ہوتا ہے ۔ یہی سلسلہ پشتو، شوم، شومتا اورشومہ کاہے ، کوئی مخصوص مشروب پیا نہیں جاتا ، شوماجاتا ہے۔ اس کی شہادت لفظ ’’شوملے‘‘ سے بھی ملتی ہے جو پشتو میں ’’لسی‘‘ کو کہا جاتا ہے۔ لفظ شوم (کنجوس) کا بھی اس سے تعلق ہے کیوں کہ ساقی کو اکثرشوم (کنجوس) کہا جاتا ہے۔
ہندی اورفارسی میں (س) اور(ھ) کاذکر ہوچکا ہے، ان دونوں کے درمیان ایک تیسرا ہجہ (ش) کابھی ہے جو ساری ہندی زبانوں میں عام ہے جیسے سری اورشری،اسنان اوراشنان ، کاسی اورکاشی،سیو، شیو، کرسنا،کرشنا، دیس، دیش، سوپن شوپن وغیرہ ، یہ ش کا ہجہ کسی حد تک پشتو میں بھی ہے جیسے مہینے کو ہندی میں ’’ ماس‘‘ کہتے ہیں ، ایرانی ’’ماہ‘‘ اورپشتو میں ماش یا میاشت۔
سنسکرت میں محترم لوگوں کو مہسر یا مسرا (مہاسر)کہتے ہیں، فارسی میں مہاہر،مہر کہتے ہیں جیسے شہنشاہ ایران کو ’’آریامہر‘‘ کہتے تھے، مذہبی بزرگوں کو بھی مہرکہتے تھے اور پشتو میں مشریاجیسے کس اورکش۔۔ سیندوکش، ہندوکش یادیس ، دیہہ اوردیش۔ اسی طرح لفظ سوما ،ہوما اورشوما کا معاملہ بھی ہے۔ اور یہ بھی بتادوں کہ اصل لفظ’’شومہ‘‘ ہے کیوں کہ کوئی بھی چیز پیتے وقت ہونٹوں سے ’’شو‘‘ کی آواز نکلتی ہے لیکن پینے کے لیے ایک قدرتی آواز ہے شو، شوم ، شومہ اورشومل ، شوملے وغیرہ ۔پشتو کے ایک اورلفظ’’شومہ دم‘‘ سے یہ سارا معمہ حل ہوجاتا ہے۔ ’’دم‘‘ تو پشتو میں وقت کے لیے عام لفظ ہے اردو اورفارسی میں بھی ’’صبح دم‘‘ گرم دم گفتگو۔ جس ’’دم، یک دم ،ہردم
نمی دانم کہ آخر چوں ’’دم دیدار‘‘مے رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیش یاررقصم
توہر’’دم‘‘ می سرائی نغمہ وہربارمی رقصم
لہرطرزے کہ می رقصائی من اے یارمی رقصم
مطلب ’’دم ‘‘ ویسے تو سانس کوکہتے ہیں مگر مجازی طورپر وقت یاکسی خاص کام کے لیے مقررہ وقت کو کہا جاتا ہے، یوں شومہ دم کا مطلب شومہ یاپینے کاوقت۔ یہ عشاکے بعد اورآدھی رات سے پہلے کا وقت ہے، عام بول میں شومہ دم سو گیا یا شومہ دم جاگا۔ شومہ دم کھیتوں کو پانی دے ۔شومہ دم اچانک شورہوا۔
اب ذرا شعروشاعری اورناؤنوش کی بھی بات ہوجائے ، اردو، فارسی، پشتو اوردوسری کئی مشرقی زبانوں میں مئے نوشی کے لیے مخصوص مقررہ اوربہترین وقت یہی سمجھاجاتا ہے جس سے چاند کابھی تعلق ہے ۔
غالب چھٹی شراب، پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روزابر وشب ماہتاب میں
کوئی کہے کہ شب مہ میں کیا برائی ہے
بلاسے آج اگر دن کو ابروباد نہیں
اس سے یہ بھی کھل جاتا ہے کہ اصل چیز سومہ، ہومہ اورشومہ ہے ۔ یہ چاند، چاند دیوتا، چاندنی راتیں وغیرہ محض رومانی وارداتیں ہیں ۔ خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہوا کہ سوما، ہوما یاشوما نہ تو کوئی جڑی بوٹی ہے نہ پودا ہے، نہ کسی خاص چیز کا رس ہے ۔یا یوں کہیے کہ یہ اسم نہیں فعل پینا نوش کرنا وغیرہ ۔
لیکن یاروں نے اسے معمہ بنادیا ۔اوراس کے ساتھ ہی یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ ہرقوم ، نسل، مذہب یاخطے کااپنا اپنا شومہ ہوتا ہے جس میں کچھ تقدیس، کچھ عقیدت اورکچھ رومانویت بھی ہوتی ہے یا قومی، نسلی یامذہبی پہچان اور شناخت بھی ۔مثلاً ہندوستان میں ساؤتھ کی طرف کا شومہ ’’توتاڑی‘‘ ہے لیکن اتریعنی شمال کی طرف کاشومہ ’’بھنگ ‘‘ ہے ۔
جے جے شیوشنکر ، کاٹنالگے نہ کنکر
کہ پیالہ تیرے نام کا پیا
ہندی تہواروں میں بڑے پیمانے پر بھنگ کاشومہ ہوتا ہے بلکہ ملنگ، فقیر، یوگی جو خود کو برتر سمجھتے ہیں، اسے حرزجاں بنائے ہوئے ہیں، اسی کی ایک شکل چرس پینے والے کہتے ہیں چرسی کدی نہ مرسی (درازی عمر)
یوں عربوں کاشومہ نیند تھا جو کھجورکی مئے ہوتی تھی۔ منگولوں کاشومہ گھوڑی کے دودھ کی شراب ہوتی تھی۔ چین کاشومہ ایک زمانے میں افیون ہوا کرتی تھی ، عیسائی بھی ایک موقع پر شراب کو شوما بناتے تھے۔ دیکھاجائے تو سکھوں کابھی ایک طرح لسی شوما ہے ، ستو بھی تقریباً شوما ہے۔
مشہور کردار حسن بن صباح کے فدائیوں کاشومہ بھی بھنگ تھا ۔حسن بن صباح کے بارے میں یوں تو تقریباً ساری کہانیاں محض افسانے ہیں کہ اس نے قلعہ الموت میں ایک جنت بنائی تھی، تاتاری دورمیں جب یہ قلعہ فتح ہوا تو وہاں ایسا کچھ نہیں تھا، کیوں کہ بھنگ پی کر انسان خود کو گل وگلزار میں محسوس کرتا ہے، چاہے وہ کسی کوڑے کے ڈرم یا گٹر میں کیوں نہ پڑا ہو بلکہ تمام نشے والے گلزار نشین ہوجاتے ہیں اورجب نشہ چلا چاتا ہے اسی گلزار کو پھر پانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔ حسن بن صباح کے فدائی بھی شاید اسی ’’جنت‘‘ کے لیے سب کچھ کرتے تھے ۔
بہرحال ایک مرتبہ پھر دہراؤں گا کہ سوما ، ہوما یاشوما نام کا پودا نہ کبھی تھا نہ ہے ۔یعنی شوما نام ہے ، اس کا جو ہونٹوں کی آواز سے پیدا ہوتی ہے ، باقی سب افسانے ہیں ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پینے کے لیے کہتے ہیں پشتو میں ہوتا ہے جاتا ہے
پڑھیں:
Self Sabotage
ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ نے اسے ہرن جیسی ٹانگیں اور گھوڑے جیسے پھیپھڑے دیے تھے‘ وہ پورے گاؤں میں سب سے تیز بھاگتا تھا‘ وہ مسلسل سارا دن بھی بھاگ سکتا تھا‘ یہ غیرمعمولی صلاحیت تھی اور اس نے اس صلاحیت سے میرا تھن چیمپیئن بننے کا فیصلہ کیا‘ اس نے جب لوگوں کو اپنے ارادے کے بارے میں مطلع کیا تو سب نے پہلے قہقہہ لگایا اور پھر اسے بتایا میرا تھن گوروں کی اسپورٹس ہے۔
سیاہ فام لوگ یہ نہیں کھیل سکتے‘ ہم ان سے جیت بھی نہیں سکتے‘ ایلوڈ نے وجہ پوچھی تو اسے بتایا گیا‘ گوروں کے پاس پیسہ ہوتا ہے‘ ان کے پاس ٹرینر بھی ہوتے ہیں اور ان کی خوراک بھی ہم سے بہتر ہوتی ہے لہٰذا یہ جی جان سے پریکٹس کرسکتے ہیں‘ اسے یہ بھی بتایا گیا میرا تھن کے سارے ریفری‘ کمنٹیٹرز اور شائقین بھی گورے ہوتے ہیں‘ گورے گوروں کو سپورٹ کرتے ہیں‘ یہ سیاہ فام کو کام یاب نہیں ہونے دیتے‘ تم بھی یہ خواب دیکھنا بند کر دو‘اس کے دوستوں اور بزرگوں نے یہ باتیں اتنی بار دہرائیں کہ یہ اس کے ذہن میں بیٹھ گئیں لیکن اس کے باوجود ایتھلیٹکس اس کا جنون تھا‘ وہ سارا دن بھاگتا رہتا تھا‘ اس کے پاس جوتے نہیں تھے‘ وہ ننگے پاؤں بھی بھاگتا تھا‘ اس کے پاس گراؤنڈ نہیں تھا‘ وہ جنگل میں بھی بھاگتا تھا‘ اس نے میرا تھن میں شریک نہیں ہونا تھا لیکن وہ اس کے باوجود بھی بھاگتا تھا‘ بھاگنا اس کی زندگی تھا۔
وہ فارغ وقت میں جس گراؤنڈ میں بھاگتا تھا وہاں پیٹرک نام کا ایک کوچ نوجوانوں کو پریکٹس کراتا تھا‘ کوچ نے دیکھا ایک سیاہ فام لڑکا کوچنگ کے بغیر اس کے تمام اسٹوڈنٹس سے زیادہ تیز دوڑتا ہے‘ اس نے ایک دن اسے روک کر انٹرویو کیا تو پتا چلا یہ لڑکا غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے‘ دن کے وقت والدین کے ساتھ محنت مزدوری کرتا ہے اور شام کے وقت دوڑنا شروع کر دیتا ہے‘ پیٹرک کو اس پر رحم آ گیا۔
اس نے اسے اپنی کلاس میں شامل کر لیا اور وہ اسے ایتھلیٹس کی بنیادی تکنیکس سکھانے لگا‘ لڑکا پیدائشی اسپورٹس مین تھا‘ یہ بہت جلد تمام تکنیکس سیکھ گیاجس کے بعد پیٹرک نے اس کا نام کینیا کی اگلی میراتھن میں لکھوا دیا‘ وہ میراتھن میں شریک ہوا لیکن ہار گیا‘ اس کی ہار نے کوچ کو ڈسٹرب کر دیا‘کیوں؟ کیوں کہ وہ جانتا تھا اس میں کینیا کے تمام ایتھلیٹس سے زیادہ پوٹینشل ہے‘ اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا‘ کوچ نے میراتھن کی ریکارڈنگ منگوائی اور دیکھنا شروع کر دی‘ وہ بار بار ٹیپ دیکھتا تھا اور کیپ چوج کو دیکھتا تھا‘ اس نے نوٹ کیا دوڑتے وقت جوں ہی کوئی گورا کھلاڑی اس کے قریب آتا تھا تو اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی تھی جب کہ یہ تمام سیاہ فام کھلاڑیوں کو آسانی سے پیچھے چھوڑ دیتا ہے یوں محسوس ہوتا تھا گورے کو دیکھ کر اس کا گیئر ڈاؤن ہو گیا ہو۔
کوچ بار بار ٹیپ دیکھتا رہا اور یہ سوچتا رہا آخر ایشو کیا ہے؟ یہ گورے کھلاڑی کو دیکھ کر آہستہ کیوں ہو جاتا ہے؟ اس کا سانس کیوں پھول جاتا ہے‘ بار بار ٹیپ دیکھنے کے بعد پتا چلا یہ ذہنی طور پر سفید فام کھلاڑیوں سے خائف ہے‘ یہ ان سے گھبراتا ہے اور اس وجہ سے اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی ہے‘ یہ ایک دل چسپ صورت حال تھی‘ کوچ نے اس کا انٹرویو شروع کیا تو پتا چلا اس نے جب بھاگنا شروع کیا تھا تو تمام لوگوں نے اسے بتایا تھا ایتھلیٹکس گوروں کی اسپورٹس ہے‘ اس میں صرف گورے جیتتے ہیں لہٰذا بھاگتے ہوئے جوں ہی کوئی گورا اس کے قریب پہنچتا ہے تو آٹومیٹک اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی ہے۔
کوچ نے اسے سمجھانا شروع کیا لیکن صورت حال جوں کی توں رہی‘ کوچ نے مجبوراً اسپورٹس سائیکالوجسٹ سے رابطہ کیا‘ اس نے کیپ چوج کو اسٹڈی کیا تو پتا چلا گوروں کا غلبہ اس کے سب کانشیس میں چلا گیا ہے‘ یہ اب جتنا چاہے کوشش کر لے اس کا سب کانشیس اسے ہلنے نہیں دے رہا‘ سائیکالوجسٹ نے کوچ کو بتایا‘ ہمارے سب کانشیس میں جب کوئی بات بیٹھ جاتی ہے تو پھر ہمارے اندر سیلف سبوتاژ کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے جس کے بعد ہمیں باہر سے کوئی نہیں ہراتا‘ ہم اندر سے ہار جاتے ہیں‘ ہم اندر سے شکست تسلیم کر بیٹھتے ہیں۔
کوچ کو مسئلہ سمجھ آ گیا لہٰذا اس نے کیپ چوج کو سمجھایا تم نے دوڑتے وقت دائیں بائیں نہیں دیکھنا صرف اور صرف اپنے ہدف پر توجہ دینی ہے‘ دوسرا تم نے یہ گنتے رہنا ہے تم نے کتنے سیاہ فام باشندوں کو پیچھے چھوڑا‘ کیپ چوج کوچ کی بات کو سیریس لیتا تھا لہٰذا اس نے یہ مشورہ پلے باندھ لیا اور نتائج نے سب کو حیران کر دیا‘ آپ بھی یہ جان کر حیران رہ جائیں گے یہ ایلوڈ کیپ چوج 2019میں دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے 42 اعشاریہ 195 کلومیٹر کی میراتھن دو گھنٹے سے کم وقت میں مکمل کرلی اور یہ ورلڈ ریکارڈ تھا اور اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ آپ اگر آج اس کے ریکارڈز اور ایوارڈز دیکھیں تو آپ کی آنکھیں اور دماغ تھک جائے گا لیکن اس کے ریکارڈز اور ایوارڈز کی فہرست ختم نہیں ہوگی۔
میں آگے بڑھنے سے قبل آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں میراتھن 42 اعشاریہ 195 کلومیٹر کیوں ہوتی ہے؟ 1908میں کوئین الیگزینڈرا برطانیہ کی ملکہ تھی‘ 1908 میں لندن میں اولمپکس ہوئیں‘ ملکہ نے حکم جاری کیا‘ میرا تھن ونڈسر کاسل کے لان سے اسٹارٹ ہو گی اور وائیٹ سٹی اسٹیڈیم میں رائل باکس کے سامنے ختم ہو گی‘ اس حکم کی دو وجوہات تھیں‘ ملکہ چاہتی تھی جب ریس شروع ہو تو اس کا خاندان ونڈسر کاسل کی کھڑکی سے ریس دیکھ سکے اور جب یہ ختم ہو تو ملکہ اور اس کا خاندان رائل باکس میں جیتنے والے کھلاڑی کو دیکھ سکیں اور دوسری وجہ ملکہ کام یاب کھلاڑی کو سب سے پہلے دیکھنا چاہتی تھی‘ ماہرین نے کھڑکی اور باکس کے درمیان کا فاصلہ ماپا تو یہ 26 میل اور 385 میٹر یعنی 42 اعشاریہ 195کلومیٹر تھا یوں میرا تھن 42 اعشاریہ 195 کلو میٹر ہو گئی‘ میں کیپ چوج کی طرف واپس آتا ہوں۔
ایلوڈ کیپ چوج سب کانشیس کے سیلف سبوتاژ کا شکار تھا‘ اب سوال یہ ہے یہ کیا بلا ہوتی ہے؟ ہمارے دماغ کے دو حصے ہوتے ہیں‘ کانشیس (Concious) اور سب کانشیس (Subconcious) کانشیس صرف معلومات اکٹھی کرتا ہے جب کہ سب کانشیس اسے پراسیس کر کے ہمارے یقین کا حصہ بناتا ہے‘ ہماری زندگی کا نوے فیصد حصہ سب کانشیس کے کنٹرول میں ہوتا ہے‘ ہم مسلمان اور پاکستانی ہیں‘ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں یہ سارا ڈیٹا ہمارے بلیو (Believe) سسٹم یا سب کانشیس کاحصہ ہوتا ہے‘ بچوں کا کانشیس اور سب کانشیس پیدائش کے بعد کورا کاغذ ہوتے ہیں‘ ہم سب مل کر اسے بھرتے ہیں یا پر کرتے ہیں‘ بچے ہمیں دیکھ اور سن کر زبان سے لے کر عادتوں تک ہر چیز سیکھتے ہیں اور یہ آگے چل کر ان کا بلیو یعنی یقین بنتا ہے اور یہیں سے ان کی کام یابی اور ناکامی کا سفر شروع ہو تا ہے‘ کیپ چوج کو اس کے ماحول نے اتنی بار گوروں سے ڈرایا تھا‘ اسے اتنی مرتبہ یہ بتایا گیا تھا کہ ایتھلیٹکس گوروں کی اسپورٹس ہے۔
تم سیاہ فام ہو اورتم خواہ کتنا ہی تیز دوڑ لو تم کام یاب نہیں ہو سکتے اور یہ بات بار بار دہرانے کی وجہ سے اس کے سب کانشیس میں چلی گئی جس کے بعد یہ جوں ہی کسی گورے کو دوڑتا ہوا دیکھتا تھا تو اس کا سب کانشیس اسے پیغام دے دیتا تھا تم اس گورے سے نہیں جیت سکتے‘تمہیں زیادہ توانائی ضایع کرنے کی ضرورت نہیں اور اس کے بعد اس کے پھیپھڑے خود بخود ڈھیلے پڑ جاتے تھے اور ٹانگوں کی توانائی کم ہو جاتی تھی یوں اس کے ساتھ بھاگنے والا گورا اس سے آگے نکل جاتا تھا‘ نفسیات کی زبان میں اس عمل کو سیلف سبوتاژ (Self Sabotage) کہتے ہیں یعنی آپ اپنی جیت کو خود ہی ہار میں تبدیل کر دیں‘ آپ اپنی کام یابی کو ناکامی میں بدل دیں یا آپ چھکا مارتے ہوئے جان بوجھ کر آؤٹ ہو جائیں‘ کیپ چوج بھی سیلف سبوتاژ کا شکار ہو گیا تھا‘ اس کے خاندان اور ماحول نے مل کر اس کے دل میں گوروں کا خوف بٹھا دیا تھا جس کے بعد اس کا سب کانشیس اسے گوروں کے مقابلے میں جیتنے نہیں دیتا تھا۔
آپ اگر کیپ چوج کی کہانی توجہ سے پڑھیں تو آپ خود کو بھی سیلف سبوتاژ کا شکار پائیں گے بلکہ رکیے آپ کو پوری قوم سیلف سبوتاژ کا شکار ملے گی‘ آپ کبھی نوٹ کیجیے آپ کو ہر طرف سے ہم ترقی نہیں کر سکتے‘ ہم ٹھیک نہیں ہو سکتے‘ ہم بے ایمان لوگ ہیں‘ ہم میں خداترسی نام کی چیز نہیں‘ ہم بہت گندے ہیں‘ ہم سسٹم نہیں بنا سکتے‘ ہماری حکومت بہت نکمی ہے‘ سارا نظام کرپٹ ہے ‘ ہمیں عدالتوں سے انصاف نہیں ملے گا‘ پاکستان میں کوئی چیز خالص نہیں‘ پولیس بڑی ظالم ہے۔
سیاست دان نالائق اور کرپٹ ہیں‘ مولوی جاہل اور سخت ہیں‘ ہماری فوج بہت کم زور ہے اور ہم سیلاب کنٹرول نہیں کر سکیں گے جیسے فقرے سننے کو ملیں گے‘ آپ کسی جگہ بیٹھ جائیں آپ یہ سوال ضرور سنیں گے پاکستان کا کیا بنے گا‘ کیا ہم ٹھیک ہو جائیں گے اور ہمارا مستقبل کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ‘ آپ حد ملاحظہ کریں‘ ہم نے 10مئی کو جب بھارت کو شکست دی تھی تو پورے ملک نے کہنا شروع کر دیا تھا اگر چین ہماری مدد نہ کرتا تو ہمیں بڑی مار پڑتی‘ یہ کیا ہے؟ یہ سیلف سبوتاژ کی آخری اسٹیج ہے اور اس اسٹیج میں انسان ہو یا ملک یہ اپنا اعتماد مکمل طور پر کھو بیٹھتا ہے اور ہم بدقسمتی سے اس عمل سے گزر رہے ہیں بالخصوص ہماری کرکٹ ٹیم کے سب کانشیس میں یہ بات بیٹھ چکی ہے ہم بھارت سے نہیں جیت سکتے چناں چہ ہم جیتا ہوا میچ بھی ہار جاتے ہیں۔
ہم اگر واقعی زندہ رہنا چاہتے ہیں یا ترقی کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سیلف سبوتاژ سے باہر آنا ہو گا‘ ہمیں اپنے اوپر اعتماد کرنا ہو گا‘ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہو گا اگر ایلوڈ کیپ چوج تھوڑی سی حکمت عملی بدل کر کام یاب ہو سکتا ہے تو پھر ہم من حیث القوم یہ کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم بھی کر سکتے ہیں بس ہمیں حکمت عملی اور جیت کو اپنا یقین بنانا ہو گا اور پھر چند برسوں میں وہ ہو جائے گا جو ہم نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔