مسئلہ تقدیر کا اُلٹا استعمال
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اقامت ِ دین کی دعوت کے علَم برداروں کو اس کا خوب اچھی طرح اندازہ ہوگا کہ اس دعوت کے راستے میں فلسفۂ جبریت بعض اوقات بُری طرح روک بنتا ہے اور یہ خواص سے لے کر عامیوں تک یکساں سرایت کیے ہوئے ہے۔ آپ لوگوں سے کہیے کہ غلبۂ دین کے لیے کچھ کرو تو جواب ملے گا کہ یہ سب کچھ تو اللہ کے بس میں ہے۔ جب تک اس نے دین کی مخالف طاقتوں کو سرفرازی دے رکھی ہے، کون ہے جو اس سرفرازی کو پستی سے بدل سکے… یہ عجیب بات ہے کہ اس طرح کی باتیں ہمیشہ اُونچے درجے کی دینی و اخلاقی ذمے داریوں کی دعوت کے جواب میں تو کہی جاتی ہیں، لیکن اپنی دن رات کی زندگی میں کوئی بھی جبریت کے فلسفے پر تکیہ نہیں کرتا۔
ہمارے ایک دوست، اس دعوت کے جواب میں کہ اپنی زندگی بدلیے، فرمانے لگے کہ اس میں ہمارا کیا اختیار، یہ تو خدا کی طرف سے ازل کے دن لکھا گیا تھا۔ اس پر اُن سے عرض کیا گیا کہ آپ کا بچہ جب بیمار ہوجاتا ہے تو آپ رات کو سردی میں گرم بستر چھوڑ کر نکل کھڑے ہوتے ہیں، بہتر سے بہتر ڈاکٹر کو تلاش کر کے لاتے ہیں اور بہتر سے بہتر دوائیں اپنا مال خرچ کرکے حاصل کرتے ہیں، پھر تیمارداری میں اپنا آرام قربان کرتے ہیں۔ اس سارے سلسلے میں تو آپ کو کبھی فلسفۂ جبریت یاد نہیں آتا اور کبھی آپ یوں نہیں سوچتے کہ بیماری اور صحت تو خدا نے پہلے ہی لکھ دی ہے۔ پھر ہم کیوں علاج کے چکّر میں پڑیں، مگر بس جہاں خدا کے دین کا کوئی مطالبہ سامنے آیا تو آپ نے جبریت کے فلسفہ کو عذر میں پیش کردیا۔ اگر آپ بے روزگار ہوجائیں تو دَر دَر جاکر روزگار تلاش کریں، سفارشیں لے کے دفتروں میں گھومیں، ایک ایک کی منت سماجت کریں… کوئی آپ کی عزتِ نفس پر حملہ کردے تو دماغ اور زبان اور ہاتھ پائوں کی ساری قوتیں انتقام میں لگا دیں۔ کوئی آپ کا مال مار کھائے تو اس کے خلاف مقدمہ لڑنے کے لیے اپنی سی جو کچھ کرسکتے ہوں کرگزریں۔ ان معاملات میں تو کبھی تقدیر کا سوال پیدا نہ ہو۔ لیکن بات جب خدا و رسولؐ کے احکام کی اطاعت کی آئے اور حمایتِ دین کے لیے آپ کو پکارا جائے تو آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ روزِاوّل سے یہ معاملات طے ہوچکے، اب سوچنا کیسا اور کوشش کیسی؟ یا دونوں طرف جبریت کے آگے سرجھکائیے، یا دونوں طرف سعی کا حق ادا کیجیے۔ یہ کیا کہ اپنی خواہشات ہوں تو آپ ہمہ تن اختیار بن جائیں، اور خدا و رسولؐ کا حکم سامنے آئے تو جبریت کی پناہ گاہ میں جاچھپیں! براہِ کرم فریبِ نفس سے نکلیے!
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: دعوت کے
پڑھیں:
کیا ملک میں ملاقاتوں کا مسئلہ ہی رہ گیا ہے، افنان اللہ خان
اسلام آباد:رہنما مسلم لیگ (ن) افنان اللہ خان کا کہنا ہے کہ یہ بات پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو سمجھنی چاہیے کہ عمران خان ایک قیدی ہیں ان پر سرارب روپے کی کرپشن کا الزام کورٹ میں ثابت ہو چکا ہے، اس کی بنیاد پر ان کو سزا مل چکی ہے، وہ بنی گالہ میں نہیں ہیں وہ سرینہ یا میریٹ میں نہیں ہیں کہ فون اٹھائیں اور کہیں کے روم سروس آ جائے، اس سے ملاقاتیں اسی طرح ہوں جو جیل مینوئل اجازت دیتا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان کے ساتھ منگل اور جمعرات کو ملاقات ہوتی ہے، یہ چاہتے ہیں کہ میری ملاقاتیں ایسی ہوں کہ میں ہر وقت انسڑکشنز جاری کرتا رہوں یہ نہیں ہو سکتا،کیا اس ملک کے اندر ایک ہی مسئلہ رہ گیا ہے کہ ملاقات ہو۔
رہنما تحریک انصاف نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ عمران خان کی پراپرٹی یہاں ہے، باہر سے آنے والے پیسے جو اس نے بنی گالہ پر لگائے اس کا حساب بھی عمران خان سے لیتے ہیں جن کی پراپرٹیاں باہر ہیں وہ تو یہاں پھر رہے ہیں، عمران خان کے بیٹوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ہم تحریک کو لیڈ کریں گے اور نہ عمران خان نے ان کو کہا ہے، انھوں نے کہا ہے کہ ہم خود آنا چاہتے ہیں، سسٹم عمران خان کو مائنس کرنا چاہتا ہے، عمران خان نہ کسی جاگیر دار کا بیٹا ہے نہ سرمایہ دار کا بیٹا ہے اشرافیہ کو قبول نہیں ہے، عمران خان کے پیچھے اس وجہ سے لگے ہوئے ہیں۔
تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی اگر خان صاحب اتنے اعتماد سے کام کر رہے ہیں تو ان کے سامنے کوئی گیم پلان ضرور ہوگا، وہ گیم پلان سامنے آئے گا تو میں کوئی تبصرہ کر سکوں گا کہ آیا اس میں کیا کمزوری ہے اور کیا نہیں ہے، میں ہمیشہ یہ کہتا رہتا ہوں کہ تحریک انصاف کو اللہ نے بڑی مقبولیت دی ہے لیکن چونکہ ان کے پاس سیاسی حکمت عملی کی ہمیشہ کمی تھی ابتری کی کیفیت ہے توان کو اپنے کارڈز کو جس طرح پلان کرنا چاہیے تھا وہ اس میں ناکام رہے ہیں، خود عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت تحریک انصاف کو میسر رہی ہے، پچھلے تین سال کے احتجاجوں کا احاطہ کریں تو ناکام ہی رہے ہیں۔