Jasarat News:
2025-07-13@00:42:25 GMT

ایک آرزو

اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

’’ایک آرزو‘‘ کے عنوان سے علامہ اقبال کی ایک نظم ہے، اس کی صحیح وجدانی کیفیت کا ادراک تو وہ لوگ کرسکتے ہیں، جنہوں نے پہاڑی علاقوں میں بہنے والے دریائوں اور ندی نالوں کا منظر دیکھا ہو کہ جہاں جھاڑیاں ہوتی ہیں اور دریا میں بہنے والے پانی کے دونوں اطراف سبزہ بچھا ہوتا ہے اور ماحول پر سکون ہوتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی آبشاروں اور آبریزوں کی نغمگی سے معمور آوازیں آرہی ہوتی ہیں، چڑیاں چہچہا رہی ہوتی ہیں اور ہر سو سکوت طاری ہوتا ہے۔ ایسے میں آدمی اپنے ہاتھ کا سرہانہ بنائے سبزے پہ لیٹا ہو اور قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہورہا ہو۔ ہم نے اسکول کے زمانے میں یہ نظم پڑھی تھی اور اس کے مناظر بھی دیکھے تھے، اس لیے یہ کبھی ذہن سے محو نہ ہوسکی۔ آج جبکہ شورو شرر، ہائو ہُو، چیخ پکار، ٹریفک اور کارخانوں کا شور اور ماحول کی آلودگی قدرتی فضا کو زہر آلود کررہی ہے، تو چشمِ تصور میں اس نظم کا لطف اٹھایا جاسکتا ہے، علامہ اقبال کہتے ہیں:
دُنیا کی محفلوں سے، اُکتا گیا ہوں یا رب!
کیا لُطف انجمن کا، جب دل ہی بُجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکُوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
مرتا ہوں خامُشی پر، یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اِک، چھوٹا سا جھونپڑا ہو
مفہوم: ’’اے پروردگار! دنیا کی محفلوں سے طبیعت اکتا گئی ہے، جب دل پر مایوسی کی کیفیت طاری ہو تو مجلسی زندگی میں کیا لطف آئے گا۔ اس لیے شورش سے طبیعت متنفر ہورہی ہے اور دل ایسے سکوت کا متلاشی ہے کہ جس پر خطاب اور تکلُّم بھی فدا ہونا پسند کرے۔ خاموشی میری تمنا ہے، کاش کہ پہاڑ کے دامن میں میرے رہنے کے لیے ایک چھوٹا سا جھونپڑا ہو اور چاروں طرف سکوت طاری ہو‘‘۔
آزاد فکر سے ہوں، عُزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے، کانٹا نکل گیا ہو
لذّت سُرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو
گُل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا
ساغَر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو
مفہوم: ’’ایسا ماحول چاہیے کہ دنیا کی ہر فکر سے آزاد ہوکر تنہائی میں وقت گزاروں اور دل میں کسی چیز کا غم نہ رہے۔ جب چڑیاں چہچہارہی ہوں تو ایسے پرسکون ماحول میں نغمگی کا سرور محسوس ہو اور پہاڑی چشموں سے پانی بہنے کی آواز ایسی لگے جیسے کوئی دلکش اور سَمع نواز ساز بج رہا ہے۔ اتنا سکوت ہو کہ پھول کی کلی کے چٹکنے کی آواز بھی محسوس ہو اور قدرتی پانی کا جام میرے لیے جامِ جَم سے زیادہ قیمتی ہو‘‘۔ افسانوی روایات کے مطابق جامِ جم فارس کے بادشاہ جمشید کی طرف منسوب ہے، اُس پر ایسے نقوش بنے ہوئے تھے جن سے مستقبل کا حال معلوم کیا جاسکتا تھا۔
ہو ہاتھ کا سَرھانا، سبزے کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جَلوت، خَلوت میں وہ ادا ہو
مانوس اس قدر ہو، صورت سے میری بُلبل
ننھّے سے دل میں اُس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو
مفہوم: ’’ہاتھ کا سرہانا بناکر قدرتی بچھے ہوئے سبزے پہ لیٹ جائوں اور ایسی تنہائی ہو کہ جس کے سامنے پُر رونق محفلیں بھی شرما جائیں۔ پہاڑی بلبل میری صورت سے اس قدر مانوس ہوجائے کہ وہ مجھ سے چھیڑ چھاڑ اور معصومانہ شرارتیں کرے اور اُسے مجھ سے ذرا بھی خطرہ محسوس نہ ہو‘‘۔
صف باندھے دونوں جانب بُوٹے ہرے ہرے ہوں
ندّی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو
ہو دل فریب ایسا کُہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر، اُٹھ اُٹھ کے دیکھتا ہو
آغوش میں زمیں کی، سویا ہُوا ہو سبزہ
پھِر پھِر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو
مفہوم: ’’ندی کے دونوں جانب ہرے بھرے درختوں کی قطاریں ہوں اور جب ندی کے صاف پانی میں اُن کا عکس نظر آئے تو لگے کہ یہ پانی اُن کی تصویر لے رہا ہے۔ ندی کے دونوں جانب پہاڑوں کا نظارہ انتہائی دلفریب ہو، ایسا لگے کہ ندی کا پانی اچھل اچھل کر ان مناظر کودیکھ رہا ہے۔ پہاڑ کی آغوش میں پرسکون سبزہ ایسے بچھا ہو کہ جیسے سورہا ہے اور بل کھاتی ہوئی جھاڑیوں کے درمیان سے ندی کاہر آلودگی سے پاک شفاف پانی چمک رہا ہے‘‘۔
پانی کو چھُو رہی ہو جھُک جھُک کے گُل کی ٹہنی
جیسے حَسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
مہندی لگائے سورج جب شام کی دُلھن کو
سُرخی لیے سنہری ہر پھُول کی قَبا ہو
راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
اُمّید اُن کی میرا ٹُوٹا ہوا دِیا ہو
مفہوم: ’’ندی کے دونوں طرف درختوں کی ٹہنیاں اس طرح جھک کر پانی کو چھورہی ہوں جیسے کوئی حسین آئینہ دیکھتا ہے۔ سورج غروب ہونے کا منظر ایسا لگے کہ جیسے شام کی دُلہن کو مہندی لگائی گئی ہے اور اُس کی سرخی ہر پھول پر منعکس ہو رہی ہے۔ جنگل کے مسافر جب چلتے چلتے تھک کر آرام کی تلاش میں ہوں تو میرا ٹوٹا ہوا دیا اُن کے لیے امید کی کرن ہو‘‘۔
بجلی چمک کے اُن کو کُٹیا مری دکھا دے
جب آسماں پہ ہر سُو بادل گھِرا ہوا ہو
پچھلے پہر کی کوئل، وہ صبح کی مُؤَذِّن
مَیں اُس کا ہم نوا ہوں، وہ میری ہم نوا ہو
کانوں پہ ہو نہ میرے دَیر و حرم کا اِحساں
روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو
مفہوم: ’’جب آسمان پہ ہر سُو بادلوں کی اندھیریاں چھائی ہوئی ہوں اور بجلی چمکے تو اُس کی روشنی میں مسافروں کو میری جھونپڑی نظر آئے۔ رات کے پچھلے پہر جب کوئل کُوکُو کرے تو لگے کہ وہ صبح کی اذان دیتے ہوئے میری ہمنوا بن رہی ہے۔ کسی عبادت گاہ کا، جہاں سے عبادت کے لیے بلایا جاتا ہے، میرے کانوں پر کوئی احسان نہ ہو، بلکہ میری جھونپڑی کا روشن دان نما سوراخ ہی مجھے صبح کا پتا دے‘‘۔
پھُولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
رونا مرا وضو ہو، نالہ مری دُعا ہو
اس خامُشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو
ہر درد مند دل کو رونا مرا رُلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں، شاید انہیں جگا دے
مفہوم: ’’جب رات کو درختوں کے پھولوں اور پتوں پر شبنم کے قطرات نمودار ہوں تو لگے کہ وہ پھولوں کو وضو کرارہی ہے، جبکہ تنہائی میں میرا رونا میرا وضو ہو اور میری فریاد میری دعا ہو۔ اس خاموش ماحول میں، مَیں اتنی اونچی آواز سے فریادیں کروں کہ آسمان کے تارے میری آواز سن کر متوجہ ہوجائیں۔ مجھے ایسی حضوری کی کیفیت نصیب ہو کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میرا رونا ہر درد مند دل کو رُلادے اور جو ذاتِ باری تعالیٰ سے غافل ہوکر مدہوش پڑے ہیں، انہیں بھی جگادے‘‘۔
شاید مرزا غالب بھی دنیا کی محفلوں، مکرو وفریب اور نمود ونمائش سے اکتا گئے تھے اور پھر ایسی ہی خَلوت کی تمنا کرتے ہوئے انہوں نے اپنے جذبات کو منظوم کیا ہوگا:
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سُخَن کوئی نہ ہو اور ہم زَباں کوئی نہ ہو
بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
مفہوم: غالب! اب ایسی جگہ چل کر ٹھکانا بنائو، جہاں نہ کوئی رازدار ہو اور نہ کوئی آپ کی زبان کو سمجھنے والا ہو۔ بس ایک ایسا گھر چاہیے کہ جس میں سائبان تو ہو، لیکن کوئی درو دیوار ہو، نہ کوئی ہمسایہ اور نہ کوئی پاسبان ہو۔ اگر خدانخواستہ بیمار پڑ جائوں تو کوئی تیمار دار نہ ہواور مرجائوں تو کوئی نوحہ کرنے والا نہ ہو‘‘۔ الغرض اپنے ہر دکھ درد کو خود ہی بھگتوں اور ہر غم کو خود ہی سمیٹوں، کسی کے رحم کا آسرا نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم غالب کی اس فکر کی تائید کر رہے ہیں، آپ کو اُن کی کیفیت سے آگاہ کر رہے ہیں۔

 

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کوئی نہ ہو کے دونوں نہ کوئی رہی ہے رہا ہے رہا ہو ندی کے ہے اور ہو اور لگے کہ رہی ہو

پڑھیں:

اٹلی: شاہی محل کے باغ سے پانی ’چرانے‘ والا شخص گرفتار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 جولائی 2025ء) کارابینیری پولیس نے کہا کہ 58 سالہ شخص ’’سرکاری پانی کی مسلسل چوری‘‘ میں ملوث تھا جس سے 18 ویں صدی کے شاہی محل کازرٹا کو نقصان پہنچا تھا۔ نیپلز کے بادشاہ چارلس آف بوربن کے ذریعہ تعمیر کردہ یہ محل اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کے ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔

پولیس نے کہا کہ انہوں نے یہ گرفتاری محل کی طرف سے الرٹ کرنے کے بعد کی۔

محل، جو اب ایک میوزیم ہے، کے حکام نے اپنے سرسبز مناظر والے باغات کے جھرنوں اور فواروں میں پانی کی کمی کی شکایت کی تھی۔

محل، جو 123 ہیکٹر پر پھیلے باغات کے لیے مشہور ہے، نے ایک بیان میں کہا کہ اسے اپنے آبشاروں، فواروں اور جھرنوں میں ’’پانی کی شدید قلت‘‘ کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

گرفتار شخص پانی کیوں ’چرا‘ رہا تھا؟

مشتبہ شخص نے مبینہ طور پر کیرولین ایکویڈکٹ میں سیندھ لگائی، اور غیر قانونی پائپ لائن کے ذریعے پانی کو 145 میٹر دور اپنے کھیت میں پہنچا دیا۔

پولیس نے بتایا کہ انہوں نے پائپ کو ضبط کر لیا ہے۔

پولیس نے ایک بیان میں کہا، ’’پائپ کو چھ مختلف علاقوں میں آبپاشی کے لیے پانی جمع کرنے کے لیے 1000 لیٹر کے ایک حوض تک پہنچایا گیا۔‘‘

مشتبہ شخص کی شناخت ایک مذہبی تنظیم کے زیر ملکیت زرعی جائیداد کے منتظم کے طور پر ہوئی ہے۔

اسے گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔

گرفتار شخص کا کہنا تھا کہ اس نے لان کے لیے پانی دینے کے اپنے نظام کو استعمال کرنے سے گریز کیا تھا، جس کی وجہ سے وہ زرد پڑ گئے تھے، اس نے مزید کہا کہ صورت حال سے نمٹنا اس کے لیے ’’بہت مشکل‘‘ ہو رہا تھا۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • کراچی: چھ سالہ پانی کے ٹینک میں ڈوب کر جاں بحق
  • کراچی: کھلے سمندر میں شکار کے لیے جانے والی ماہی گیر لانچ پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئی
  • آگئے میری موت کا تماشا دیکھنے
  • اٹلی: شاہی محل کے باغ سے پانی ’چرانے‘ والا شخص گرفتار
  • بھارت نے اگر پانی کے ساتھ کوئی گڑبڑ کی تو جنگ تصور ہو گی: اسحاق ڈار
  • کراچی کی آبادی 2 کروڑ 30 لاکھ سے بڑھ گئی
  • ”میری بے چینی کا علاج نماز کا کمرہ ہے“، دبئی کے پام جمیرا میں واقع ثانیہ مرزا کے شاندار ولا کا سب سے پُرسکون گوشہ
  • والد نے مسلسل رابطوں سے پریشان ہوکر تدفین کا بیان دیا، بہن بہت خوددار تھی، بھائی حمیرا اصغر
  •  اراضی کیس میں چوہدری پرویز الہٰی کے وارنٹ گرفتاری منسوخ