ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے الجزیرہ کو دیے گئے انٹرویو میں واضح کیا ہے کہ ایران اسرائیل کی کسی بھی نئی جارحیت کے لیے مکمل طور پر تیار ہے اور تہران اپنا یورینیم افزودگی (uranium enrichment) کا پروگرام بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں جاری رکھے گا۔

یہ بھی پڑھیں:ضرورت پڑی تو ایران کو پھر نشانہ بنائیں گے، ٹرمپ

صدر پزشکیان نے کہا کہ ہم کسی بھی نئی اسرائیلی کارروائی کے لیے تیار ہیں اور ہماری افواج اسرائیل کی گہرائی میں دوبارہ حملے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جنگ بندی دیرپا ثابت نہیں ہوگی اور ایران نے ہر ممکنہ صورتحال کے لیے خود کو تیار کر رکھا ہے۔

ان کے مطابق اسرائیل نے ہمیں نقصان پہنچایا اور ہم نے بھی اسے گہرے زخم دیے ہیں، لیکن وہ اپنے نقصانات چھپا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے ایرانی قیادت کو ختم کرنے کی کوششیں ناکام ہوئیں، اگرچہ کئی سینیئر فوجی اور جوہری سائنس دان مارے گئے اور تنصیبات کو نقصان پہنچا۔

یہ بھی پڑھیں:ایران پاکستانی حمایت کبھی نہیں بھولے گا، صدر مسعود پزشکیان کا محسن نقوی سے اظہار تشکر

صدر ایران نے اس بات کی تصدیق کی کہ اسرائیل نے 15 جون کو تہران میں اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران ان پر حملے کی کوشش کی جس میں وہ معمولی زخمی ہوئے۔

جوہری پروگرام پر بات کرتے ہوئے پزشکیان نے کہا کہ ہم ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ہیں، یہ ہمارا سیاسی، مذہبی، اخلاقی اور اسٹریٹیجک مؤقف ہے، لیکن پرامن مقاصد کے لیے افزودگی جاری رہے گی۔

انہوں نے واضح کیا کہ ایران کے جوہری راز تنصیبات میں نہیں بلکہ سائنس دانوں کے ذہنوں میں ہیں۔

امریکی اڈے پر حملے سے متعلق صدر پزشکیان نے وضاحت کی کہ قطر میں امریکی فوجی اڈے پر حملہ قطر کے خلاف نہیں تھا، بلکہ یہ ان حملوں کا جواب تھا جو امریکا نے ایران پر کیے تھے۔ اس حوالے سے انہوں نے قطر کے امیر کو ذاتی طور پر فون کر کے ایران کا مؤقف بھی واضح کیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے اختتام کے بعد صدر پزشکیان کا پہلا اہم بیان ہے۔ اس جنگ میں امریکہ نے اسرائیل کا ساتھ دیتے ہوئے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:ایران ایٹمی معاہدہ: امریکا اور یورپ کا آئندہ ماہ کی آخری تاریخ پر اتفاق

دوسری طرف ایران، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے درمیان جوہری معاہدے سے متعلق مذاکرات جمعہ کو ترکی میں ہونے جا رہے ہیں۔

یورپی ممالک کا کہنا ہے کہ اگر ایران مذاکرات کی بحالی میں ناکام رہا تو اس پر دوبارہ عالمی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایٹمی پروگرام ایرانی صدر پزشکیان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایٹمی پروگرام ایرانی صدر پزشکیان صدر پزشکیان پزشکیان نے نے کہا کہ انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

اسرائیلی برتری کی خاطر غزہ میں کنٹرول شدہ تناو پر مبنی امریکی پالیسی

اسلام ٹائمز: اس صورتحال سے ایک گہری تبدیلی بھی واضح ہو جاتی ہے اور وہ اسٹریٹجک فیصلہ کا مرکز تل ابیب سے باہر منتقل ہو جانے پر مبنی ہے۔ بیرونی موثر فوجی نظارت کے باعث اسرائیلی فوج فوجی صلاحیتیں رکھنے کے باوجود نہ تو حملے اور نہ ہی جوابی کاروائی میں خودمختار نہیں ہے۔ اسرائیل کے جنوب خاص طور پر کریات گات آپریشن روم میں امریکہ موجود ہے اور وہاں ایک قسم کا ہیڈکوارٹر اور کنٹرول روم بنا ہوا ہے۔ وہیں یہ طے کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کب، کہاں اور کس شدت سے فوجی جارحیت انجام دے گا۔ اس بارے میں اسرائیلی کابینہ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے بلکہ وہ ہر قسم کے سیاسی اقدام سے پہلے امریکہ کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کا انتظار کرتی ہے۔ امریکہ نے عملی طور پر اسرائیل کے تمام فیصلوں پر کڑی نگرانی رکھی ہوئی ہے۔ تحریر: یحیی دبوق (کالم نگار لبنانی اخبار الاخبار)
 
اگرچہ اسرائیل کی جانب سے تناو کی شدت میں حالیہ اضافہ غزہ میں جنگ بندی متزلزل ہونے کی علامت ہے لیکن متضاد طور پر غزہ کے جنوبی شہر رفح میں فائرنگ کے تبادلے پر مبنی واقعے سے غلط فائدہ اٹھا کر تناو کی شدت میں ایسے کنٹرول شدہ اضافے کی کوشش ہے جو امریکہ کی براہ راست نگرانی میں انجام پا رہی ہے۔ غزہ میں جنگ بندی محض ایک متزلزل جنگ بندی ہی نہیں ہے بلکہ وہ دراصل مدمقابل فریقوں خاص طور پر حماس کی طاقت آزمانے کا ایک میدان ہے تاکہ اسے جنگ کے ان نئے قوانین سے مطابقت دی جا سکے جو امریکہ کی جانب سے وضع کیے گئے ہیں۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کا بیان بھی اسی پیرائے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس نے جنگ بندی کے "تسلسل" پر زور دیتے ہوئے پیشن گوئی کی ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کی ہر قسم کی خلاف ورزی کا جواب دے گا۔
 
امریکی نائب صدر نے اپنے اس بیان کے ذریعے نہ صرف امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کا اظہار کیا ہے بلکہ ایک اسٹریٹجک نقطہ نظر بھی بیان کیا ہے جس کے مطابق جنگ کے بعد والا مرحلہ درحقیقت اسرائیل کی سیکورٹی کے حق میں نئے قوانین وضع کرنے کا ایک میدان ہے اور مقصد میدان جنگ میں طاقت کا توازن برقرار کرنا نہیں ہے۔ یہ حکمت عملی واضح طور پر زمینی حقائق میں دکھائی دے رہی ہے۔ آج اسرائیل نے غزہ کے ایسے علاقوں میں بھی اپنی فوجی موجودگی بڑھا دی ہے جہاں سے اسے جنگ بندی معاہدے کی روشنی میں فوجی انخلاء انجام دینا تھا۔ اس اقدام کو امریکہ کی اس سیاسی حمایت پر مبنی چھتری سے علیحدہ کر کے سمجھنا مشکل ہے جو اس نے اسرائیل کے لیے کھول رکھی ہے۔ یوں امریکہ نے عملی طور پر اسرائیل کو جنگ بندی کی "پابندی" کا من گھڑت معنی کرنے کی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔
 
لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کی ہر فوجی سرگرمی کو "جائز دفاع" کا نام دے دیا جاتا ہے چاہے وہ غزہ کی پٹی میں اعلان شدہ حدود کی خلاف ورزی پر ہی کیوں نہ مشتمل ہو۔ ساتھ ہی یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی حماس نے کی ہے۔ اس کا نتیجہ حماس اور فلسطینیوں پر ایک نابرابر صورتحال مسلط کر دینے کی صورت میں نکلتا ہے۔ یعنی ایک طرف حماس سے جنگ بندی معاہدے کی ہر شق کی پابندی کا مطالبہ کیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیلی فوج کو امریکہ کی کھلی یا ڈھکے چھپے حمایت سے ان شقوں کی اپنی مرضی سے تشریح کرنے کا اختیار دے دیا جاتا ہے تاکہ وہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے الزام سے بھی بچ جائے اور غزہ میں اپنے فوجی آپریشن کی وسعت بھی بڑھاتی چلی جائے۔
 
اس صورتحال سے ایک گہری تبدیلی بھی واضح ہو جاتی ہے اور وہ اسٹریٹجک فیصلہ کا مرکز تل ابیب سے باہر منتقل ہو جانے پر مبنی ہے۔ بیرونی موثر فوجی نظارت کے باعث اسرائیلی فوج فوجی صلاحیتیں رکھنے کے باوجود نہ تو حملے اور نہ ہی جوابی کاروائی میں خودمختار نہیں ہے۔ اسرائیل کے جنوب خاص طور پر کریات گات آپریشن روم میں امریکہ موجود ہے اور وہاں ایک قسم کا ہیڈکوارٹر اور کنٹرول روم بنا ہوا ہے۔ وہیں یہ طے کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کب، کہاں اور کس شدت سے فوجی جارحیت انجام دے گا۔ اس بارے میں اسرائیلی کابینہ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے بلکہ وہ ہر قسم کے سیاسی اقدام سے پہلے امریکہ کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کا انتظار کرتی ہے۔ امریکہ نے عملی طور پر اسرائیل کے تمام فیصلوں پر کڑی نگرانی رکھی ہوئی ہے۔
 
اسرائیل کے حساس اداروں سے عبرانی ذرائع ابلاغ تک لیک ہونے والی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کے سیکورٹی ادارے مختلف قسم کے حربوں سے اپنے فیصلوں میں خودمختاری دوبارہ حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف اگرچہ اسرائیل میں امریکی مداخلت پر ناراضگی پائی جاتی ہے لیکن امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ اپنے اہداف کو تل ابیب سے دشمنی نہیں بلکہ اس کے مفادات کے تحفظ کے طور پر پیش کرے۔ امریکہ نے اسرائیل کو یقین دہانی کروا رکھی ہے کہ اس کے تمام فیصلے "ایک ریاست کے طور پر اسرائیل" کے حق میں اور ان میں محض افراد کے مفادات کو مدنظر قرار نہیں دیا جاتا۔ یہ صورتحال درحقیقت اس بات کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل امریکہ اور مغربی ممالک کی بھرپور مدد اور حمایت کے باوجود غزہ کے خلاف جنگ میں فیصلہ کن کامیابی حاصل نہیں کر پایا ہے۔
 
امریکہ اسرائیل کو اپنی مکمل اطاعت پر مجبور نہیں کر سکتا بلکہ آخرکار اسے "مشروط" طور پر سیکورٹی امور میں آزادی دینے پر مجبور ہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ہم آنے والے دنوں میں بھی اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کریں گے۔ ایسی صورتحال میں حماس نہ صرف مشکل انتخاب سے روبرو ہو گی بلکہ عین ممکن ہے اسے بیرونی دباو کے نتیجے میں حقیقی شراکت داری سے بھی محروم ہونا پڑے۔ یوں رفح میں فائرنگ کا تبادلہ اور اس پر اسرائیل کا ردعمل ایک طے شدہ حکمت عملی کا شاخسانہ تھا جس کا مقصد جنگ کے نئے قوانین مسلط کرنا ہے۔ ایسے قوانین جن کا واضح اعلان نہیں کیا جاتا لیکن میدان جنگ میں لاگو کیے جاتے ہیں۔ ایسا مرحلہ جس کا مستقبل واضح نہیں ہے اور وہ فوجی یا سیاسی راہ حل کے بغیر طول پکڑ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جوہری پروگرام پر امریکا سے براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں‘ایران
  • ایران نیوکلیئر مذاکرات کے لیے تیار، میزائل پروگرام پر ’کوئی بات نہیں کرے گا‘
  • وزیر تجارت سے ایرانی سفیر کی ملاقات: اقتصادی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  • یورینیم افزودگی روکیں گےنہ میزائل پروگرام پر مذاکرات کریں گے: ایران کا دوٹوک جواب
  • ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کو ٹکا سا جواب دیدیا
  • جوہری یا میزائل پروگرام پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں ،ایران
  • ایرانی و مصری وزرائے خارجہ کی غزہ، لبنان اور جوہری مسائل پر گفتگو
  • امریکا کا جوہری تجربات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ غیرذمہ دارانہ ہے: ایرانی وزیرخارجہ
  • اسرائیلی برتری کی خاطر غزہ میں کنٹرول شدہ تناو پر مبنی امریکی پالیسی