روس میں مسافر طیارہ گر کر تباہ، تمام افراد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 24th, July 2025 GMT
روس کے مشرقی علاقے میں چین کی سرحد کے نزدیک مسافر بردار طیارہ ہچکولے کھاتے ہوئے زمین بوس ہوگیا اور اُس میں خوفناک آگ بھڑک اُٹھی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق انٹونوف اے این-24 ماڈل کا یہ طیارہ انگارا ایئرلائنز کی ملکیت تھا جس نے بلاگوویشچنسک سے ٹنڈا کے لیے پرواز بھری تھی۔
طیارہ اپنی دوسری لینڈنگ کی کوشش کے دوران ریڈار سے غائب ہو گیا تھا جب کہ اس سے قبل کسی تکنیکی خرابی کی اطلاع نہیں ملی تھی۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ خراب موسم اور حد نظر کی کمی کے باعث طیارے نے بلندی کا غلط اندازہ لگایا اور ممکنہ طور پر درختوں سے ٹکرا کر گرگیا۔
روس کی ایمرجنسی وزارت کا کہنا ہے کہ طیارے کا ملبہ ٹنڈا شہر سے تقریباً 15 کلومیٹر جنوب میں ایک پہاڑی جنگلاتی علاقے میں ملا جہاں پہنچنا دشوار گزار موسم اور زمین کی ساخت کے باعث فوری ممکن نہ تھا۔
طیارے میں 5 بچوں سمیت 42 مسافر اور عملے کے 6 افراد سوار تھے۔ جن میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا۔ ایک چینی مسافر بھی شامل ہے۔
گورنر نے حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
روسی ایوی ایشن نے حادثے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ تاہم روسی ایوی ایشن پہلے ہی مغربی پابندیوں کے باعث مسائل کا شکار ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ٹورنٹو آپریشن کی معطلی اور سول ایوی ایشن کا زبردست قدم
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) ایک بار پھر بدانتظامی اور کمزور منصوبہ بندی کے باعث بحران کا شکار ہوگئی۔ قومی ایئرلائن نے 11 ستمبر تا 25 ستمبر 2025 اپنے ٹورنٹو آپریشنز معطل کر دیے۔ یہ قدم بظاہر ’مینٹیننس کی ضرورت‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ بدانتظامی، ناقص منصوبہ بندی اور ریگولیٹری غفلت کی ایک اور مثال ہے۔
اندرونی سرکلر نے حقیقت آشکار کردیپی آئی اے کے دوحہ سینٹرل کنٹرول کی جانب سے 11 ستمبر 2025 کو جاری سرکلر میں یہ وجوہات بیان کی گئیں: بوئنگ 777 (AP-BGY) کا لینڈنگ گیئر شپ سیٹ اپنی حد پوری کرچکا تھا اور فوری تبدیلی درکار تھی۔ بوئنگ 777 (AP-BGZ) بھی کراچی میں مینٹیننس کے تحت تھا۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی (PCAA) نے مزید پروازوں کے لیے ویور دینے سے انکار کردیا، کیونکہ کسی بھی ریگولیٹر کے لیے حفاظتی پرزوں کی مدتِ استعمال پر سمجھوتہ ناممکن ہے۔
نتیجتاً 13 سے 27 ستمبر تک تقریباً تمام ٹورنٹو فلائٹس (PK797، PK784، PK783/790، PK789، PK782، PK781، PK798) منسوخ ہو گئیں۔ بہرحال یہ کوئی اچانک پیش آنے والا معاملہ نہیں تھا۔ لینڈنگ گیئر سائیکل کی آخری تاریخ پہلے سے معلوم تھی۔ دنیا بھر کی ایئرلائنز ایسے پرزوں کی تبدیلی برسوں پہلے پلان کرتی ہیں۔ لیکن پی آئی اے نے وقت پر پرزے منگوانے میں کوتاہی کی اور آخری لمحات میں سول ایوی ایشن سے رعایت مانگی، جو بجا طور پر مسترد کردی گئی۔
مزید یہ کہ پی آئی اے نے یورپ کے راستے پروازوں کی تجویز دی، لیکن یہاں بھی بدانتظامی غالب رہی: ای ٹی او پی ایس پروازیں (ETOPS) کبھی بھی یورپی ریگولیٹر ای اے ایس اے (EASA) کے TCO منظوری میں شامل ہی نہیں کی گئیں۔ اس لیے یورپی حکام ان پروازوں کا جائزہ بھی نہ لے سکے۔ ایوی ایشن کے ماہر افسر ملک کہتے ہیں: ’ایسا لگتا ہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کو آخر کار کچھ سمجھ اور پاور مل گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اب سمجھ گئے ہیں کہ ہوا بازی کی حفاظت ان کا پہلا مقصد ہے۔‘
ایوی ایشن کے لیگل ایکسپرٹ محمد علی کے مطابق: ’ایسے واقعات صرف ایک ایئرلائن کو نہیں بلکہ پاکستان کی پوری فضائی صنعت کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اب وقت ہے کہ بہانے نہیں بلکہ جواب دہی کی جائے۔‘ معاشی تجزیہ کار محمد معید الرحمان کا کہنا ہے: ’ٹورنٹو روٹ پی آئی اے کے لیے سب سے زیادہ منافع بخش راستوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس آپریشن کی معطلی نہ صرف مالی نقصان ہے بلکہ مارکیٹ شیئر بھی براہِ راست غیر ملکی ایئرلائنز کے ہاتھ میں جا رہا ہے۔ یہ قومی خزانے کے لیے بھی ایک دھچکا ہے۔‘
ایوی ایشن کے پائلٹ کپتان آفتاب کہتے ہیں: ’جہازوں کے لینڈنگ گیئر اور انجن جیسے پرزے آخری دن تک گنے جاتے ہیں۔ یہ کوئی اچانک مسئلہ نہیں ہوتا۔ پی آئی اے نے اگر وقت پر متبادل پرزے منگوائے ہوتے تو آج یہ بحران پیدا نہ ہوتا۔ یہ واضح طور پر انتظامی ناکامی ہے۔‘
ایوی ایشن صحافی طارق نے نشاندہی کی کہ: ’یورپی ریگولیٹرز کے ساتھ پی آئی اے کی ETOPS منظوری نہ ہونا دراصل ادارہ جاتی غفلت ہے۔ دنیا کی بڑی ایئرلائنز اپنے کاغذات، منظوریوں اور آپریشنل اجازت نامے ہمیشہ اپ ٹو ڈیٹ رکھتی ہیں۔ پی آئی اے کی یہ کمزوری بین الاقوامی اداروں کے اعتماد کو مزید مجروح کرے گی۔‘
یہ معاملہ صرف موجودہ بحران تک محدود نہیں۔ ماضی میں بھی اعلیٰ عدلیہ اور پارلیمان نے بارہا پی آئی اے کی کارکردگی پر سوال اٹھائے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک ازخود نوٹس کے دوران ریمارکس دیے تھے: ’پی آئی اے عوام کے پیسوں سے چلنے والا ادارہ ہے، یہ کسی کی ذاتی جاگیر نہیں۔‘
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن نے اپنی رپورٹ میں کہا: ’پی آئی اے کے پاس فلیٹ مینجمنٹ کا کوئی طویل مدتی منصوبہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے منافع بخش روٹس بھی متاثر ہو رہے ہیں اور مارکیٹ غیر ملکی ایئرلائنز کے ہاتھ میں جا رہی ہے۔‘
پارلیمانی کمیٹی برائے ایوی ایشن نے خبردار کیا تھا کہ اگر قومی ایئرلائن نے انتظامی اصلاحات نہ کیں تو یہ بحران پورے ایوی ایشن سیکٹر کو متاثر کرے گا
مسافروں اور مالی نقصان کی قیمتہزاروں مسافر، طلبہ، خاندان، مریض اور کاروباری حضرات، اچانک متاثر ہوئے۔ ان میں سے کئی کو غیر ملکی ایئرلائنز کے مہنگے ٹکٹس خریدنے پڑے۔ دوسری طرف پی آئی اے کو لاکھوں ڈالرز کے مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، ساتھ ہی ساتھ ساکھ کو بھی شدید دھچکا لگا۔
اگر پی آئی اے کو مزید بدنامی سے بچنا ہے تو:
1. جہازوں کی مینٹیننس لمبے عرصے کے شیڈول کے مطابق ہونی چاہیے۔
2. ریگولیٹری تقاضوں کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ حفاظتی حدود پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔
3. آپریشنل منصوبہ بندی میں ای ٹی او پی ایس اور ٹی سی او منظوری لازمی شامل کی جائے تاکہ متبادل راستے میسر ہوں۔
4. جوابدہی اور شفافیت ان لوگوں کے لیے ضروری ہے جو پرزہ جات کی بروقت فراہمی اور منصوبہ بندی میں ناکام رہے۔
جب تک یہ اقدامات نہیں کیے جاتے، ٹورنٹو آپریشن جیسی منسوخیاں بار بار یاد دلاتی رہیں گی کہ پی آئی اے کا اصل مسئلہ پرانے جہاز نہیں بلکہ پرانی بدانتظامی کی عادتیں ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔