امریکا میں شدید ڈپریشن اور دیگر ذہنی بیماریوں کے شکار ایسے مریض جو ’ڈیپ برین اسٹیمولیشن‘ (ڈی بی ایس) کے تجرباتی علاج سے نمایاں طور پر بہتر ہوئے تھے، اب علاج کی سہولتوں سے محرومی کا شکار ہو رہے ہیں۔ تحقیقی منصوبوں کے خاتمے اور سرکاری فنڈنگ کی بندش کے بعد یہ مریض بنیادی طبی سہولیات اور آلات کی مرمت جیسی مدد سے محروم ہوچکے ہیں، جس نے ان کی زندگی کو ایک بار پھر غیر یقینی اور اذیت ناک بنا دیا ہے۔

ڈی بی ایس کے تحت مریضوں کے دماغ میں باریک الیکٹروڈز نصب کیے جاتے ہیں جو بجلی کے معمولی جھٹکوں کے ذریعے دماغی نظام کو متحرک کرتے ہیں۔ یہ الیکٹروڈز ایک بیٹری سے جُڑے ہوتے ہیں جو سینے میں پیس میکر کی طرح نصب کی جاتی ہے۔ یہ علاج خاص طور پر ان مریضوں کے لیے کیا گیا جو روایتی دواؤں یا تھراپی سے فائدہ حاصل نہ کر سکے۔

یہ بھی پڑھیں: اسمارٹ واچز ڈپریشن کے علاج میں انقلاب برپا کر سکتی ہیں، تحقیق

شمالی کیرولینا سے تعلق رکھنے والی 51 سالہ برینڈی ایلس، جو کئی برس سے اس علاج سے فائدہ اٹھا رہی ہیں، کہتی ہیں: ’جب یہ آلہ کام کرتا ہے تو میں خود کو نارمل محسوس کرتی ہوں، لیکن جیسے ہی اس میں خرابی آتی ہے، میری ساری حالت بگڑ جاتی ہے۔ یہ میری آخری امید ہے۔‘

ڈی بی ایس سے گزرنے والے کئی مریضوں کو جیسے ہی کلینیکل ٹرائلز ختم ہوئے، نہ صرف علاج بند ہو گیا بلکہ ان کے آلات کی مرمت، بیٹری کی تبدیلی اور دیگر ضروری خدمات کے اخراجات بھی ان کے ذمے ڈال دیے گئے۔ ان میں سے اکثر خدمات کو انشورنس کمپنیاں اس لیے مسترد کر دیتی ہیں کہ یہ علاج ابھی تک ’تجرباتی‘ درجے میں شمار ہوتا ہے۔ ایک بیٹری کی تبدیلی پر اوسطاً 15 ہزار ڈالر کا خرچ آتا ہے۔

کیلیفورنیا کی رہائشی کیرول سیگر، جو 10 سال تک اس امپلانٹ سے فائدہ اٹھاتی رہیں، اُس وقت شدید پریشانی میں مبتلا ہو گئیں جب ان کے آلے کی بیٹری ختم ہوئی اور کسی ادارے نے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ بالآخر انہوں نے خیراتی ادارے، قریبی اسپتال اور اپنی بچت کے ذریعے نئی بیٹری نصب کروائی، لیکن وہ آج بھی خوفزدہ ہیں کہ اگلی بار کیا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: رنگوں کی کاریگری: صحت اور سکون کے لیے کون سا رنگ بہترین ثابت ہوتا ہے؟

ہارورڈ یونیورسٹی کے محقق ڈاکٹر گیبریئل لازارو-مونیوز نے ان مریضوں کے لیے ایک منظم نظام کی تیاری کا منصوبہ بنایا تھا، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ جن افراد نے سائنسی تحقیق کے لیے خود کو پیش کیا، انہیں بعد میں تنہا نہ چھوڑا جائے۔ اس مقصد کے لیے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) نے 2023–24 کے لیے 9 لاکھ 88 ہزار ڈالر کی فنڈنگ بھی منظور کی تھی۔

تاہم مئی 2025 میں ٹرمپ انتظامیہ کے تحت سینکڑوں سائنسی منصوبوں کی فنڈنگ اچانک منسوخ کر دی گئی، جس میں یہ منصوبہ بھی شامل تھا۔ اس فیصلے نے اُن درجنوں مریضوں کو ایک بار پھر بے سہارا کر دیا جو اب تک اس امید میں تھے کہ ان کے لیے کوئی پائیدار نظام وجود میں آئے گا۔

ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ ڈی بی ایس جیسے علاج کے لیے صرف کامیاب نتائج کافی نہیں بلکہ یہ ضروری ہے کہ مریضوں کو طویل المدتی مدد بھی فراہم کی جائے۔ اس وقت نہ تو ایف ڈی اے کی ہدایات میں ایسا کوئی ضابطہ موجود ہے، اور نہ ہی کمپنیاں یا تحقیقی ادارے مریضوں سے واضح طور پر وعدہ کرتے ہیں کہ ان کا علاج اور آلات عمر بھر فعال رکھے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا کی سب سے طاقتور برین چپ نے انسانی آزمائش میں کامیابی حاصل کر لی

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک پالیسی سازی میں اصلاحات نہیں کی جاتیں، اور کمپنیوں کو مریضوں کی دیکھ بھال کا پابند نہیں بنایا جاتا، اس وقت تک ایسے مریضوں کو ’تحقیق کے لیے استعمال کر کے فراموش کر دینا‘ ایک سنگین اخلاقی مسئلہ بنا رہے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news امریکا برینڈی ایلس دماغی مریض ڈیپ برین اسٹیمولیشن شدید ڈپریشن شمالی کیرولینا کلینیکل ٹرائلز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا برینڈی ایلس شدید ڈپریشن شمالی کیرولینا کلینیکل ٹرائلز مریضوں کو ڈی بی ایس کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

فرض شناس پولیس افسران تا حال تعیناتی سے محروم

کراچی میں جن تھانیداروں نے کرائم کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کیا انہیں یکسر نظر انداز کر دیا گیا
اسٹریٹ کرائم پرکارکردگی دکھانے پر انعامات اور تعریفی اسناد وصول کرنیوالے افسران تعیناتیوں کے منتظر

(کرائم رپورٹر؍ اسد رضا) کراچی پولیس میں بہترین کارکردگی دکھانے والے افسران میں ایس ایچ او محمد ریاض، عامر اعظم اشرف جوگی، عامر اکرام، شاہد بلوچ، فیصل جعفری، ندیم صدیقی و دیگر شامل ہیں۔تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں جرائم پر قابو پانے والے افسران جنہیں کراچی کے اعداد و ادوار حالات و واقعات کا بخوبی علم ہے متعدد نظر انداز کیے گئے افسران میں وہ ایس ایچ اوز بھی شامل ہیں جنہوں نے شہر قائد میں اسٹریٹ کرائم اور ارگنائز کرائم کے خاتمے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا اپنے متعدد کاروائیوں پر بالا افسران سے انعامات اور تعریفی اسناد وصول کیے نظر انداز کیے گئے تھانیداروں میں محمد ریاض عامر اعظم فیصل جعفری عامر اکرام اشرف جوگی و دیگر شامل کراچی شہر کے حالات کے پیش نظر ان تمام افسران کو موقع دینا چاہیے شہر قائد کا دیرینہ مسئلہ اس ایٹ کرائم ہے جو ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے کراچی پولیس گزشتہ 15 برسوں سے پکے کے ڈاکوؤں سے لڑ رہی ہے لیکن افسوسناک امر ہے وارداتوں کا گراف مزید بڑھ رہا ہے سندھ پولیس کے اعلی افسران کو اسٹریٹ کرائم کے خلاف جامع پالیسی بنانے کی اشد ضرورت ہے شہر کے باسی اسٹریٹ کرائم کے باعث عدم تحفظ کا شکار نظر اتے ہیں

متعلقہ مضامین

  • فرض شناس پولیس افسران تا حال تعیناتی سے محروم
  • کون سے مریض حج پر نہیں جاسکتے، سعودی وزارت نے وضاحت جاری کردی
  • ماحولیاتی تبدیلیوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی، ملیریا اور ڈینگی کے کیسز میں تشویشناک اضافہ
  • کراچی؛ ڈاکٹروں نے مہارت سے دل کے قریب پیوست لکڑی نکال کر نوجوان کی جان بچا لی
  • لاہورمیں جنرل اسپتال سے مریضوں کے لواحقین کی جیبوں کا صفایا کرنے والا گروہ گرفتار
  • لاہور: جنرل اسپتال سے مریضوں کے لواحقین کی جیبوں کا صفایا کرنے والا گروہ گرفتار
  • دنیا کا انوکھا علاج
  • ’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘
  • حیدرآباد:سرکاری اسپتال میں آئسولیشن وارڈ میں ڈینگی سے متاثرہ مریض زیر علاج ہیں
  • ڈینگی سے ہلاکتوں کا سلسلہ نہ رک سکا، اسپتالوں میںجگہ کم پڑ گئی