ٹرمپ کی تجارتی پابندیاں برقرار رہنے کا امکان، امریکی تجارتی نمائندے کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ ہفتے درجنوں ممالک پر عائد کی گئی تجارتی پابندیوں میں کمی کا کوئی امکان نہیں، بلکہ وہ بدستور برقرار رہیں گی۔ یہ بات امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریر نے اتوار کو نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں کہی۔
گریر کے مطابق یہ محصولات جاری مذاکرات کا حصہ ضرور ہیں، لیکن ان میں نرمی کا امکان کم ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم نامے کے تحت مختلف ممالک پر نئی درآمدی ڈیوٹیز عائد کی ہیں، جن میں کینیڈا سے آنے والی کئی اشیا پر 35 فیصد، برازیل پر 50 فیصد، بھارت پر 25 فیصد، تائیوان پر 20 فیصد اور سوئٹزرلینڈ پر 39 فیصد تک محصولات شامل ہیں۔
اگرچہ صدر ٹرمپ کے دوبارہ منصب سنبھالنے کے بعد بعض نرخوں میں جزوی کمی کی گئی ہے، جیسا کہ یورپی یونین کے ساتھ حالیہ معاہدے کے تحت محصولات میں نصف کمی کی گئی تاہم گریر نے واضح کیا کہ تازہ ترین ٹیکسوں میں ایسا کوئی امکان نہیں۔
مزید پڑھیں: بھارت روسی تیل خرید کر یوکرین جنگ میں مالی معاونت کررہا ہے، ٹرمپ کے مشیر کا الزام
گزشتہ روز ‘سی بی ایس‘ کے پروگرام ’فیس دی نیشن‘ میں نشر ہونے والے انٹرویو میں گریر نے کہا کہ یہ محصولات بیشتر معاہدوں کے تحت طے شدہ ہیں۔ بعض معاہدے عوامی ہیں، بعض نہیں، اور کچھ کا انحصار ہمارے تجارتی خسارے یا سرپلس پر ہے۔ اس لیے ان نرخوں میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ چین کے ساتھ جاری تجارتی مذاکرات بہت مثبت رہے ہیں، اور توجہ نایاب زمین سے حاصل ہونے والے مقناطیسی اور معدنی عناصر کی فراہمی پر مرکوز ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے پر کام کر رہے ہیں کہ چین سے امریکا تک مقناطیس اور متعلقہ سپلائی چین پہلے کی طرح آزادانہ طریقے سے جاری رہے۔ میں کہوں گا کہ ہم اس میں آدھے راستے تک پہنچ چکے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تجارتی پابندیاں.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تجارتی پابندیاں
پڑھیں:
امریکا ایٹمی دھماکے نہیں کر رہا، وزیر توانائی نے ٹرمپ کا دعویٰ غلط قرار دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع بیان کے بعد ایٹمی تجربات کے معاملے پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
امریکی وزیر توانائی کرس رائٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ واشنگٹن اس وقت کسی بھی قسم کے ایٹمی دھماکوں کی تیاری نہیں کر رہا۔ رائٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے جن تجربات کا حکم دیا گیا ہے، وہ صرف سسٹم ٹیسٹ ہیں، جنہیں نان کریٹیکل یعنی غیر دھماکا خیز تجربات کہا جاتا ہے اور ان کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے دیگر حصوں کی کارکردگی کو جانچنا ہے، نہ کہ کسی نئے ایٹمی دھماکے کا مظاہرہ کرنا۔
عالمی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کرس رائٹ نے واضح کیا کہ یہ تجربات دراصل ہتھیاروں کے میکانزم اور ان کے معاون سسٹمز کی جانچ کے لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ یقین دہانی کی جا سکے کہ امریکی ایٹمی ہتھیار مستقبل میں بھی محفوظ اور مؤثر رہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان تجربات کے ذریعے یہ دیکھا جائے گا کہ نئے تیار ہونے والے ہتھیار پرانے ایٹمی نظاموں سے زیادہ بہتر، محفوظ اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں یا نہیں۔
کرس رائٹ نے مزید بتایا کہ امریکا اب اپنی سائنسی ترقی اور سپر کمپیوٹنگ کی مدد سے ایسے تجربات کر سکتا ہے جن میں حقیقی دھماکے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جدید کمپیوٹر سمیولیشنز کے ذریعے بالکل درست انداز میں یہ پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے کے دوران کیا ہوگا، توانائی کیسے خارج ہوگی اور نئے ڈیزائن کس طرح مختلف نتائج پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ طریقہ ہمیں زیادہ محفوظ اور کم خطرناک تجربات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل جنوبی کوریا میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے کچھ ہی دیر پہلے ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کو 33 سال بعد دوبارہ ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکے شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان نے بین الاقوامی برادری میں تشویش پیدا کر دی تھی کیونکہ امریکا نے آخری بار 1980 کی دہائی میں زیرِ زمین ایٹمی دھماکے کیے تھے۔
جب ٹرمپ سے یہ پوچھا گیا کہ آیا ان کے احکامات میں وہ زیر زمین دھماکے بھی شامل ہیں جو سرد جنگ کے دوران عام تھے، تو انہوں نے اس کا واضح جواب دینے سے گریز کیا اور معاملہ مبہم چھوڑ دیا۔ ان کے اس غیر واضح بیان نے دنیا بھر میں قیاس آرائیاں جنم دیں کہ کیا امریکا ایک نئی ایٹمی دوڑ شروع کرنے جا رہا ہے۔
اب امریکی وزیر توانائی کے تازہ بیان نے ان خدشات کو جزوی طور پر ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال امریکا کی کوئی ایسی پالیسی نہیں جس کے تحت حقیقی ایٹمی دھماکے کیے جائیں۔ موجودہ تجربات صرف تکنیکی نوعیت کے ہیں، جن کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے نظام کی جانچ اور مستقبل کی تیاری ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ککہ صدر ٹرمپ کے بیانات اکثر سیاسی مقاصد کے لیے دیے جاتے ہیں، جن کا حقیقت سے زیادہ تعلق نہیں ہوتا، لیکن اس بار معاملہ حساس ہے، کیونکہ دنیا پہلے ہی جوہری ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی دوڑ پر فکرمند ہے۔