پلاسٹک آلودگی کے خلاف عالمی معاہدہ، جنیوا میں مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں داخل
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
دنیا کو پلاسٹک کے بڑھتے ہوئے بحران سے بچانے کے لیے جنیوا میں جاری اقوام متحدہ کے زیرِاہتمام مذاکرات حتمی مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں، جہاں 179 ممالک کے مندوبین اور سینکڑوں ماہرین ماحول، سائنس دان اور صنعتی نمائندے پلاسٹک کی آلودگی روکنے کے عالمی معاہدے پر غور کر رہے ہیں۔
یہ مجوزہ معاہدہ پلاسٹک کی تیاری، استعمال، ری سائیکلنگ اور تلفی کے تمام مراحل کا احاطہ کرے گا۔ اس کا مقصد پلاسٹک کے فضلے کو کم کرنا اور ماحول، انسانی صحت اور معیشت پر اس کے مضر اثرات کا سدباب ہے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) نے خبردار کیا ہے کہ اگر دنیا نے فوری اقدام نہ کیا تو 2060 تک پلاسٹک کا فضلہ 3 گنا بڑھ جائے گا۔ ماہرین کے مطابق صرف 2040 تک پلاسٹک کا ماحولیاتی اخراج 50 فیصد بڑھنے کا امکان ہے، جبکہ آلودگی کے نقصانات کی لاگت 281 ٹریلن ڈالر سے تجاوز کرسکتی ہے۔
مزید پڑھیں: عالمی یوم ماحولیات: پلاسٹک آلودگی سے زمین، سمندر اور انسان سب خطرے میں
اب تک 5 مذاکراتی اجلاس ہو چکے ہیں۔ پہلا 2022 میں یوروگوئے، پھر فرانس، کینیا، کینیڈا اور آخری جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں۔ موجودہ اجلاس 5 سے 14 اگست تک جاری رہے گا، جس میں ایک 22 صفحات پر مشتمل مسودے پر سطر بہ سطر بات چیت ہو رہی ہے۔ اس میں پلاسٹک کی پیداوار سے لے کر اس کے متبادل تک تمام پہلو شامل ہیں۔
صرف ری سائیکلنگ کافی نہیںUNEP کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن کا کہنا ہے کہ صرف ری سائیکلنگ سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، بلکہ دنیا کو پلاسٹک کی گردشی معیشت کی طرف جانا ہوگا، جس میں پلاسٹک کی پیداوار اور استعمال دونوں محدود کیے جائیں۔
انسانی صحت کو خطرہعالمی طبی جریدے دی لینسٹ نے خبردار کیا ہے کہ پلاسٹک میں شامل کیمیکلز زندگی کے ہر مرحلے پر انسان کی صحت کو متاثر کرتے ہیں، خصوصاً نومولود بچوں کے لیے یہ خطرات سنگین ہوتے ہیں۔ سالانہ طور پر پلاسٹک سے ہونے والے طبی نقصانات کی معاشی قیمت 1.
مزید پڑھیں: ماحولیات کا عالمی دن: لاکھوں لوگ پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے کے لیے کوشاں
مزاحمت اور مفاداتماحولیاتی ماہرین نے اس معاہدے کو ’پیرس معاہدے‘ جتنا ہی اہم قرار دیا ہے، تاہم بعض تیل پیدا کرنے والے ممالک کی طرف سے دباؤ بھی سامنے آ رہا ہے، کیونکہ پلاسٹک کی تیاری میں خام تیل اور قدرتی گیس بنیادی جزو کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مستقبل کا فیصلہ کن لمحہ’آئی این سی‘ کی سربراہ جیوتی ماتھر فلپ کے مطابق 2024 میں دنیا نے 500 ملین ٹن پلاسٹک استعمال کیا، جس میں سے 399 ملین ٹن فضلہ اب بھی ماحول کا حصہ ہے۔ جنیوا میں ہونے والے یہ مذاکرات دنیا کو اس تباہ کن راستے سے ہٹانے کی ایک بڑی کوشش سمجھے جا رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
UNEP اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام پلاسٹک آلودگی کے خلاف عالمی معاہدہ پلاسٹک آلودگی جنیواذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام پلاسٹک ا لودگی جنیوا پلاسٹک کی آلودگی کے کے لیے
پڑھیں:
چین اور امریکہ کے عالمی نظریات کا تہذیبی فرق اور انسانیت کا مستقبل
چین اور امریکہ کے عالمی نظریات کا تہذیبی فرق اور انسانیت کا مستقبل WhatsAppFacebookTwitter 0 4 August, 2025 سب نیوز
بیجنگ : “اعلی ترین نیکی پانی کی مانند ہے، جو تمام چیزوں کو بغیر کسی مقابلے کے فائدہ پہنچاتی ہے ” ۔ دو ہزار پانچ سو سال پہلے لاؤزے کا یہ حکیمانہ قول آج بھی چین کے عالمی نظریہ اور سفارتی اصولوں کی بنیاد پر کندہ ہے۔ اس کے برعکس امریکہ کا عالمی نظریہ ہے جو “چوٹی پر شہر” کی برتری کی نفسیات اور پوری دنیا کے مفادات پر قبضے کی روایت سے عبارت ہے۔ ان دو واضح تہذیبی اختلافات کا اکیسیوں صدی کے عالمی منظر نامے پر گہرا اثر ہے۔ پانی، جو چینی ثقافت میں ایک علامتی عنصر ہے، اور یہ” بغیر کسی مقابلے کے سب کو فائدہ پہنچانے ” کی خصوصیت کی وجہ سے ایک مثالی سماجی حکمرانی کی علامت بن گیا ہے۔ یہ چینی تہذیب کے جامع عالمی نظریے کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ منگ خاندان کے دور میں چنگ حہ کے سات سمندری سفر، جن میں وہ دنیا کے سب سے طاقتور بحری بیڑے کی قیادت کر رہے تھے،
مگر انہوں نے ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کیا، نہ ہی کوئی فوجی اڈہ قائم کیا، بلکہ “زیادہ دینے اور کم لینے” کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ٹیکنالوجی اور تہذیب کو پھیلایا، اس عالمی نظریے کا زندہ اظہار ہے۔ اس کے برعکس آدھی صدی بعد شروع ہونے والے مغربی تہذیب کے سمندری دور میں نوآبادیات، غلامی اور وسائل کی لوٹ مار شامل تھی۔ ان دو رویوں کے پیچھے تہذیبی جینز کا بنیادی فرق ہے ۔ ایک طرف “ہر تہذیب کا احترام” کی متوازن رفاقت ہے تو دوسری طرف “زیرو سم گیم” کا جنگلی قانون۔ چنگ حہ کے سمندری سفر سے لے کر موجودہ دور کے “بیلٹ اینڈ روڈ” انیشی ایٹو کے “مشترکہ مشاورت، مشترکہ تعمیر اور اشتراک” کے اصول تک، چین نے کبھی بھی اپنی ترقی کو دوسرے ممالک کے استحصال پر قائم نہیں کیا۔ “پوری دنیا کی بھلائی” کا یہ جذبہ ،انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کے تصور کی صورت میں عروج پر پہنچ گیا ہے ۔
یہ تصور خصوصی گروہوں کے اتحاد کی بجائے تہذیبی مکالمے کی وکالت، تہذیبوں کی درجہ بندی کے بجائے کثیر وجودیت کے فروغ ، اختلافات میں مشترک چیزوں کی تلاش اور باہمی بقا میں مشترکہ فوائد کے حصول کا احاطہ کرتا ہے۔اس کے برعکس امریکہ کی عالمی حکمت عملی ہمیشہ ” نمبر ون ” کے جنون میں دکھائی دی ہے ۔سرد جنگ کے دور کے “ٹرومین نظریے” سے لے کر نیٹو اتحاد اور موجودہ “انڈو پیسیفک اسٹریٹیجی” تک، امریکہ نے ہمیشہ دنیا کو دوست اور دشمن کے کیمپوں میں تقسیم کیا ہے، نظریاتی پیمانے پر بین الاقوامی معاشرے کو بانٹا ہے؛ ” نمبر ون ” رہنے کے لیے “امریکہ فرسٹ” اور یکطرفہ پسندی کو کثیر الجہتی تعاون پر ترجیح دی ہے۔ بالادستی کی یہ منطق ظاہری طور پر قلیل مدتی فائدہ دکھاتی ہے، لیکن درحقیقت اس سے بین الاقوامی معاشرے کا اعتماد مسلسل کھو رہا ہے، اور آخر کار یہ منطق “ہر طرف دشمن پیدا کرنے” کے داخلی بحران میں دھکیل دیتی ہے ۔ ایک گہرا فرق “طاقت اور کمزوری” کے فلسفیانہ ادراک میں بھی پوشیدہ ہے۔ چینی ثقافت اس بات کی وکالت کرتی ہے کہ ” حقیقی طاقتور لوگ عاجزی اختیار کرتے ہیں، اور سچے اور عقلمند سادگی سے رہتے ہیں ” ۔ اسی لیے چین نے اپنی ترقی کے دوران “کبھی بالادستی نہیں” پر زور دیا ہے، “بیلٹ اینڈ روڈ” انیشی ایٹو کے تحت تعاون کے منصوبوں کے ذریعے ترقی کے فوائد کو زیادہ ممالک تک پہنچایا ہے، اور ” سادگی سے رہنے” کی حکمت عملی سے وسیع پیمانے پر قبولیت حاصل کی ہے۔ جبکہ امریکہ “طاقت ہی حق ہے” پر یقین رکھتا ہے، اور ” نمبر ون ” کی سوچ کو دوسرے ممالک کی ترقی کے حقوق کو دبانے میں بدل دیتا ہے۔ انسانی تہذیب ایک اہم موڑ پر کھڑی ہے۔ جب موسمیاتی تبدیلیاں ماحولیاتی نظام کو خطرے میں ڈال رہی ہیں، جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا سایہ دنیا پر منڈلا رہا ہے، اور مصنوعی ذہانت اخلاقی چیلنجز لے کر آ رہی ہے، تو کوئی بھی ملک تن تنہا محفوظ نہیں رہ سکتا۔ چینی تہذیب کا یہ حکیمانہ اصول کہ “پانی بغیر کسی مقابلے کے سب کو فائدہ پہنچاتا ہے” درحقیقت عالمی حکمرانی کے بحران کو حل کرنے کی کنجی فراہم کرتا ہے اور یہ سوچ رکھتا ہے کہ حقیقی طاقت دوسروں کو دبانے میں نہیں بلکہ انہیں مدد دینے میں ہے، حقیقی دولت وسائل پر قبضہ کرنے میں نہیں بلکہ خوشحالی کو بانٹنے میں ہے۔
جبکہ امریکہ کا ” نمبر ون “پر رہنے کا اضطراب نہ صرف خود اسے لامتناہی داخلی کشمکش میں مبتلا کر رہا ہے بلکہ پوری دنیا کومقابلے کے گرداب میں دھکیل رہا ہے۔ انسانیت کا مستقبل آخرکار تعاون میں ہے نہ کہ مقابلے میں۔یہ مستقبل باہمی بقا میں ہے نہ کہ تنہا بالادستی میں۔ انسانی تہذیب کی ترقی کی طویل روداد میں، وہ سلطنتیں جو “مقابلے” کے ذریعے غلبہ حاصل کرنا چاہتی تھیں وقت کی لہروں میں بہہ گئیں، جبکہ پانی کی طرح جامع اور پرورش کرنے والی تہذیبیں ہی دیرپا ثابت ہوئی ہیں۔ چین کا عالمی نظریہ کسی کو تبدیل کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ دنیا کو ایک نیا امکان فراہم کرنے کے لیے ہے ۔اس نظریے میں باہمی احترام میں مشترکہ ترقی اور تہذیبی مکالمے میں تنازعات کے بحران کو حل کر نے جیسی سوچ ہے ۔ایسے وقت میں جب امریکہ ” نمبر ون “پر رہنے کی فکر میں گھرا ہوا ہے، چین نے “خاموشی سے ہر شے کو سیراب کرنے ” کی حکمت عملی سے انسانی ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے راستے پر کثیر اتفاق رائے کو اکٹھا کر لیا ہے۔ ان دو عالمی نظریات کا مقابلہ درحقیقت تہذیبی فلسفہ کا انتخاب ہے: کیا ہم “طاقتور کا حق” کے پرانے دور میں واپس جائیں گے یا ” ہر تہذیب کا احترام ” کے نئے مستقبل کی طرف بڑھیں گے؟ جواب تاریخ کے دھارے میں بتدریج واضح ہوتا جا رہا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرشی جن پھنگ کی جانب سے ” 15ویں پانچ سالہ منصوبے ” کی تشکیل کے لئے عوامی تجاویز کی شمولیت پر اہم ہدایات شی جن پھنگ کی جانب سے ” 15ویں پانچ سالہ منصوبے ” کی تشکیل کے لئے عوامی تجاویز کی شمولیت پر اہم ہدایات ملک بھر کے بجلی صارفین کے لیے خوشخبری،فی یونٹ کتنے روپے کمی کا امکان ؟ چینی صدر کا اصلاحات و ترقی کو فروغ دینے کا مسلسل عزم “سرسبز پہاڑ اور صاف پانی انمول اثاثہ ہیں” کے تصور کی عالمی اہمیت پر خصوصی سمپوزیم کا انعقاد چین۔یورپ ریلوے سروس کے مرکزی کوریڈور سے روانہ ہونے والی مال بردار ٹرینوں کی تعداد 20 ہزار سے تجاوز کر گئی ایف بی آر کا سیلز ٹیکس میں بے ضابطگیوں پر ایکشن، 11 ہزار سے زائد کمپنیوں کو نوٹسز جاریCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم