چین اور امریکہ کے عالمی نظریات کا تہذیبی فرق اور انسانیت کا مستقبل

 

بیجنگ (ممتاز نیوز) “اعلی ترین نیکی پانی کی مانند ہے، جو تمام چیزوں کو بغیر کسی مقابلے کے فائدہ پہنچاتی ہے ” ۔ دو ہزار پانچ سو سال پہلے لاؤزے کا یہ حکیمانہ قول آج بھی چین کے عالمی نظریہ اور سفارتی اصولوں کی بنیاد پر کندہ ہے۔ اس کے برعکس امریکہ کا عالمی نظریہ ہے جو “چوٹی پر شہر” کی برتری کی نفسیات اور پوری دنیا کے مفادات پر قبضے کی روایت سے عبارت ہے۔ ان دو واضح تہذیبی اختلافات کا اکیسیوں صدی کے عالمی منظر نامے پر گہرا اثر ہے۔
پانی، جو چینی ثقافت میں ایک علامتی عنصر ہے، اور یہ” بغیر کسی مقابلے کے سب کو فائدہ پہنچانے ” کی خصوصیت کی وجہ سے ایک مثالی سماجی حکمرانی کی علامت بن گیا ہے۔ یہ چینی تہذیب کے جامع عالمی نظریے کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ منگ خاندان کے دور میں چنگ حہ کے سات سمندری سفر، جن میں وہ دنیا کے سب سے طاقتور بحری بیڑے کی قیادت کر رہے تھے، مگر انہوں نے ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کیا، نہ ہی کوئی فوجی اڈہ قائم کیا، بلکہ “زیادہ دینے اور کم لینے” کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ٹیکنالوجی اور تہذیب کو پھیلایا، اس عالمی نظریے کا زندہ اظہار ہے۔ اس کے برعکس آدھی صدی بعد شروع ہونے والے مغربی تہذیب کے سمندری دور میں نوآبادیات، غلامی اور وسائل کی لوٹ مار شامل تھی۔ ان دو رویوں کے پیچھے تہذیبی جینز کا بنیادی فرق ہے ۔ ایک طرف “ہر تہذیب کا احترام” کی متوازن رفاقت ہے تو دوسری طرف “زیرو سم گیم” کا جنگلی قانون۔
چنگ حہ کے سمندری سفر سے لے کر موجودہ دور کے “بیلٹ اینڈ روڈ” انیشی ایٹو کے “مشترکہ مشاورت، مشترکہ تعمیر اور اشتراک” کے اصول تک، چین نے کبھی بھی اپنی ترقی کو دوسرے ممالک کے استحصال پر قائم نہیں کیا۔ “پوری دنیا کی بھلائی” کا یہ جذبہ ،انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کے تصور کی صورت میں عروج پر پہنچ گیا ہے ۔یہ تصور خصوصی گروہوں کے اتحاد کی بجائے تہذیبی مکالمے کی وکالت، تہذیبوں کی درجہ بندی کے بجائے کثیر وجودیت کے فروغ ، اختلافات میں مشترک چیزوں کی تلاش اور باہمی بقا میں مشترکہ فوائد کے حصول کا احاطہ کرتا ہے۔
اس کے برعکس امریکہ کی عالمی حکمت عملی ہمیشہ ” نمبر ون ” کے جنون میں دکھائی دی ہے ۔سرد جنگ کے دور کے “ٹرومین نظریے” سے لے کر نیٹو اتحاد اور موجودہ “انڈو پیسیفک اسٹریٹیجی” تک، امریکہ نے ہمیشہ دنیا کو دوست اور دشمن کے کیمپوں میں تقسیم کیا ہے، نظریاتی پیمانے پر بین الاقوامی معاشرے کو بانٹا ہے؛ ” نمبر ون ” رہنے کے لیے “امریکہ فرسٹ” اور یکطرفہ پسندی کو کثیر الجہتی تعاون پر ترجیح دی ہے۔ بالادستی کی یہ منطق ظاہری طور پر قلیل مدتی فائدہ دکھاتی ہے، لیکن درحقیقت اس سے بین الاقوامی معاشرے کا اعتماد مسلسل کھو رہا ہے، اور آخر کار یہ منطق “ہر طرف دشمن پیدا کرنے” کے داخلی بحران میں دھکیل دیتی ہے ۔
ایک گہرا فرق “طاقت اور کمزوری” کے فلسفیانہ ادراک میں بھی پوشیدہ ہے۔ چینی ثقافت اس بات کی وکالت کرتی ہے کہ ” حقیقی طاقتور لوگ عاجزی اختیار کرتے ہیں، اور سچے اور عقلمند سادگی سے رہتے ہیں ” ۔ اسی لیے چین نے اپنی ترقی کے دوران “کبھی بالادستی نہیں” پر زور دیا ہے، “بیلٹ اینڈ روڈ” انیشی ایٹو کے تحت تعاون کے منصوبوں کے ذریعے ترقی کے فوائد کو زیادہ ممالک تک پہنچایا ہے، اور ” سادگی سے رہنے” کی حکمت عملی سے وسیع پیمانے پر قبولیت حاصل کی ہے۔ جبکہ امریکہ “طاقت ہی حق ہے” پر یقین رکھتا ہے، اور ” نمبر ون ” کی سوچ کو دوسرے ممالک کی ترقی کے حقوق کو دبانے میں بدل دیتا ہے۔
انسانی تہذیب ایک اہم موڑ پر کھڑی ہے۔ جب موسمیاتی تبدیلیاں ماحولیاتی نظام کو خطرے میں ڈال رہی ہیں، جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا سایہ دنیا پر منڈلا رہا ہے، اور مصنوعی ذہانت اخلاقی چیلنجز لے کر آ رہی ہے، تو کوئی بھی ملک تن تنہا محفوظ نہیں رہ سکتا۔ چینی تہذیب کا یہ حکیمانہ اصول کہ “پانی بغیر کسی مقابلے کے سب کو فائدہ پہنچاتا ہے” درحقیقت عالمی حکمرانی کے بحران کو حل کرنے کی کنجی فراہم کرتا ہے اور یہ سوچ رکھتا ہے کہ حقیقی طاقت دوسروں کو دبانے میں نہیں بلکہ انہیں مدد دینے میں ہے، حقیقی دولت وسائل پر قبضہ کرنے میں نہیں بلکہ خوشحالی کو بانٹنے میں ہے۔ جبکہ امریکہ کا ” نمبر ون “پر رہنے کا اضطراب نہ صرف خود اسے لامتناہی داخلی کشمکش میں مبتلا کر رہا ہے بلکہ پوری دنیا کومقابلے کے گرداب میں دھکیل رہا ہے۔
انسانیت کا مستقبل آخرکار تعاون میں ہے نہ کہ مقابلے میں۔یہ مستقبل باہمی بقا میں ہے نہ کہ تنہا بالادستی میں۔ انسانی تہذیب کی ترقی کی طویل روداد میں، وہ سلطنتیں جو “مقابلے” کے ذریعے غلبہ حاصل کرنا چاہتی تھیں وقت کی لہروں میں بہہ گئیں، جبکہ پانی کی طرح جامع اور پرورش کرنے والی تہذیبیں ہی دیرپا ثابت ہوئی ہیں۔ چین کا عالمی نظریہ کسی کو تبدیل کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ دنیا کو ایک نیا امکان فراہم کرنے کے لیے ہے ۔اس نظریے میں باہمی احترام میں مشترکہ ترقی اور تہذیبی مکالمے میں تنازعات کے بحران کو حل کر نے جیسی سوچ ہے ۔ایسے وقت میں جب امریکہ ” نمبر ون “پر رہنے کی فکر میں گھرا ہوا ہے، چین نے “خاموشی سے ہر شے کو سیراب کرنے ” کی حکمت عملی سے انسانی ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے راستے پر کثیر اتفاق رائے کو اکٹھا کر لیا ہے۔ ان دو عالمی نظریات کا مقابلہ درحقیقت تہذیبی فلسفہ کا انتخاب ہے: کیا ہم “طاقتور کا حق” کے پرانے دور میں واپس جائیں گے یا ” ہر تہذیب کا احترام ” کے نئے مستقبل کی طرف بڑھیں گے؟ جواب تاریخ کے دھارے میں بتدریج واضح ہوتا جا رہا ہے۔

Post Views: 8.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: مقابلے کے کے عالمی رہا ہے میں ہے

پڑھیں:

پاکستان کھجور پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا

پاکستان کھجور پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اور ملک کے چاروں صوبوں میں کھجور کے وسیع باغات موجود ہیں۔پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کی رپورٹ کے مطابق کھجور کی کاشت اور پیداوار کے حوالے سے ایک تحقیقی رپورٹ میں تحقیق کار نے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ 5 لاکھ ٹن کھجور پیدا ہوتی ہے۔ڈیٹ پام ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین اثمار نے بتایا کہ پاکستان دنیا میں کھجور پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے، پاکستان میں کھجور کا کل پیداواری رقبہ تقریباً 82 ہزار ہیکٹر ہے، ملک میں سب سے زیادہ کھجور صوبہ سندھ میں پیدا ہوتی ہے جہاں اس کی پیداوار 2 لاکھ 52 ہزار 300 ٹن ہے۔بلوچستان اس سلسلہ میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں ایک لاکھ 92 ہزار 800 ٹن کھجور کی پیداہوتی ہے، اسی طرح صوبہ پنجاب میں 42 ہزار 600 ٹن کھجور پیدا ہوتی ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں کھجور کی پیداوار 8 ہزار 900 ٹن ہے۔ماہرین اثمارنے مزید بتایا کہ پاکستان میں 150سے زائد اقسام کی کھجور پائی جاتی ہے جبکہ صرف مکران ڈویژن میں 130سے زائد کھجور کی ورائٹیز ہیں، پاکستان میں کھجور کی شاندار پیداوار کے باوجود اس کی برآمدات بہت کم ہیں، اس وقت کھجور مختلف ممالک کی 23 مارکیٹوں میں برآمد کی جا رہی ہے جن میں بھارت، امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی اور نیپال شامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت پاکستانی کھجور کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے، اگر کھجور کی برآمدات میں اضافہ کر لیا جائے تو اس سے نہ صرف نئی بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی بڑھا کر قیمتی زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے بلکہ برآمدات بڑھنے سے ملک میں معاشی استحکام بھی پیدا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • املوک درہ اسٹوپا: بدھ تہذیب کی اہم یادگار
  • امریکہ ،بھارت تجارتی جنگ میں شدت، ٹرمپ کی مودی کو مزید ٹیرف لگانے کی دھمکی
  • وادی کشمیر سے دفعہ 370 کی تنسیخ کے چھ سال مکمل، عوام میں اضطراب
  • پاکستان کھجور پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا
  • ترقی عمارتوں سے نہیں، خدمات سے ناپی جائے گی، وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی
  • عالمی سفارتکار اور سرمایہ کار براہ راست فیلڈ مارشل سے رابطے میں ہیں؛ دی اکانومسٹ کا آرٹیکل
  • پاک بھارت جنگ میں کامیابی اور بہترین سفارتکاری سے پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر!!
  • آرٹیفشل انٹیلی جنس میں ترقی،دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
  • امریکہ اور یورپ جانے کے منتظر افغان، غیر یقینی کی وجہ سے پریشان