املوک درہ اسٹوپا: بدھ تہذیب کی اہم یادگار
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
وادی سوات دریاؤں، جھیلوں، جھرنوں اور برف پوش چوٹیوں سے مالا مال، بے پناہ قدرتی خوب صورتی میں اپنی مثال آپ ہے، پانچ ہزارسالہ قدیم تہذیب وآثارکی حامل یہ وادی مختلف مذاہب اورتہذیبوں کی آماجگاہ بھی ہے۔
تبتّی ادب کے مطابق دوسرے بدھاکا جنم اسی علاقے میں ہوا تھا اور یہیں سے بدھ مت، مشرقی ایشیائی ممالک سے لے کر جاپان تک پہنچا،گندھارا تہذیب کے آثار بھی یہیں ملتے ہیں جس کا مرکز ادھیانہ سلطنت تھی۔گندھاراتہذیب مختلف تہذیبوں جیسے یونانی، ساکا پارتھی اورکشن تہذیبوں کا نچوڑ تھی، جو بعدازاں یہاں سے نمو پا کر ایک طرف تو روس کے دریائے آمو تک جا پہنچی، تودوسری طرف خطہ پوٹھوہارکوچْھونے لگی اوریہ اْس وقت کی بات ہے، جب پشاور ’’پرش پْورہ‘‘ اورچارسدہ ’’پشکلاوتی‘‘ کہلاتا تھا۔
تاریخ کی کتابوں میں رقم ہے کہ ’’سوات‘‘ گندھارا تہذیب کے انتہائی اہم مراکز میں سے ایک تھا، نیز یہ شواہد بھی ملے ہیں کہ سوات کی گود میں گندھارا تہذیب کے علاوہ بھی دیگر کئی تہذیبوں نے پرورش پائی۔ ہندووںکی مقدس شخصیت مہاراجہ رام چندرجی نے سوات ہی کے ایلم پہاڑ میں بن باس لے کر اسے ہندومت کے پیروکاروں کے لئے مقدس بنایا۔کہاجاتا ہے کہ ایلم پہاڑی کی عظمت اورتقدس کی روایات زرتشتیوں، پارسیوں اوریونانیوں کی کتب میں بھی ملتی ہیں۔
ہندووں کی مقدس کتاب رگ وید میں یہاں بہنے والے دریا کو ’’سواستو‘‘کہا گیا ہے۔ یہ پارس کے بادشاہ دارا اول کاایک صوبہ بھی رہ چکا ہے،جسے 327 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے فتح کیا، 305 قبل مسیح میں یہ ہندوستان کے ماوریان خاندان کے قبضہ میں بھی آیا۔ لگ بھگ پچپن سال بعد پارتھیا قوم نے مذکورہ علاقہ پر قبضہ جما لیا۔ پہلی صدی عیسوی میں گندھاراتہذیب کشاناکے زیر نگیں آئی جو وسطی ایشیاء کے خانہ بدوش تھے،ساتویں صدی عیسوی میں سوات کے علاقہ سے ’’پدما سمبھاوا‘‘ (بدھا ثانی) تبت کے لیے نکل پڑے تھے۔ ان ادوار میں مشرقی ایشیائی بدھ مت کا اصل ذریعہ ہوتے ہوئے سوات کا علاقہ ایک مقدس زمین تصورکیا جاتا تھا اوراس کی زیارت کے لیے تبت، چین اوردوسری جگہوں سے زائرین باقاعدہ طور پرحاضری دینے آیاکرتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ اشوکا نے چوراسی ہزار اسٹوپے تعمیرکروائے لیکن وادی سوات میں ان کی بھر مار دیکھ کر لگتا ہے کہ کم ازکم آدھے تو اْس نے اِدھرہی تعمیرکروا دیئے ہوں گے، یاد رہے وادی سوات ہی کے ایک علاقے جہان آباد میں دنیا کاسب سے بڑا بدھ مت کا مجسّمہ بھی ہے، جس کی اونچائی چھ میٹر ہے،
سوات کوقدرت نے بلاشبہ فطری حسن کے ساتھ ساتھ تاریخ کے حوالہ سے بھی بڑی فیاضی کے ساتھ نوازا ہے۔ ایسا ہی ایک مقام ’’املوک درہ سٹوپا‘‘بھی ہے،جہاں فطری حسن اور تاریخ بانہوں میں بانہیں ڈالے دعوتِ نظارہ دیتے ہیں۔ ضلع سوات کی تحصیل بریکوٹ کے مقام پرایک سڑک ضلع بونیرکی طرف مڑتی ہے۔ وہاں بائیں جانب ایک اورسڑک ایلم پہاڑکی طرف مڑتی ہے جو پکی ہے اوراس پر ہر قسم کی گاڑی سٹوپا تک باآسانی رسائی دلاتی ہے۔
ایلم کے قدموں میں چاروں اطراف سے لہلہاتے کھیتوں،پھلوں کے باغات اورچھوٹی بڑی پہاڑیوں میں بڑی شان سے کھڑاتیسری صدی عیسوی کاشاندار ’’املوک درہ سٹوپا‘‘ دور سے دکھائی دیتا ہے۔ علاقہ کے بڑے بوڑھوں کے بقول کسی زمانے میں املوک درہ میں بڑی مقدار میں املوک جسے اردومیں جاپانی پھل(پرسی مون) کہتے ہیں،کے باغات ہواکرتے تھے،اس لیے اس پورے درے کانام مذکورہ پھل ’’املوک‘‘ کی نسبت سے ’’املوک درہ‘‘ پڑگیا۔ لیکن وقت کے ساتھ آڑوکی مانگ بڑھی اوررفتہ رفتہ املوک یہاں سے نایاب ہوتا گیا۔ آج اگر یہاں املوک کے گنے چنے درخت نظر آئے توغنیمت ہوگی۔ اس طرح دیو قامت ایلم پہاڑ کی اپنی ایک تاریخ ہے، ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق رام چندر جی نے کوہِ ایلم کی چوٹی’’جوگیا نو سر‘‘ میں اپنی محبوب بیوی سیتا کے ساتھ پورے تین سال مراقبے میں گزارے۔ اس لیے شورش سے پہلے اس واقعے کی یاد میں ہر سال منعقد ہونے والے میلے کے لیے دوردرازکے علاقوں سے سکھ اور ہندو یاتری سوات بڑی تعداد میں آیاکرتے تھے، بونیر سے تعلق رکھنے والے آنجہانی سابق صوبائی وزیر اقلیتی امور سورن سنگھ اس میلے کے منتظمین میں شامل تھے۔ سطحِ سمندر سے ایلم کی بلندی 9200 فٹ ہے، اس کی چوٹی پر واقع جوگیانو سر(جوگیوں کی چوٹی) یا یوگس پیک، وہ مقام ہے جہاں رام چندر جی اورسیتامیا نے بن باس لیا تھا اورپورے تین سال گزارے تھے۔
املوک درہ اسٹوپا مکمل طور پرایک سیاحتی مقام میں شان سے کھڑا ہے،سٹوپا کے اردگرد لہلہاتے کھیت،کھیتوں میں خودرَوگلِ لالہ اوردیگرجنگلی پھولوں کا من بھاتا نظارہ، قبلہ رو دیوقامت پہاڑ ایلم سے نکلتی ہوئی میٹھے پانی کی بل کھاتی ندی اورروایتی گاؤں کاماحول رہی سہی کسر پوری کردیتا ہے۔ اسٹوپا پر پہلی نظر پڑتے ہی دل باغ باغ ہوجاتاہے۔ املوک درہ میں داخل ہوتے وقت سٹوپا کی پشت پرنظر پڑتی ہے تو اولین گمان یہی گزرتا ہے کہ اسٹوپا محفوظ حالت میں موجود ہے مگرقریب جاکر معلوم ہوجاتا ہے کہ لُٹیروں نے اسے کس بری طرح سے نقصان پہنچایا ہے۔
سوات میں ایک عرصہ سے آثار قدیمہ پرکام کرنے والے محقق فضل خالق اپنی کتاب ’’دی اڈی یاناکنگ ڈم، دی فورگاٹن ہولی لینڈآف سوات‘‘ میں لکھتے ہیںکہ تیسری صدی عیسوی سے تعلق رکھنے والے بدھ مت دورکے اس عظیم اسٹوپا کو پہلی دفعہ سال 1926ء میں سر اْورل سٹائن نے دریافت کیا تھا۔ اس کے بعد 1960ء کی دہائی میں اطالوی ماہرِآثارِقدیمہ ڈاکٹرفسینا نے مطالعہ کیا اور پھر اٹلی حکومت کی مدد سے آرکیالوجی کلچر ٹورازم پروجیکٹ کے تحت املوک درہ سٹوپا کی سائنسی بنیادوں پرکھدائی کی گئی، نتیجتاً سٹوپے کے متصل بدھ مت دورکا ایک کمپلیکس دریافت ہوا، جس میں سیڑھیاں بڑی نفاست کے ساتھ نیچے اْترتی ہیں۔
اسی کتاب میں مصنف آگے رقم طراز ہیں کہ ’’ڈاکٹر لوکا الیوری کے مطابق املوک درہ سٹوپا گندھاراکے علاقہ میں اچھی حالت میں موجود ہے، یہ سٹوپا تیسری صدی عیسوی سے11 ویں صدی عیسوی تک کارآمد رہ چکا ہے، تاحال سوات میں 90 فی صد بدھ مت کے مقامات تاراج ہوچکے ہیں‘‘۔ دوسری طرف اسٹوپا کے احاطہ میں لگے بورڈ پر اسٹوپاکا دور دوسری صدی عیسوی تا گیارہویں صدی عیسوی رقم کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر لوکا ستمبر1987ء سے آثارقدیمہ کے حوالہ سے کھدائیوں اوران پر تحقیق کے حوالہ سے سرگرم رہے ہیں،ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا ہے۔ ڈاکٹرلوکا نے سب سے پہلے یہ دعویٰ کیا تھا کہ قدیم ادھیانہ سلطنت ’’سوات‘‘ ہی تھا جو بدھ ازم کا مرکز تھا۔ ڈاکٹر لوکا کو دورِحاضر میں ادھیانہ (قدیم سوات) کے نمایاں اساتذہ میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ فضل خالق کے بقول ڈاکٹر لوکا دعویٰ کرتے ہیں کہ چینی زائر ’’ہیون سانگ‘‘ جوساتویں صدی عیسوی میں سوات کے علاقے سے گزر چکے ہیں، بھی املوک درہ سٹوپا کا دورہ کرچکے ہیں،مگر بدقسمتی سے ان کے لکھے گئے سفرنامے کا ترجمہ کماحقہ نہیں کیاگیا۔ ڈاکٹرلوکا سوات کے آثار قدیمہ کی درجہ بندی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ ورثہ عظیم، وسیع اورحیرت انگیز ہے،’’اس کی درجہ بندی مشکل ہے لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ دنیا کے پچاس اہم ترین آثارقدیمہ میں سے ایک ہے، قدیم کتب اورچینی ریکارڈ ان میں سے چند کی صاف وضاحت کرتے ہیں‘‘۔ اس حوالے سے ماہرآثارقدیمہ پروفیسر شاہ نذرخان کہتے ہیںکہ ’’اودھیانہ کوگندھارا کا حصہ مانا جاتا ہے، بعض محققین کی رائے میں اودھیانہ ایک علیحدہ سلطنت تھی، اس وادی کے جنت نظیر ہونے کے علاوہ اس کے بدھ مت کے قدیم آثار بڑی اہمیت کے حامل ہیں، اسٹوپے، خانقاہیں، رہائشی عمارات، قلعے اور بڑی تعداد میں چٹانیں وادی میں جا بجا بکھری پڑی ہیں۔‘‘
اس کے علاوہ شموزو اسٹوپا وادی سوات میںآج بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے مگر یہاں کے عوام کے ساتھ ساتھ حکومت وقت کو بھی ان کی اہمیت کا سرے سے اندازہ ہی نہیں جس کی وجہ سے یہ تیزی کے ساتھ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ ماہرین آثارِ قدیمہ کے مطابق سوات میں اب تک دس فی صدآثارکو بھی دریافت نہیں کیاجا سکا۔ سوات میں مختلف جگہوں سے نکلنے والے قیمتی آثارجن میں بدھاکے مجسمے،سکے، اس وقت کے برتن، زیورات اوردیگراشیاء شامل ہیں،کو پہلے پہل سیدو شریف عجائب گھرمیں رکھاجاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہوتا اوریہ سلسلہ کئی سال سے رکا ہوا ہے۔ اسی طرح سنگدرہ اسٹوپا، موضع جہان آباد منگلور سوات میں چٹان میں کندہ کیا ہوا دنیا کا دوسرا بڑامجسمہ ہے جسے طالبان دورمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ گیارہ اور 23 ستمبردوہزار سات کو اس کے سرکوبارودی مواد سے اڑانے کی کوشش کی گئی جسے بعد میں اٹالین مشن نے مزید خراب ہونے سے بچانے کی خاطر کوششیں کیں۔ اس کے علاوہ جہاں بھی سوات کے طول وعرض میں بدھ مت دورکے آثاربکھرے پڑے ہیں، ان میں چند ایک اٹالین مشن کی نگرانی میں ہیں اورباقی کوحالات کی ستم ظریفی کا سامنا ہے، زیادہ تر میں اسمگلروں کی غیرقانونی کھدائیاں جاری ہیں، جب کہ باقی ماندہ کوبچے، بوڑھے اورجوان ’’ثواب‘‘ حاصل کرنے کی غرض سے پتھر مارتے ہیں اور اس پر گندگی ڈالتے ہیں۔
جہان آباد میں بدھاکے مجسمہ کے حوالہ سے سوات کے محقق فضل خالق جنہوں نے سوات کے آثار قدیمہ پر اپنے ایک تحقیقی مقالہ کو کتابی شکل دی ہے،اس میں لکھتے ہیں کہ سوات کے آثار قدیمہ کونہ صرف عوام سے خطرہ ہے بلکہ ان کی زبوں حالی اورانہیں اس حالت تک پہنچانے میں محکمہ آثار قدیمہ برابرکا شریک ہے۔ فضل خالق کایہ بھی کہنا ہے کہ’’ہماری بدقسمتی دیکھئے کہ یہاں پردو ڈھائی سو اسمگلر گروپ ان آثارکو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی خاطر ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں، ستم بالائے ستم یہ کہ ان کے ساتھ حکومتی اور عوامی دونوں طرح کی مدد بھی حاصل ہے جب تک حکومتی اہل کار اس عمل کا سختی سے نوٹس نہیں لیتے، اسمگلروں کوپکڑا نہیں جاتا، ان کے معاون عناصرکوسزا نہیں دی جاتی، تب تک ان آثارکو تباہ ہونے سے روکا نہیں جا سکتا۔‘‘
ان آثارکا ایک عرصہ سے مطالعہ کرنے والے بریکوٹ سے تعلق رکھنے والے مقامی سینئرصحافی محمد ریاض اس حوالے سے کافی تشویش میں ہیں، ان کے مطابق’’سوات کے کئی علاقوں بریکوٹ، پنجی گرام، کنجرکوٹو، ننگریال، پانڑ،کوکاری،بالی گرام، کبل، خوازہ خیلہ، مٹہ، شوخ دڑہ حتیٰ کہ گل کدہ (جوکہ حکومتی تحویل میں لیاگیا علاقہ ہے) میں غیر قانونی کھدائیاں آج بھی جاری ہیں،اس کے علاوہ بڑے بڑے آثارقدیمہ کے مراکزجن میں کوٹہ ابوہا، شموزو،جلالہ، گاڑوڈاگئی، بنجوٹ اورتلیگرام کے علاقے شامل ہیں،میں بھی بڑے پیمانہ پرغیرقانونی کھدائیاں ہو رہی ہیں ان جگہوں سے قیمتی اشیاء نکالی جاتی ہیں جوتھائی لینڈ،جاپان ، امریکہ اوریورپی ممالک اسمگل کی جاتی ہیں۔ اس غیر قانونی کام میں محکمہ آثار قدیمہ، مقامی پولیس اوردیگر حکومتی ادارے اور مقامی بااثرسیاسی شخصیات تک شامل ہیں۔‘‘محمد ریاض مزید کہتے ہیں کہ یہ آثار سوات کا قیمتی اثاثہ ہیں مگر بدقسمتی سے اس طرف حکومتی ادارے مسلسل غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
اس ضمن میں سواستوآرٹ اینڈکلچر ایسوسی ایشن کے روح رواں عثمان اولس یار بھی کافی سرگرم دکھائی دیتے ہیں، عثمان اولس یار پشتون بیلٹ پرجہاں بھی تہذیبی وثقافتی کام ہوتا ہے، وہاں پیش پیش ہوتے ہیں،ان کے بقول سوات میں آثارقدیمہ کی تباہی کا ذمہ دار محکمہ آثارقدیمہ ہے، آثار قدیمہ کی حفاظت کے لیے جتنے ادارے سوات میں کام کرتے ہیں، اْن سب سے ان آثارکوخطرہ ہے، سوات میں جتنے آثار ہیں، چاہے وہ کھنڈرات ہوں، سوات کا اکلوتا عجائب گھر ہو یا مجسمے وغیرہ ہوں، ان کی حفاظت اوربحالی کے لیے مذکورہ ادارے اٹالین مشن کے رحم وکرم پر ہیں،میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آج تک محکمہ آثارقدیمہ نے سوات میں ایک پیسے کاکام بھی نہیں کیا ہے۔
سوات کے آثارِقدیمہ کے بچاو اور ان کی مسلسل تباہی کے بارے میں جب مقامی محکمہ آثار قدیمہ کے ارباب اختیار سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ چندسال قبل املوک درہ سائٹ میں غیرقانونی کھدائی کے دوران چند اسمگلروں کو پکڑاگیا تھا، ان سے ’’بدھ ستوا‘‘ تک برآمدکیاگیا تھا جسے بعد میں سوات میوزیم کا حصہ بنایاگیا،ان اسمگلروں کو بعد میں معمولی سزا اور جرمانہ کے بعد چھوڑ دیا گیا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
اسلام آباد‘ سوات، مالاکنڈ‘ اٹک سمیت کئی شہروں میں5.1 شدت کا زلزلہ
اسلام آباد(نیٹ نیوز) اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت مختلف شہروں میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔ سوات، شانگلہ، بونیر اور مالاکنڈ ‘ اٹک، صوابی اور ظفر وال میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔مانسہرہ، بٹگرام کوہستان، مری، جہلم، آزاد کشمیرکے بھی مختلف شہروں میں زلزلہ آیا۔زلزلے کے جھٹکے رات 12 بج کر 10 منٹ پر محسوس کیے گئے۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کی شدت 5 اعشاریہ 1 ریکارڈ کی گئی جبکہ زلزلے کی زیرزمین گہرائی 10 کلومیٹر ریکارڈ کی گئی۔ زلزلہ پیما مرکز نے بتایا زلزلے کا مرکز روات سے جنوب مشرق میں 15 کلومیٹر پر تھا۔