آنٹی ریحانہ ہوں یا کوئی اور قانون 80 سالہ شخص توڑے یا 18 سال کا، ایک جیسی بات ہے، طلال چوہدری
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
فائل فوٹو
وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ آنٹی ریحانہ ہوں یا کوئی اور قانون 80 سالہ شخص توڑے یا 18 سال کا، ایک جیسی بات ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے طلال چوہدری نے کہا کہ آپ اپنے احتجاج کے پروگرام سے انتظامیہ کو آگاہ کیوں نہیں کرتے؟ آپ آگاہ کریں ہم سیکیورٹی دیں گے، تحفظ بھی دیں گے۔
طلال چوہدری نے کہا کہ وزارت داخلہ نے کل چاروں صوبوں کے ساتھ مل کر یوم استحصال کشمیر اور پی ٹی آئی کے احتجاج پر میٹنگ کی۔ ہم نے میٹنگ میں سب کو کہا کہ ان سے رابطہ کریں اور پوچھیں کہاں احتجاج کرنا چاہ رہے ہیں لیکن کسی نے رابطہ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا سے رات دس بجے خبر ملتی ہے کہ کے پی کے ہاؤس میں اکٹھے ہوں گے اور اڈیالا جائیں گے، ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے کہ مجمع اکٹھا ہو اور یہاں سے اڈیالا جیل یا کسی جگہ پر حملہ کرے۔
طلال چوہدری نے کہا کہ یہ اپنے پروگرام سے متعلق ہمیں اطلاع کیوں نہیں دیتے، انتظامیہ کو آن بورڈ کیوں نہیں لیتے؟ یہ ہر اس دن اور موقع پر احتجاج کرتے ہیں جس دن سے پاکستان کا کوئی قومی مفاد وابستہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ کے پی کے کا مسئلہ سیکیورٹی فورسز کا نہیں سیاسی قیادت کی بزدلی کا ہے، اسی طرح بلوچستان میں سیاسی قیادت کو اپنا فرض نبھانا ہوگا، کسی قسم کا نیا آپریشن نہیں ہو رہا، باجوڑ کے حوالے سے بھی کوئی نیا آپریشن نہیں ہو رہا۔
طلال چوہدری نے کہا کہ کے پی اور بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اپنی ذمے داری کو پہچانیں، ان کی غیر ذمے داری کی قیمت پاکستان کو چکانی پڑ رہی ہے، مزید برداشت نہیں کریں گے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: طلال چوہدری نے کہا کہ
پڑھیں:
وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء
متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ مجلس علماء نے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے وقف ترمیمی قانون پر عبوری حکم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ بعض دفعات کو معطل کیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے آئینی اور مذہبی خدشات جوں کے توں برقرار ہیں، جس نے ملت کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے، مسلمانوں کے ان مقدس اوقاف پر ان کا حق انتظام و اختیار کمزور کرنا یا ان کی تاریخی حیثیت کو زائل کرنا ملت کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ آئین میں درج ان اصولوں کے منافی ہے جو ہر مذہبی گروہ کو اپنے دینی معاملات خود چلانے کا حق دیتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ عدالت نے کچھ عبوری راحت فراہم کی ہے جو ایک مثبت قدم ہے لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں اور بنیادی خدشات کو دور نہ کرتے، قانون کی متعدد دفعات بدستور شدید تشویش کا باعث ہیں، زیر استعمال وقف املاک کے طویل عرصے سے مسلمہ اصول کا خاتمہ صدیوں پرانی مساجد، زیارت گاہوں، قبرستانوں اور دیگر اداروں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے جو مسلسل عوامی استعمال کے سبب وقف تسلیم کیے جاتے رہے ہیں، چاہے ان کے پاس تحریری دستاویزات موجود نہ ہوں۔ وقف نامہ کی لازمی شرط تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتی ہے جہاں اکثر دستاویزات یا تو ضائع ہو چکی ہیں یا کبھی بنی ہی نہیں تھیں اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان جائیدادوں کی مسلمہ حیثیت چھین لی جائے گی۔اسی طرح سروے کے اختیارات کو آزاد کمشنروں سے منتقل کر کے ضلع کلکٹروں کو دینا غیرجانبداری کو متاثر کرتا ہے اور ریاستی مداخلت کو بڑھاتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ مجلس علماء سمجھتی ہے کہ یہ ترمیم دراصل اوقاف کو کمزور کرنے اور انہیں ہتھیانے کی دانستہ کوشش ہے جس کے نتیجے میں ناجائز قابضین کو قانونی جواز مل سکتا ہے اور اس سے حقیقی دینی و سماجی اداروں کو نقصان ہو گا۔ یہ اقدامات امتیازی ہیں کیونکہ کسی اور مذہبی برادری کے معاملات میں ایسی مداخلت نہیں کی جاتی۔مجلس علماء نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ جلد از جلد اس معاملے کی حتمی سماعت کرے اور مسلمانوں کے آئینی و مذہبی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے کیونکہ موجودہ صورت میں یہ قانون تشویشناک ہے اور پرانے وقف ایکٹ کو بحال کیا جانا چاہیے، حکومت کو چاہیے کہ وہ وقف کی حرمت کو پامال کرنے کے بجائے ان مقدس اوقاف کے تحفظ، بقا اور ترقی کے لئے عملی اقدامات کرے تاکہ یہ آنے والی نسلوں کے دینی و سماجی مفاد میں کام کرتے رہیں۔