اسلام میں عورت کا مقام- غلط فہمیوں کا ازالہ حقائق کی روشنی میں
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
اسلام میں عورت کا مقام- غلط فہمیوں کا ازالہ حقائق کی روشنی میں WhatsAppFacebookTwitter 0 5 August, 2025 سب نیوز
تحریر: سدرہ انیس
آج تک میری تحریریں زیادہ تر آبادی، اس کے اثرات، اور معاشرتی نظام پر مرکوز رہی ہیں۔ تاہم اب میں نے قلم کا رخ ایک اور اہم میدان کی طرف موڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔وہ ہے خواتین کے متعلق حقیقی اسلامی تصور، معاشرتی کردار، اور ان سے جڑی غلط فہمیوں کی علمی وضاحت۔ مجھے یقین ہے کہ اس سفر میں آپ کی رہنمائی اور توجہ میرے لیے حوصلہ افزا ہوگی۔
مغربی دنیا میں اسلام پر عمومی اعتراض ہوتا ہے کہ اسلام ایک عورت مخالف مذہب ہے۔اس میں میڈیا، مستشرقین اور جدید طبقے کی غلط تعبیرات شامل ہیں اس آرٹیکل کا مقصد قرآن و سنت کی اصل تعلیمات کو واضح کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ اسلام نے جس قدر عورت کو حقوق دیے ہیں شاہد ہی کسی مذہب نے دیے ہو۔
اسلام سے قبل دنیا کی بڑی تہذیبوں جیسے ہندوستان، روم، یونان اور ایران میں عورت کو کمتر، حقیر اور مالِ متاع سمجھا جاتا تھا، حتیٰ کہ عربوں میں بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینا عام تھا۔ اسلام نے آکر عورت کو عزت، تعلیم، وراثت، رائے اور ازدواجی وقار جیسی بنیادی انسانی اقدار دیں، اسے ماں، بیوی، بیٹی اور بہن کے روپ میں معاشرے کا مرکزی ستون قرار دیا۔ قرآن نے عورت کی عزت کو بنی نوع انسان کی عزت سے تعبیر کیا، اور نبی کریم نے فرمایا کہ “علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے”۔ حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ، حضرت فاطمہ اور حضرت رفیدہ جیسی عظیم خواتین تاریخِ اسلام میں روشنی کے مینار ہیں۔ مگر بدقسمتی سے آج اسلام کو عورت مخالف مذہب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام نے عورت کو قیمتی بنایا ہے، قابلِ فروخت نہیں۔ عام غلط فہمیوں جیسے چار دیواری کی قید، گواہی کا آدھا ہونا، یا مرد کی بالادستی کو سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کیا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب امور دراصل عورت کے تحفظ، وقار اور ذمہ داریوں کے توازن پر مبنی ہیں۔ آج اگر معاشرے میں عورت مظلوم ہے تو یہ اسلام کی تعلیمات کا قصور نہیں، بلکہ ہمارے طرزِ عمل کی کوتاہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عورت کے بارے میں اسلامی نظریہ کو درست سیاق و سباق میں، علمی و عملی بنیاد پر پیش کیا جائے تاکہ نہ صرف مغرب کی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو، بلکہ مسلمان عورت کو بھی اپنے اصل مقام کا شعور حاصل ہو۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبریوم استحصال کشمیر، لندن میں کشمیری کمیونٹی کی احتجاجی ریلی ،انڈین ہائی کمیشن کیسامنے بھرپور مظاہرہ حرام جانوروں اور مردار مرغیوں کا گوشت بیچنے اور کھانے والے مسلمان “کلاؤڈ برسٹ کوئی آسمانی آفت یا ماحولیاتی انتباہ” بوسنیا، غزہ، اور ضمیر کی موت “کلاؤڈ برسٹ کوئی آسمانی آفت یا ماحولیاتی انتباہ” آبادی اور ماحولیاتی آلودگی حلال اور حرام کے درمیان ختم ہونے والی لکیرCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: غلط فہمیوں
پڑھیں:
تم پر آٹھویں دہائی کی لعنت ہو، انصاراللہ یمن کا نیتن یاہو کے بیان پر سخت ردِعمل
بہت سے اسرائیلی دانشوروں اور مبصرین کے درمیان آٹھویں دہائی کے متعلق یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی عمر 80 سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی جانب سے انصاراللہ یمن کو اسرائیل کے خلاف ایک بڑا خطرہ قرار دینے کے بعد، اس تحریک کے سیاسی دفتر کے رکن حزام الاسد نے نہایت سخت لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں کے ہاتھ بچوں اور عورتوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، وہ جلد ہی ہمارے خطے سے باہر نکال دیے جائیں گے۔ نیتن یاہو کے حالیہ بیان جس میں انہوں نے انصاراللہ کو اسرائیل کے لیے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک کہا اور وعدہ کیا کہ اس خطرے کے خاتمے کے لیے جو کچھ بھی کرنا پڑا، کیا جائے گا۔
صیہونی وزیراعظم کے جواب میں انصاراللہ کے رہنما نے ان بیانات کو مجرمانہ لفاظی قرار دیا ہے۔ حزام الاسد نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ لوگ جلد ہی اس خطے سے نکال دیے جائیں گے جنہیں اعلانِ بالفور کے ذریعے یہاں لایا گیا تھا، وہ غاصب جو معصوم بچوں اور عورتوں کے خون میں اپنے ہاتھ رنگ چکے ہیں۔ انہوں نے یمنی عوام کی مزاحمت کے تسلسل پر زور دیتے ہوئے کہا تم پر آٹھویں دہائی کی لعنت ہو، ہم اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں تاکہ مستضعفوں کو تمہارے ظلم و فساد سے نجات دلائیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ برا انجام کس کا ہوتا ہے، حق رکھنے والے مظلوموں کا یا مجرم غاصبوں کا؟ قابلِ ذکر ہے کہ بہت سے اسرائیلی دانشوروں اور مبصرین کے درمیان یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی عمر 80 سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔ چونکہ اسرائیل نے اپنی ریاست کا اعلان 14 مئی 1948 کو، برطانوی قیمومیت کے خاتمے کے بعد کیا تھا، اس لحاظ سے یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس کی زوال پذیری کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے، اور 2028 سے پہلے اس کا انجام متوقع ہے۔