Express News:
2025-11-05@03:15:02 GMT

پاکستان ... اور....

اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT

ویسے تو ہم سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہیں، کچھ تلاشِ معاش میں اور کچھ موج مستیوں میں۔ آپا دھاپی کے اس دور میں مقدّسات بھی فراموش ہوگئے ہیں اور وطنِ عزیز کے ساتھ بھی محبّت اور وابستگی کی وہ شدّت نہیں رہی جو ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ برقی میڈیا خصوصاً سوشل میڈیاپر ملک کے بارے میں کئی بدخواہ اناپ شناب بولتے رہتے ہیں مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کچھ لوگ اپنی ذات اور ادارے کے بارے میں ضرور حسّاس ہیں مگر ملک کی عزّت کے بارے میں وہ بھی بے نیاز ہیں۔

مگر اس ملک میں ابھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں کہ پاکستان کے نام پر جن کے دل دھڑکتے ہیں، جو وطنِ عزیز کی عزّت کو اپنی عزّت سے بالا اور برتر سمجھتے ہیں اور اگر کہیں ملک کی ناموس یا امیج پر حرف آتا دیکھتے ہیں تو تڑپ اُٹھتے ہیں۔ ملک کے چوٹی کے شاعر اور دانشور جناب پروفیسر انور مسعود صاحب کا تعلق اُسی قبیلے سے سے، جن کا وجود ملک کے لیے خیروبرکت کا باعث ہے۔ پروفیسر صاحب اکثر میرا کالم پڑھ کر فون کرتے ہیں اور ان کی کال میرے لیے ہمیشہ حوصلہ افزائی اور راہنمائی کا موجب ہوتی ہے۔ پروفیسر صاحب چونکہ شگفتہ اور مزاحیہ شاعری کے ورلڈ چیمپئن ہیں اس لیے فون پر بھی وہ کوئی واقعہ، لطیفہ یا اپنا قطعہ سناتے ہیں جس کے بعد گفتگو قہقہوں میں ڈھل جاتی ہے۔

چند ہفتے پہلے پروفیسر انور مسعود صاحب کا فون آیا تو خاصے مضطرب تھے، میں نے وجہِ اضطراب پوچھی تو انتہائی دکھ کی حالت میں کہنے لگے آپ نے وہ اشتہار دیکھا ہے جس میں ایک ناخالص قسم کی فوڈ آئٹم کو متعارف کرایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری دنیا کو یہ بتایا جارہا ہے کہ ہمارا وطنِ عزیز اور ناخالص چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔ کیا اس طرح ہمارے ملک کی عزّت میں اضافہ ہورہا ہے یا کمی ہورہی ہے، یقیناً کمی ہورہی ہے کیونکہ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ پاکستان میں ناخالص دودھ اور ملاوٹ شدہ خوراک کی فروخت و تشہیر پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

پروفیسر صاحب کی تشویش بجا ہے، یقیناً ایک دردِ دل رکھنے والے حسّاس شخض کو ایسا ہی سوچنا چاہیے۔ وطنِ عزیز سے ٹوٹ کر محبّت کرنے والے دانشور کی یہ تشویش درست اور جائز ہے۔ ملک کی عزّت ، عظمت اور ناثّر کے بارے میں حسّاس دل رکھنے والوں کی یہ خواہش درست ہے کہ 78 سال بعد پاکستان کے بارے میںہمیں ایسے دعوے کرنے کے قابل ہونا چاہیے تھا کہ پاکستان میں خالص خوراک ہے، امن ہے، انصاف ہے، اعلیٰ معیاری تعلیم ہے، ترقّی ہے، ڈسپلن ہے،قومی یکجہتی ، اتّحاد ، خوشحالی ہے، ایمانداری، آئین کی بالادستی ہے، اُستاد کا احترام ہے،خالص ادویاء ہیں، انسانی ہمدردی ہے، محنت اور مزدور کی عزّت ہے، میرٹ ہے، قانون اور انصاف کی حکمرانی ہے۔ اربابِ بست وکشاد کو چاہیے کہ اس بات کا خیال رکھا کریں۔

یومِ شہدائے پولیس

آج جب میں یہ لائنیں تحریر کررہا ہوں، پورے ملک میں’’یومِ شہدائے پولیس ‘‘ منایا جا رہا ہے، پولیس کے دامن میں اگر کوئی سب سے قیمتی سرمایہ ہے تو چمچماتے دفتر یا مہنگی گاڑیاں نہیں بلکہ شہیدوں کی قربانیاں اور خونِ شہداء ہے۔ پچھلے کئی سال سے وطنِ عزیز کو دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، اسے روکنے کے لیے پولیس کے جوان اور افسر سینہ سپر ہیں، وہ دوسروں کی جانیں بچانے کے لیے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ وہ قوم کے بچّوں کو یتیمی کے روگ سے بچانے کے لیے اپنے بچّوں کو یتیم بنارہے ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج ملک میں جہاں جہاں بھی لوگ امن اور چین کی نیند سوتے ہیں، وہ پولیس کے شہداء ہی کی قربانیوں کا ثمر ہے۔

خالقِ کائنات نے شہید کا مقام اور مرتبہ بلند کردیا ہے۔ یہ اعزاز صرف شہید کے لیے ہے کہ محشر کے روز سب کا حساب ہوگا مگر شہیدوں کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا۔ ہر شخض موت سے ہمکنارہوگا۔ ہر انسان نے مرنا ہے مگر شہید کو موت بھی نہیں مارسکتی کہ موت و حیات کے خالق و مالک نے فرمادیا ہے کہ شہید ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ پولیس کے شہداء اپنے لہو سے پولیس کے دامن پر لگے داغ دھوتے ہیں اور اسے صاف کردیتے ہیں، مگر کچھ بدبخت ، اپنی حرام خوری، بدتمیزی، بدتہذیبی اور بے ضمیری کے دھبّوں سے پولیس کا دامن پھر سے داغدار کردیتے ہیں۔

ایسے وردی پوش پوری پولیس سروس کے دشمن ہیں۔ یہ پورے محکمے کے لیے بدنما داغ ہیں۔ یہ سفید کپڑوں والے ڈاکوؤں سے زیادہ خطرناک ہیں، یہ اس بات کے قطعاً حقدار نہیں ہیں کہ تخفّظ اور انصاف کی علامت پولیس یونیفارم پہنیں۔ یہ جلی ہوئی شاخ کی مانند ہیں جسے کاٹ دینا چاہیے تاکہ باقی پودے کی صحیح نشوونما ہوسکے۔ محافظ کی یونیفارم صرف رزقِ حلال کھانے والوں کے جسم پر سجتی ہے اور وہی اس کے حقدار ہیں۔ پولیس کے سینئر افسروں کو چاہیے کہ سروس کے اندر گھسے ہوئے گندے عناصر سے فوری طور پر نجات حاصل کریں اور جتنی جلد ہوسکے ان گندے انڈوں کو باہر پھینک دیں۔

اس موقع پر ایک انتہائی محبّ ِ وطن اور قابل بزنس مین اور دانشور جناب جاوید نواز صاحب کا میسج بھی شیئر کررہا ہوںتاکہ پولیس افسران اس سے راہنمائی لے سکیں’’مسقط میں 40 سالہ قیام کے بعد میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ راہ چلتے جِس ،سب سے خلیق شخص سے ملاقات ہو تی ہے، وہ پولیس افسر ہوتا ہے۔

آپ راستہ پوچھیں تو کبھی دائیںبائیں (بالیمین و الیسار) کا سبق نہیں پڑھاتا۔ اس کا ایک ہی جواب ہوتا ہے۔ پلیز فالو می (میرے پیچھے آئیں)۔ اور پھر وہ منزل پر پہنچ کر اس عمارت کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں آپ کو جانا مطلوب ہو۔ قانون کی خلاف ورزی پر چالان کرتے وقت وہ اس قدر عاجز اور محبّت سے بات کرتا ہے کہ اکثر یہ خیال آتا ہے کہ شاید کوئی پرانا دوست ہے لیکن اس ساری محبت اور توقیر کے باوجود جرمانے کی رقم میں ایک پیسہ کی کمی ممکن نہیں ہے۔

40سال میں ایک بار بھی یہ شائیبہ نہیں ہوا کہ پولیس آفیسر کو رشوت کی طلب ہے۔ سلطنت عمان کا تمام نظام جوازات اور کسٹم سے لے کر سول سیکیورٹی تک پولیس ہی چلاتی ہے۔ بارش کے آغاز پر پولیس کی گاڑیاں حرکت میں آتی ہیں اور راستوںپر لگے ہوئے ڈکٹ کے ڈھکنے کھولے جاتے ہیں اور پولیس والے ہی پانی کے نکاس کو یقینی بنانے کے لیے کچرا صاف کرتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پولیس کے فرائض میں کوئی جج، جرنیل، وزیر یا شیخ دخل نہیں دے سکتا، میں نے یہ بھی دیکھا کہ فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل عوفی کا ایک پولیس شرطے نے چالان کیا اور وہ انتہائی تحمل اور خاموشی سے جرمانہ ادا کر کے چلے گئے، یہ سب قانون کی حکمرانی کے ثمرات ہیں۔ سلطنت عمان میں ہر شخص قانون کے طابع اور قانون پر عمل کرنے کا پابند ہے۔

پاکستان میں بھی پولیس کے احترام میں اضافہ ہو سکتا ہے اگر رشوت اور سفارش کا کلچر ختم کر دیا جائے۔ میں ہر روز سیکڑوں پولیس افسرون کو چوکوں پر ناکہ لگائے موٹر سائیکل سواروں کا شکار کرتے دیکھتا ہوں۔ ان کے سامنے بڑی گاڑیاں بغیر نمبر پلیٹ قانون کا منہ چڑاتی گذر رہی ہوتی ہیں جہاں وہ آنکھین بند کر لیتے ہیں لیکن بغیر ہیلمٹ موٹر سائکل سوار اس ملک کا سب سے بڑا مجرم سمجھا جاتا ہے۔ تمام پولیس افسروں کو نظام میں بہتری کے لیے کچھ نہ کچھ کاوش کرناچاہیے۔‘‘ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے بارے میں پولیس کے پولیس ا ہیں اور کی عز ت کے لیے ملک کی

پڑھیں:

پاکستان کرکٹ زندہ باد

کراچی:

’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔ 

اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔ 

اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔ 

تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟

بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔

اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔ 

ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔ 

البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟

ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔ 

اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔

یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟

مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔ 

پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔

لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔ 

یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟

پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔ 

خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔

میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟

ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟

ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • بدل دو نظام، تحریک
  • ابارم کولہی کی پراسرار موت نے معاملے کا نیا رخ اختیار کرلیا
  • اسد زبیر شہید کو سلام!
  • تجاوزات کا خاتمہ سول انتظامیہ کا کام ہے، پولیس کا نہیں: جاوید عالم اوڈھو
  • فتح افغانستان کے بعد پاکستان کی اگلی طویل جنگ
  • ایک حقیقت سو افسانے ( آخری حصہ)
  • پنجاب میں عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں،جماعت اسلامی
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • حماس کا اسرائیل پر اسیر کی ہلاکت کا الزام، غزہ میں امداد کی لوٹ مار کا دعویٰ بھی مسترد