Express News:
2025-09-20@04:24:51 GMT

پاکستان ... اور....

اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT

ویسے تو ہم سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہیں، کچھ تلاشِ معاش میں اور کچھ موج مستیوں میں۔ آپا دھاپی کے اس دور میں مقدّسات بھی فراموش ہوگئے ہیں اور وطنِ عزیز کے ساتھ بھی محبّت اور وابستگی کی وہ شدّت نہیں رہی جو ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ برقی میڈیا خصوصاً سوشل میڈیاپر ملک کے بارے میں کئی بدخواہ اناپ شناب بولتے رہتے ہیں مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کچھ لوگ اپنی ذات اور ادارے کے بارے میں ضرور حسّاس ہیں مگر ملک کی عزّت کے بارے میں وہ بھی بے نیاز ہیں۔

مگر اس ملک میں ابھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں کہ پاکستان کے نام پر جن کے دل دھڑکتے ہیں، جو وطنِ عزیز کی عزّت کو اپنی عزّت سے بالا اور برتر سمجھتے ہیں اور اگر کہیں ملک کی ناموس یا امیج پر حرف آتا دیکھتے ہیں تو تڑپ اُٹھتے ہیں۔ ملک کے چوٹی کے شاعر اور دانشور جناب پروفیسر انور مسعود صاحب کا تعلق اُسی قبیلے سے سے، جن کا وجود ملک کے لیے خیروبرکت کا باعث ہے۔ پروفیسر صاحب اکثر میرا کالم پڑھ کر فون کرتے ہیں اور ان کی کال میرے لیے ہمیشہ حوصلہ افزائی اور راہنمائی کا موجب ہوتی ہے۔ پروفیسر صاحب چونکہ شگفتہ اور مزاحیہ شاعری کے ورلڈ چیمپئن ہیں اس لیے فون پر بھی وہ کوئی واقعہ، لطیفہ یا اپنا قطعہ سناتے ہیں جس کے بعد گفتگو قہقہوں میں ڈھل جاتی ہے۔

چند ہفتے پہلے پروفیسر انور مسعود صاحب کا فون آیا تو خاصے مضطرب تھے، میں نے وجہِ اضطراب پوچھی تو انتہائی دکھ کی حالت میں کہنے لگے آپ نے وہ اشتہار دیکھا ہے جس میں ایک ناخالص قسم کی فوڈ آئٹم کو متعارف کرایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری دنیا کو یہ بتایا جارہا ہے کہ ہمارا وطنِ عزیز اور ناخالص چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔ کیا اس طرح ہمارے ملک کی عزّت میں اضافہ ہورہا ہے یا کمی ہورہی ہے، یقیناً کمی ہورہی ہے کیونکہ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ پاکستان میں ناخالص دودھ اور ملاوٹ شدہ خوراک کی فروخت و تشہیر پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

پروفیسر صاحب کی تشویش بجا ہے، یقیناً ایک دردِ دل رکھنے والے حسّاس شخض کو ایسا ہی سوچنا چاہیے۔ وطنِ عزیز سے ٹوٹ کر محبّت کرنے والے دانشور کی یہ تشویش درست اور جائز ہے۔ ملک کی عزّت ، عظمت اور ناثّر کے بارے میں حسّاس دل رکھنے والوں کی یہ خواہش درست ہے کہ 78 سال بعد پاکستان کے بارے میںہمیں ایسے دعوے کرنے کے قابل ہونا چاہیے تھا کہ پاکستان میں خالص خوراک ہے، امن ہے، انصاف ہے، اعلیٰ معیاری تعلیم ہے، ترقّی ہے، ڈسپلن ہے،قومی یکجہتی ، اتّحاد ، خوشحالی ہے، ایمانداری، آئین کی بالادستی ہے، اُستاد کا احترام ہے،خالص ادویاء ہیں، انسانی ہمدردی ہے، محنت اور مزدور کی عزّت ہے، میرٹ ہے، قانون اور انصاف کی حکمرانی ہے۔ اربابِ بست وکشاد کو چاہیے کہ اس بات کا خیال رکھا کریں۔

یومِ شہدائے پولیس

آج جب میں یہ لائنیں تحریر کررہا ہوں، پورے ملک میں’’یومِ شہدائے پولیس ‘‘ منایا جا رہا ہے، پولیس کے دامن میں اگر کوئی سب سے قیمتی سرمایہ ہے تو چمچماتے دفتر یا مہنگی گاڑیاں نہیں بلکہ شہیدوں کی قربانیاں اور خونِ شہداء ہے۔ پچھلے کئی سال سے وطنِ عزیز کو دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، اسے روکنے کے لیے پولیس کے جوان اور افسر سینہ سپر ہیں، وہ دوسروں کی جانیں بچانے کے لیے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ وہ قوم کے بچّوں کو یتیمی کے روگ سے بچانے کے لیے اپنے بچّوں کو یتیم بنارہے ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج ملک میں جہاں جہاں بھی لوگ امن اور چین کی نیند سوتے ہیں، وہ پولیس کے شہداء ہی کی قربانیوں کا ثمر ہے۔

خالقِ کائنات نے شہید کا مقام اور مرتبہ بلند کردیا ہے۔ یہ اعزاز صرف شہید کے لیے ہے کہ محشر کے روز سب کا حساب ہوگا مگر شہیدوں کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا۔ ہر شخض موت سے ہمکنارہوگا۔ ہر انسان نے مرنا ہے مگر شہید کو موت بھی نہیں مارسکتی کہ موت و حیات کے خالق و مالک نے فرمادیا ہے کہ شہید ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ پولیس کے شہداء اپنے لہو سے پولیس کے دامن پر لگے داغ دھوتے ہیں اور اسے صاف کردیتے ہیں، مگر کچھ بدبخت ، اپنی حرام خوری، بدتمیزی، بدتہذیبی اور بے ضمیری کے دھبّوں سے پولیس کا دامن پھر سے داغدار کردیتے ہیں۔

ایسے وردی پوش پوری پولیس سروس کے دشمن ہیں۔ یہ پورے محکمے کے لیے بدنما داغ ہیں۔ یہ سفید کپڑوں والے ڈاکوؤں سے زیادہ خطرناک ہیں، یہ اس بات کے قطعاً حقدار نہیں ہیں کہ تخفّظ اور انصاف کی علامت پولیس یونیفارم پہنیں۔ یہ جلی ہوئی شاخ کی مانند ہیں جسے کاٹ دینا چاہیے تاکہ باقی پودے کی صحیح نشوونما ہوسکے۔ محافظ کی یونیفارم صرف رزقِ حلال کھانے والوں کے جسم پر سجتی ہے اور وہی اس کے حقدار ہیں۔ پولیس کے سینئر افسروں کو چاہیے کہ سروس کے اندر گھسے ہوئے گندے عناصر سے فوری طور پر نجات حاصل کریں اور جتنی جلد ہوسکے ان گندے انڈوں کو باہر پھینک دیں۔

اس موقع پر ایک انتہائی محبّ ِ وطن اور قابل بزنس مین اور دانشور جناب جاوید نواز صاحب کا میسج بھی شیئر کررہا ہوںتاکہ پولیس افسران اس سے راہنمائی لے سکیں’’مسقط میں 40 سالہ قیام کے بعد میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ راہ چلتے جِس ،سب سے خلیق شخص سے ملاقات ہو تی ہے، وہ پولیس افسر ہوتا ہے۔

آپ راستہ پوچھیں تو کبھی دائیںبائیں (بالیمین و الیسار) کا سبق نہیں پڑھاتا۔ اس کا ایک ہی جواب ہوتا ہے۔ پلیز فالو می (میرے پیچھے آئیں)۔ اور پھر وہ منزل پر پہنچ کر اس عمارت کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں آپ کو جانا مطلوب ہو۔ قانون کی خلاف ورزی پر چالان کرتے وقت وہ اس قدر عاجز اور محبّت سے بات کرتا ہے کہ اکثر یہ خیال آتا ہے کہ شاید کوئی پرانا دوست ہے لیکن اس ساری محبت اور توقیر کے باوجود جرمانے کی رقم میں ایک پیسہ کی کمی ممکن نہیں ہے۔

40سال میں ایک بار بھی یہ شائیبہ نہیں ہوا کہ پولیس آفیسر کو رشوت کی طلب ہے۔ سلطنت عمان کا تمام نظام جوازات اور کسٹم سے لے کر سول سیکیورٹی تک پولیس ہی چلاتی ہے۔ بارش کے آغاز پر پولیس کی گاڑیاں حرکت میں آتی ہیں اور راستوںپر لگے ہوئے ڈکٹ کے ڈھکنے کھولے جاتے ہیں اور پولیس والے ہی پانی کے نکاس کو یقینی بنانے کے لیے کچرا صاف کرتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پولیس کے فرائض میں کوئی جج، جرنیل، وزیر یا شیخ دخل نہیں دے سکتا، میں نے یہ بھی دیکھا کہ فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل عوفی کا ایک پولیس شرطے نے چالان کیا اور وہ انتہائی تحمل اور خاموشی سے جرمانہ ادا کر کے چلے گئے، یہ سب قانون کی حکمرانی کے ثمرات ہیں۔ سلطنت عمان میں ہر شخص قانون کے طابع اور قانون پر عمل کرنے کا پابند ہے۔

پاکستان میں بھی پولیس کے احترام میں اضافہ ہو سکتا ہے اگر رشوت اور سفارش کا کلچر ختم کر دیا جائے۔ میں ہر روز سیکڑوں پولیس افسرون کو چوکوں پر ناکہ لگائے موٹر سائیکل سواروں کا شکار کرتے دیکھتا ہوں۔ ان کے سامنے بڑی گاڑیاں بغیر نمبر پلیٹ قانون کا منہ چڑاتی گذر رہی ہوتی ہیں جہاں وہ آنکھین بند کر لیتے ہیں لیکن بغیر ہیلمٹ موٹر سائکل سوار اس ملک کا سب سے بڑا مجرم سمجھا جاتا ہے۔ تمام پولیس افسروں کو نظام میں بہتری کے لیے کچھ نہ کچھ کاوش کرناچاہیے۔‘‘ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے بارے میں پولیس کے پولیس ا ہیں اور کی عز ت کے لیے ملک کی

پڑھیں:

موقع پرست اور سیلاب کی تباہی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250919-03-4

 

غزالہ عزیز

پاکستان وہ خوش نصیب ملک ہے جو ہر طرح کی معدنیات کے علاوہ ہر طرح کے خطہ زمین کی دولت سے مالا مال ہے۔ دریائوں کے پانچ بڑے سلسلے جو ملک کے پہاڑی سلسلوں سے ہنستے گنگناتے اُترتے ہیں اور پورے ملک سے گزرتے ہوئے سیراب کرتے سمندر کا رُخ کرتے ہیں لیکن مون سون کے موسم میں جب یہ دریا بپھرتے ہیں اور بھارت اپنا سیلابی پانی مزید ان دریائوں میں ڈال دیتا ہے تو خطرناک سیلاب آجاتا ہے۔ یہ سیلابی پانی گھروں اور بستیوں کو بہا کر لے جاتا ہے، کھڑی فصلوں کو تباہ کرتا ہے، مویشیوں کو دیتا ہے۔ اس وقت ملک عزیز میں جو سیلاب آیا اس نے 33 لاکھ سے زیادہ افراد کو متاثر کیا، سیکڑوں بستیاں ڈھے گئیں، باقی میں چھتوں تک پانی کھڑا ہے، سڑکیں پانی میں ڈوبی ہیں، کھیت کھلیان تالاب بن گئے ہیں، لوگ باگ گھروں سے کشتیوں کے ذریعے جان بچا کر نکلے ہیں اور خیموں میں پناہ لی ہے، ان کے مویشی اور گھروں کا سامان تباہ ہوگیا ہے۔ اگرچہ رضا کار لوگوں کی جانیں اور ان کا مال مویشی بچانے کے لیے کشتیوں کے ذریعے پہنچے ہیں لیکن ان کی نگاہیں حسرت سے اپنی برباد فصلوں کو دیکھ رہی ہیں۔

یہ سیلاب کی صورت حال کوئی نئی نہیں پہلے بھی آتے رہے ہیں لیکن انتہائی غفلت کی بات ہے کہ ایک طرف پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں خطرناک حد تک پانی کی قلت ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 2040ء تک پاکستان خطے کا پانی کی قلت سے دوچار سب سے زیادہ متاثر ملک بن سکتا ہے۔ ابھی حال ہی میں حکومت کے کرتا دھرتا کہہ رہے تھے کہ بھارت پاکستان جانے والے دریائوں کا پانی روک کر آبی جارحیت کررہا ہے۔ لیجیے اب اس نے دریائوں میں پانی چھوڑ دیا اور ہم واویلا کرنے لگے کہ اب وہ پانی چھوڑ کر پاکستان کو سیلاب کی صورت حال سے دوچار کررہا ہے۔بھارت پانی کو اپنی مرضی سے روک اور چھوڑ سکتا ہے تو کیوں؟ اس سوال پر پاکستانی کرتا دھرتا غور کریں۔ ظاہر ہے اس نے اپنے ڈیم بنائے ہیں، اپنی زراعت کے لیے پانی کو استعمال کرنے کے لیے، لیکن ہم نے اپنی اسمبلیوں میں ڈیم نہ بنانے کے لیے قراردادیں منظور کی ہیں، کیوں کہ ہمیں اپنے بینک بیلنس بڑھانے ہیں، غریب عوام جائیں سیلاب میں ڈوبیں، اپنی جمع پونجی کو روئیں ہمیں پروا نہیں ہے۔ دنیا ڈیم بنا کر میٹھے پانی کو استعمال کررہی ہے اور ہم میٹھے پانی کو سمندر برد کرتے ہیں بلکہ دعائیں کرتے ہیں کہ یہ پانی جلد از جلد سمندر تک پہنچے۔ بھارت ڈیم بنانے والے ملکوں میں امریکا، جاپان، برازیل کے ساتھ سب سے آگے کی صف میں ہے۔ عالمی کمیشن بتاتا ہے کہ بڑا ڈیم وہ ہوتا ہے جو 15 میٹر سے زیادہ بلند ہو یعنی چار منزلہ عمارت کے برابر اونچا ہو، ایسے بڑے ڈیم بھارت میں 5100 ہیں۔ جبکہ پاکستان میں مشکل سے 164 ہیں۔

پاکستان میں پانی کی قلت کا یہ حال ہے کہ 44 فی صد سے زیادہ لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، دیہی علاقوں میں یہ تعداد 90 فی صد تک پہنچ جاتی ہے جس کے باعث بڑے اور بچے بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ صرف اسہال سے پاکستان میں ہر سال 2 لاکھ بچے انتقال کرجاتے ہیں اور ہمارے ہاں حکومت پولیو کے علاوہ دوسری بیماریوں کو اہمیت دینے کے لیے ہی تیار نہیں۔ پانی زندگی ہے آنے والے وقت میں پانی پر ہونے والی جنگوں کا ہی سوچ کر ہمیں اپنے لوگوں کے لیے سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے سوچنا چاہیے۔ موجودہ سیلاب نے صورت حال کو اچانک انتہائی تیزی سے بدلا، پانی چند گھنٹوں میں اس قدر بڑھا کہ لوگوں کو صرف اپنی جانیں بچا کر نکلنے کا موقع ملا، بہت سے ایسے تھے کہ جنہوں نے گھر چھوڑ کر نکلنے سے انکار کردیا وہ اس امید پر وہاں ٹھیرنا چاہتے تھے کہ شاید پانی جلد ہی اُتر جائے گا۔ لیکن پانی بڑھ گیا اور اتنا بڑھا کہ رضا کاروں کے لیے بھی ان تک پہنچنا مشکل ہوگیا۔ وہ بتارہے ہیں کہ پانی کے نیچے کہیں پلیاں بنی ہوئی ہیں جو نظر نہیں آتیں اور کشتیوں کے اُلٹنے کا خطرہ ہے پھر کیونکہ پانی کے نیچے کھڑی فصلیں موجود ہیں جو کشتیوں کے پنکھوں میں پھنس جاتی ہیں  اور کشتیوں کے لیے حرکت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف بھارت کی طرف سے ایک کے بعد ایک بڑا پانی کا ریلہ چھوڑا جارہا ہے جس سے پانی کی سطح اور بہائو میں تیزی آرہی ہے، ایسے میں ابھی کچھ لوگ ڈگمگاتے گھروں کی چھتوں پر موجود ہیں، بہت سے مقامات پر پانی کی سطح آٹھ اور دس فٹ بلند بتائی جارہی ہے جہاں کشتیاں ایسے چل رہی ہیں جیسے دریائوں میں چلتی ہیں۔ لوگ بتارہے ہیں کہ پچھلے سیلابوں میں بھی دریا نے جب بہنا شروع کیا تو گھروں کو گرا کر اس جگہ کو نگل گیا جو اصل میں اس کی ہی تھی۔ خواجہ آصف بھی خوب ہیں، وزیر دفاع کے ساتھ وزیر اطلاعات کی ذمے داری اٹھالیتے ہیں، حکومتوں میں رہتے ہوئے بیان ایسے دیتے ہیں جیسے اپوزیشن میں ہی زندگی گزاری ہے۔ وہ اطلاع دے رہے ہیں کہ سیالکوٹ میں نالوں کی زمین لوگوں کو بیچی گئی، دریا کے راستے میں آبادیاں ہیں، گزرگاہوں پر قبضہ ہوچکا ہے، ہم دریا کے راستوں پر گھر اور ہوٹل بنا لیتے ہیں، دریا ردعمل تو دیتے ہیں، لہٰذا سیلاب کی تباہی ہمارے اپنے کرتوتوں سے ہے۔ تو جناب حکومت میں تو آپ رہے ہیں اور ہیں یہ سب ہورہا تھا تو آپ کیا کررہے تھے؟ عوام سے کہہ رہے ہیں کہ موقع پرستوں کو سسٹم میں لائیں گے تو نقصان ہوگا، جناب جو دو پارٹیاں حکومت میں پچھلے ستر سال سے ہیں وہ ن لیگ اور پی پی ہی ہے اور ٹھیک کہا کہ سب کے سب موقع پرست ہیں جن میں آپ بھی شامل ہیں۔ یہ لاکھوں کیوسک پانی جو ملک کے مختلف صوبوں میں تباہی مچاتا سمندر میں گرے گا کیا اس پانی کو سنبھالنے کے لیے کوئی نظام نہیں بنایا جاسکتا؟ یقینا بنایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے دیانت دار حکمران ہونے چاہئیں، موقع پرست نہیں۔ افسوس ہماری ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ہم نے ڈاکٹر خان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا
  • سعودی عرب سے معاہدہ کسی ملک کیخلاف نہیں، پاکستان
  • پاک، سعودی مشترکہ دفاع، ذمے داری بڑھ گئی ہے
  • سابق جج اور پاکستان بار کونسل کے رکن حسن رضا پاشا کے دفتر پر فائرنگ
  • پاکستان سعودی عرب معاہدہ کیا کچھ بدل سکتا ہے؟
  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ
  • موقع پرست اور سیلاب کی تباہی
  • پاکستان کراچی آرٹس کونسل کے پاس جے یو آئی کا جلسہ، ٹریفک پلان جاری
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • علیمہ خان کا انڈوں سے حملہ کرنے والی خواتین کے بارے میں بڑا انکشاف