فلسطینی ریاست کے قیام کی کوششوں میں سعودی عرب پیش پیش کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 اگست 2025ء) سعودی اقدامات کے معترف اسے ''سفارتکاری میں ماسٹر کلاس‘‘ قرار دے رہے ہیں، جو مشرق وسطی میں امن کے لیے ایک حقیقی موقع ثابت ہو سکتا ہے، جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ دراصل اپنے مفادات پر مبنی اقدام ہے، ایک ''پبلسٹی اسٹنٹ‘‘ جس کا مقصد کسی ملک کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر بین الاقوامی امیج خراب کرنے میں مدد کرنا ہے۔
سعودی عرب کی حالیہ مہم کا آغاز ستمبر 2024ء میں ناروے کے ساتھ مل کر ''دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے عالمی اتحاد‘‘ کے آغاز کے ساتھ ہوا تھا، اور اس کے لیے دو اولین ملاقاتیں بھی ریاض میں ہی منعقد ہوئی تھیں
دسمبر میں اقوام متحدہ میں ایک ووٹنگ میں دو ریاستی حل کے لیے عالمی حمایت کا اعادہ کیا گیا تھا۔
(جاری ہے)
سعودی عرب اور فرانس کی زیر صدارت حال ہی میں نیویارک میں ہونے والی کانفرنس میں فرانس، کینیڈا، مالٹا، برطانیہ اور آسٹریلیا سمیت کئی ممالک نے فلسطین کو تسلیم کرنے کے ارادے کا اظہار کیا تھا۔
عرب لیگ کے ارکان، یورپی یونین اور دیگر ممالک کی جانب سے دستخط کردہ ''نیویارک اعلامیہ‘‘ امن کی جانب اقدامات کی نشاندہی کرتا ہے۔اعلامیے میں دو ریاستی حل کی جانب مرحلہ وار بڑھنے کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ اس میں حماس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غیر مسلح ہو، باقی اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے اور غزہ کی حکمرانی چھوڑ دے۔
دستخط کنندگان نے کہا، ''ہم غزہ میں شہریوں اور شہری انفراسٹرکچر پر اسرائیل کے حملوں، محاصرے اور بھوک کی بھی مذمت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں المناک انسانی تباہی ہوئی ہے۔‘‘حقیقت یہ ہے کہ عرب لیگ کے تمام 22 ارکان نے اعلامیے پر دستخط کیے تھے جسے ایک سفارتی پیش رفت کے طور پر دیکھا گیا۔ یہ پہلا موقع ہے جب بہت سے لوگوں نے حماس کو عوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا اور فرانس کے ساتھ مل کر سعودی عرب کو یہ سب کچھ کرنے میں مدد دینے کا سہرا دیا جاتا ہے۔
رائس یونیورسٹی کے بیکر انسٹیٹیوٹ فار پبلک پالیسی میں مشرق وسطیٰ کے فیلو کرسٹیان کوٹس اُلرشسن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ''عرب اور اسلامی دنیا میں سعودی عرب کی حیثیت اور مکہ اور مدینہ کے مقدس مذہبی مقامات کی دیکھ بھال کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب جو کچھ بھی کرتا ہے وہ اہمیت کا حامل ہے۔‘‘
سعودی اب ایسا کیوں کر رہے ہیں؟اکتوبر 2023 میں حماس کے حملوں سے قبل سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر غور کر رہا تھا۔
اس پر اسے فلسطینی ریاست کو نظر انداز کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے موجودہ دباؤ محض اس کے امیج کی بحالی کی کوششوں کا حصہ ہے۔تاہم سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ گلف انٹرنیشنل فورم کے عزیز الغشیان کے مطابق، ''اس موضوع پر اہم غلط فہمیوں میں سے ایک یہ خیال بھی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی سعودی خواہش کچھ نئی ہے، جبکہ حقیقت میں یہ خواہش 1960 کی دہائی کے آخر سے ہے۔
‘‘اُلرشسن نے 2002 کے عرب پیس انیشی ایٹو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دو ریاستی حل کے سعودی منصوبے دہائیوں پرانے ہیں: ''لیکن کئی سالوں تک، عرب امن اقدام پہلے سے طے شدہ سعودی موقف تھا۔ اب غزہ کی ہنگامی صورتحال اور مغربی کنارے میں بڑھتے ہوئے تشدد کا مطلب یہ ہے کہ سعودیوں نے اندازہ لگا لیا ہے کہ وہ اس طرح کی تباہی اور انسانی مصائب کے سامنے خاموش نہیں رہ سکتے۔
‘‘اُلرشسن نے ''نیو یارک اعلامیہ‘‘ کو 2002ء کے اقدام کا دوبارہ آغاز قرار دیا۔
امن پر زور سعودی عرب کے اپنے مفاد میںماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بعض دیگر وجوہات بھی ہیں جن کی وجہ سے فلسطینی ریاست کی جانب پیش قدمی سے سعودی عرب کو فائدہ ہوتا ہے۔
ان میں سے ایک واضح علاقائی استحکام ہے، جو سعودی عرب کے لیے ضروری ہے کہ وہ تیل سے ہٹ کر اپنی معیشت کو متنوع بنانے کے بڑے منصوبوں کو عملی جامہ پہنائے۔
سعودی سفارتکاری خارجہ پالیسی کے دیگر مقاصد کو بھی آگے بڑھاتی ہے۔ عرب زبان کے اخبار 'رسیف 22‘ نے گزشتہ ہفتے ایک مضمون میں لکھا کہ ریاض کی کوششیں سعودی عرب کی سوچی سمجھی تبدیلی کا حصہ ہیں: ''سعودی عرب نے عرب امن اقدام کو بین الاقوامی اہمیت کے ساتھ ایک سیاسی عمل میں تبدیل کر دیا ہے، ایک عرب-اسلامی ووٹنگ بلاک تشکیل دیا ہے، اسے مغرب کے ساتھ توانائی اور سمندری سلامتی کے مذاکرات میں اثر و رسوخ (کے طور پر استعمال کیا ہے) اور شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ جنگ کے بعد کی صورتحال میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے۔
‘‘ کیا سعودی فرانسیسی اقدام کامیاب ہو سکے گا؟یہ کہنا قبل از وقت ہو گا، لیکن علامات امید افزا ہیں۔ اُلرشسن نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ اور کینیڈا دونوں نے فلسطین کو آئندہ مشروط طور پر تسلیم کرنے کے بیانات جاری کیے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی اور فرانسیسی نقطہ نظر اپنا اثر دکھا رہا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اقوام متحدہ کے مزید ارکان پر زور دیا ہے کہ وہ ستمبر میں ہونے والی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل اس اعلامیے کی حمایت کریں۔
عرب نیوز کے ایڈیٹر ان چیف فیصل جے عباس نے لکھا، ''واشنگٹن کے لیے سعودی فرانسیسی سفارتی اقدام امریکی تزویراتی مفادات کے عین مطابق ہے اور یہ دائمی تنازعات سے نکلنے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ اس سے خطے میں استحکام لانے میں مدد مل سکتی ہے اور امریکی فوجی مداخلت کی ضرورت کم ہو سکتی ہے۔‘‘وہ مزید کہتے ہیں، ''یہ اسرائیل کو طویل المدتی سکیورٹی گارنٹیاں بھی فراہم کرتا ہے، اگر وہ اپنے انتہائی دائیں بازو کے دباؤ پر ویسٹ بینک کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے مطالبات سے پیچھے ہٹتا ہے تو۔
‘‘تاہم اسرائیل اور اس کے اتحادی امریکہ کی طرف سے سعودی فرانسیسی سفارتی اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر نے ان کوششوں کو ''حقیقت سے منقطع‘‘ جبکہ ٹرمپ انتظامیہ نے اسے 'پبلسٹی اسٹنٹ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
ادارت: شکور رحیم، مقبول ملک
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دو ریاستی حل سعودی عرب کی اسرائیل کے ہے کہ وہ یہ ہے کہ کے ساتھ کرتا ہے کی جانب اور اس کے لیے
پڑھیں:
نگورنو کاراباخ تنازع: ٹرمپ کی کوششوں سے آرمینیا و آذربائیجان مذاکرات پر آمادہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک اور دیرینہ تنازع حل کرانے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں، اس سلسلے میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ایک اہم ملاقات واشنگٹن میں طے پا گئی ہے۔
غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ سہ فریقی ملاقات وائٹ ہاؤس میں ہوگی جس کی میزبانی صدر ٹرمپ کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو غزہ پر مکمل قبضہ کی کھلی چھوٹ دیدی
آرمینیا کی حکومت نے اس ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وزیراعظم نیکول پشینیان، آذربائیجان کے صدر الہام علیوف اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ باضابطہ ملاقات کریں گے۔
آرمینیائی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ بات چیت خطے میں امن، استحکام اور اقتصادی اشتراک کو فروغ دینے کے لیے کی جا رہی ہے۔ وزیراعظم پشینیان 7 اور 8 اگست کو واشنگٹن کا دورہ کریں گے، جس دوران ان کی صدر ٹرمپ سے دو طرفہ ملاقات بھی طے ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے بھی ان مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ جمعہ کو وائٹ ہاؤس میں یہ ملاقات منعقد ہوگی اور امکان ہے کہ اس میں ایک مجوزہ امن معاہدے کا فریم ورک بھی پیش کیا جائے۔
واضح رہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان کشیدگی کا آغاز 1991 میں اُس وقت ہوا تھا جب آرمینیائی افواج نے عالمی سطح پر آذربائیجان کے تسلیم شدہ علاقے نگورنو کاراباخ پر قبضہ کر لیا تھا۔ تاہم 2020 میں 44 روزہ جنگ کے دوران آذربائیجان نے زیادہ تر علاقہ دوبارہ حاصل کرلیا۔
یہ بھی پڑھیں: کمبوڈیا کا ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کرنے پر غور
بعد ازاں اکتوبر 2023 میں آذربائیجان نے ایک اور فوجی آپریشن شروع کیا، جس کے نتیجے میں نگورنو کاراباخ کے علیحدگی پسندوں نے ہتھیار ڈال دیے، حکومت تحلیل کرنے کا اعلان کیا اور آذربائیجان کے ساتھ الحاق پر آمادگی ظاہر کی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آذربائیجان آرمینیا امریکی صدر دیرینہ تنازع ڈونلڈ ٹرمپ مذاکرات مذاکرات پر آمادہ وی نیوز