سعودی شہری حميدان التركی وطن واپس، 19 برس بعد امریکی جیل سے رہائی
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
سعودی شہری حميدان التركی بالآخر وطن واپس پہنچ گئے جو تقریباً 2 دہائیوں پر محیط قانونی اور سفارتی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ ان کی واپسی ایک ایسی کہانی کا اختتام ہے جو برسوں تک نہ صرف سعودی عوام بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ کا مرکز بنی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں تعلیمی نظام میں بڑی تبدیلی، 2 سیمسٹر کا ماڈل دوبارہ نافذ العمل
حميدان التركی کو سنہ 2006 میں امریکی ریاست کولوراڈو میں اپنی انڈونیشی گھریلو ملازمہ کے ساتھ مبینہ بدسلوکی اور غیرقانونی حراست کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ اسی برس اگست میں عدالت نے انہیں 28 برس قید کی سزا سنائی اور وہ ریاست کولوراڈو کی جیل (لايمن) میں قید رہے جہاں سے ان کی رہائی 19 سال بعد ممکن ہو سکی۔
یہ کیس وقت کے ساتھ ساتھ میڈیا، انسانی حقوق کے حلقوں اور عوامی سطح پر نمایاں ہوتا گیا، خصوصا جب حميدان الترکی نے اپنی بے گناہی پر اصرار کرتے ہوئے اسے 11 ستمبر کے بعد مسلمانوں کے خلاف تعصب سے تعبیر کیا۔ ان کے وکلا اور اہل خانہ کی جانب سے مسلسل قانونی پیروی کی گئی یہاں تک کہ رواں برس مئی میں کولوراڈو کی عدالت نے بالآخر انہیں الزامات سے بری کر دیا۔
سعودی سفارت خانے کے قانونی نمائندے کی موجودگی میں فیصلہ سنایا گیا اور عدالت نے کیس بند کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا۔ 3 ماہ بعد، وہ امریکا سے روانہ ہو کر سعودی عرب پہنچے جہاں ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا گیا۔
: سعودی عرب کی جانب سے پرتگال کے فلسطین کو تسلیم کرنے کی تیاری کا خیر مقدممزید پڑھیے
حميدان التركی کی عمر اب 56 برس ہے اور ان کا وطن واپسی کا سفر ان تمام افراد کے لیے امید کی علامت ہے جو قانون وانصاف کے حصول کے لیے پرعزم ہیں۔ ان کی رہائی ایک طویل اور صبر آزما عدالتی لڑائی کا اختتام اور انسانی جذبے کی فتح کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا انڈونیشیا حمیدان الترکی حمیدان الترکی رہا سعودی عرب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا انڈونیشیا حمیدان الترکی حمیدان الترکی رہا حمیدان الترکی
پڑھیں:
انگلینڈ اور ویلز کی جیلوں میں قید تقریباً 40 ہزار قیدیوں کی رہائی کا انکشاف
جیلوں میں قیدیوں کی بڑھتی تعداد پر قابو پانے اور گنجائش کے پیش نظر دباﺅ کم کرنے کیلئے سرکاری اسکیم کے تحت ستمبر 2024 سے لیکر ابتک انگلینڈ اور ویلز کی جیلوں میں قید تقریباً 40ہزار کے قریب قیدیوں کی رہائی کا انکشاف ہوا ہے۔
وزارت انصاف کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جیلوں سے بھیڑ بھاڑ کو کم کرنے کیلئے ماضی میں لیبر حکومت کی طرف سے اسکیم متعارف کرائی گئی تھی جس کے تحت قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
جیلوں میں قیدیوں کی تعداد پوری ہونے کے بعد حکومت کو مجبوراً نئے قیدیوں کیلئے گنجائش بنانے کی غرض یہ سے فیصلہ کرنا پڑا تھا اس وقت سیکرٹری قانون شبانہ محمود نے موقف اختیار کیا تھا کہ اگر ہم کام کرنے میں ناکام رہے تو ہمیں فوجداری نظام انصاف کے خاتمے تک سامنا کرناپڑ سکتا ہے۔
اس سکیم کے تحت اپنی سزا کا تقریباً چالیس فیصد پورا کرنیوالوں کو رہائی دی جاتی ہے‘ تاہم طے شدہ شرائط پر پورا نہ اترنے والوں کو دوبارہ قید کر لیا جاتا ہے۔
یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ شرائط کی خلاف ورزی پر اپریل سے جون 2025 کے دوران 11ہزار سے زائد قیدیوں کو واپس جیلوں میں بند کیا گیا ہے گزشتہ سال یہ تعداد 10ہزار سے کم تھی۔