بحریہ ٹاؤن کی پراپرٹیز نیلام کرنے کے خلاف اپیلیں سپریم کورٹ آف پاکستان میں سماعت کے لیے مقرر کرلی گئیں۔

ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کل سماعت کرےگا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب راولپنڈی نے بحریہ ٹاؤن کی کمرشل پراپرٹیز کی نیلامی کا آغاز کردیا

ذرائع نے بتایا کہ جسٹس گل حسن اورنگزیب اور جسٹس نعیم افغان پر مشتمل بینچ اپیلوں پر سماعت کرےگا۔

ذرائع کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو سماعت سے آگاہ کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ نیب راولپنڈی نے بحریہ ٹاؤن کی 6 کمرشل پراپرٹیز میں سے 3 جائیدادوں کی نیلامی مکمل کرلی ہے۔

نیب کے اعلامیہ کے مطابق نیلامی کا مقصد عدالتی پلی بارگین کے تحت واجب الادا رقم کی وصولی ہے۔ روبیش مارکی 50 کروڑ 80 لاکھ روپے میں نیلام ہوئی، جو اس کی مقرر کردہ کم از کم قیمت سے 2 کروڑ روپے زیادہ ہے۔

نیب نے بتایا کہ اس نیلامی کے بعد ادائیگی اور ملکیت کی منتقلی کا عمل جاری ہے، اور روبیش مارکی کی رقم نیب کو منتقل کرنے کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کارپوریٹ آفس ون کی 87 کروڑ 60 لاکھ روپے جبکہ کارپوریٹ آفس ٹو کی 88 کروڑ 15 لاکھ روپے کی مشروط بولیاں موصول ہوئیں، جن کی حتمی منظوری ابھی باقی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کے خلاف ملک بھر میں کون سے مقدمات زیر سماعت ہیں؟

نیب نے یہ بھی بتایا کہ باقی تین جائیدادوں کی نیلامی اس لیے مؤخر کردی گئی کیونکہ ان کے لیے مقررہ حد کے مطابق بولیاں نہیں آئیں۔ ان جائیدادوں کی دوبارہ نیلامی آئندہ مقررہ وقت میں کی جائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اپیلیں سماعت کے لیے مقرر بحریہ ٹاؤن پراپرٹیز نیلامی سپریم کورٹ وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اپیلیں سماعت کے لیے مقرر بحریہ ٹاؤن پراپرٹیز نیلامی سپریم کورٹ وی نیوز کے لیے مقرر بحریہ ٹاؤن سپریم کورٹ کی نیلامی کے مطابق

پڑھیں:

عدلیہ بمقابلہ عدلیہ

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 حاضر سروس ججز نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ اس بار معاملہ عجیب ہے۔ ججز خود انصاف مانگنے جا پہنچے ہیں۔

پٹیشن پڑھ کر لگتا ہے جیسے معزز ججز نے اپنی ہی عدالت پر مقدمہ کر دیا ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنچ بناتا ہے، روسٹر جاری کرتا ہے، کیسز ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیج دیتا ہے۔ یہ سب کچھ ان قواعد کے تحت ہونا چاہیے جن پر تمام ججز نے متفقہ طور پر دستخط کیے ہوں، نہ کہ صرف چیف جسٹس کے ذاتی صوابدید پر۔

پٹیشن کا آغاز ہی ایک تلخ اعتراف سے ہوتا ہے:

‘judges are not meant to be litigants… but these are extraordinary times’

یعنی ججز کا فریادی بن جانا ایک غیر معمولی بات ہے۔ لیکن وقت ایسا ہے کہ انصاف بانٹنے والے خود انصاف کے طلبگار ہو گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں قدرتی آفات کا حل

اس درخواست میں معزز ججز کے مطابق مزید انکشاف یہ بھی ہے کہ بعض ججز پر فیصلے بدلنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا، دھمکیاں دی گئیں۔ اور اگر کوئی جج ہٹ دھرمی دکھائے تو پھر انتظامی کارروائی کے ذریعے اس کی کلاس لے لی جاتی ہے۔

مطالبات کی فہرست لمبی ہے مگر بات سیدھی ہے کہ چیف جسٹس کے پاس لامحدود انتظامی اختیار نہ ہو، بنچ اور روسٹر سب ججز کے طے کردہ اصولوں کے مطابق بنیں۔

‘Master of the Roster’ کی دلیل تاریخ کا حصہ ہے، اب اسے بار بار کھود کر نہ نکالا جائے، نئی کمیٹیاں اور پریکٹس رولز غیر آئینی ہیں، انہیں کالعدم کیا جائے۔

یعنی 5ویں معزز ججز کا کہنا ہے کہ اگر گھر کے سربراہ نے سارے دروازوں کی چابیاں اپنی جیب میں رکھ لیں تو باقی مکین آنے یا جانے کے لیے پھر کیا کریں گے؟ کھڑکیاں توڑیں یا پھر دروازے پر دستک دیتے رہیں؟

اب یہ مقدمہ ایسے وقت میں دائر ہوا ہے جب 26ویں آئینی ترمیم کے بعد عدالتی نظام میں تقرریوں اور اختیارات کا نقشہ بدل چکا ہے۔ ججز کی تعیناتی کے نئے اصول، عدالتی کمیٹیوں کے نئے طریقہ کار اور چیف جسٹس کے کردار کی نئی تعریف، سب کچھ اس ترمیم کے بعد سامنے آیا ہے۔ یوں سمجھیے کہ عدالت کا فرنیچر بدل گیا ہے لیکن پرانی دراڑیں وہیں کی وہیں ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ اپنے ہی ادارے کے اندر طاقت کی اس کھینچا تانی پر کھل کر فیصلہ دے گی؟ یا پھر یہ بھی ان معاملات کی طرح فائلوں کے نیچے دب جائے گا جنہیں ’مناسب وقت‘ پر سننے کا وعدہ کر کے ہمیشہ کے لیے مؤخر کر دیا جاتا ہے؟

مزید پڑھیے: پاکستان میں قدرتی آفات یا انسانی غفلت؟

اصل مزہ یہ ہے کہ ججز نے اپنی پٹیشن میں وہ سب کچھ لکھ دیا ہے جو عام لوگ چائے کے ہوٹلوں پر بیٹھ کر کہتے ہیں کہ فیصلوں پر دباؤ ہوتا ہے، پسند اور ناپسند کے مطابق انصاف بٹتا ہے، اور جو جج مزاحمت کرے اس کی شامت آ جاتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس بار یہ بات عدالت کے اندر سے نکلی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ ان 5 ججز کو انصاف دیتی ہے یا نہیں۔ لیکن اگر ججز خود انصاف لینے میں کامیاب نہ ہوئے تو پھر عام آدمی کہاں جائے گا؟ شاید کسی دن وہ بھی سپریم کورٹ کے باہر تختی لگا دے: ’عدلیہ بمقابلہ عدلیہ‘۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اظہر لغاری

ججز انصاف کے متقاضی سپریم کورٹ سپریم کورٹ کے 5 ججز

متعلقہ مضامین

  • صحیح جج مقرر ہوں گے تو ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ تک چیزیں ٹھیک ہوں گی. جسٹس محسن اختر کیانی
  • سپریم کورٹ : بیوی کو عدالت کے اندر قتل کرنے والے شوہر کی سزائے موت کے خلاف اپیل خارج
  • چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے اختیارات کے خلاف 5 ججز کی درخواستیں اعتراضات کی نذر
  • سپر ٹیکس کیس: آرٹیکل 10اے فئیرٹرائل کے حوالے سے ہے، ٹیکس سے اس کا کیا تعلق؟، جج سپریم کورٹ
  • ایس آئی یو کی کارروائی، 3 کروڑ روپے بھتا مانگنے والے 3 ملزمان گرفتار
  • ٹرینوں کی نجکاری کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا، اوپن نیلامی کا اعلان
  • لاہور ہائیکورٹ، مشی پر پابندی کیخلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر
  • خیبر پختونخوا میں شکار پر پابندی، نئے قواعد و ضوابط جاری
  • حوالہ ہنڈی اور غیر قانونی کرنسی ایکسچینج میں ملوث عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن، 494 ملزمان گرفتار
  • عدلیہ بمقابلہ عدلیہ