اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے بیس مبینہ جاسوس گرفتار، ایران کا سخت انتباہ
اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 اگست 2025ء) ایرانی عدلیہ کے ترجمان اصغر جہانگیری نے ہفتے کے روز صحافیوں کو بتایا کہ گرفتار کیے گئے ان افراد پر جاسوسی کے الزامات عائد ہیں اور عدلیہ ان کے ساتھ کسی قسم کی نرمی نہیں برتے گی۔
اصغر جہانگیری نے کہا کہ ان افراد کو عبرت کی علامت بنایا جائے گا تاکہ 'صیہونی حکومت‘ کے لیے کام کرنے والے ایجنٹوں کو واضح پیغام دیا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد مزید تفصیلات منظر عام پر لائی جائیں گی۔اس اعلان سے چند روز قبل، ایران نے ایک جوہری سائنسدان روزبہ وادی کو سزائے موت دی تھی، جن پر اسرائیل کے لیے جاسوسی اور ایک ساتھی سائنسدان کی معلومات فراہم کرنے کا الزام تھا۔
(جاری ہے)
یہ واقعہ جون میں اسرائیل کے فضائی حملوں کے تناظر میں سامنے آیا، جن میں ایران کے جوہری تنصیبات، اعلیٰ جرنیلوں اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
ایرانی ردعمل میں میزائل اور ڈرون حملے شامل تھے، جن کے نتیجے میں اسرائیل کے مطابق 28 افراد ہلاک ہوئے۔دوسری جانب، ایرانی انسانی حقوق گروپ HRANA کے مطابق 12 روز جاری رہنے والے اسرائیلی حملوں میں 1,190 ایرانی شہری مارے گئے، جن میں 436 عام شہری اور 435 سکیورٹی اہلکار شامل تھے۔
ایران میں اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں سزائے موت پانے والوںکی تعداد میں حالیہ مہینوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
یاد رہے کہ جون میں اسرائیل کے فضائی حملوں میں ایران کے کم از کم 12 جوہری سائنسدان ہلاک ہوئے تھے، جس کے فوری بعد ایران نے موساد سے منسلک یا مشتبہ افراد کے خلاف ایک بڑے آپریشن کا آغاز کیا۔ اس کارروائی میں متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا، جن پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کا الزام ہے۔ایرانی عدلیہ کے مطابق، ان افراد میں سے کئی کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ ایران نے واضح کیا ہے کہ وہ 'صیہونی حکومت‘ کے ایجنٹوں کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتے گا اور انہیں عبرت کا نشان بنایا جائے گا۔
یہ کارروائی ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری خفیہ جنگ اور جوہری تنازع کے تناظر میں ایک اہم پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔
ادارت: افسر اعوان/ شکور رحیم
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں اسرائیل کے کے لیے
پڑھیں:
نیتن یاہو کا غزہ پر قبضے سے متعلق بڑا بیان سامنے آگیا
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل غزہ پر قبضہ کرنے نہیں جا رہا، بلکہ اسے حماس سے آزاد کرانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
نیتن یاہو کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب گزشتہ روز اسرائیلی کابینہ نے غزہ پر کنٹرول کی تجویز کو منظوری دے دی تھی، جس پر کئی مغربی ممالک نے اختلاف کیا تھا۔
آسٹریلیا، جرمنی، اٹلی، نیوزی لینڈ اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ کے مشترکہ بیان میں اسرائیل کے ممکنہ فوجی آپریشن کو مسترد کرتے ہوئے فلسطین کے لیے دو ریاستی حل پر زور دیا گیا تھا۔ ان ممالک نے واضح کیا کہ وہ اس خطے میں پائیدار امن کے لیے پرعزم ہیں۔
دوسری جانب فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسرائیلی کابینہ کے فیصلے کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی تھی۔ حماس کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیل کو اس مہم کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور غزہ پر قبضہ کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔
نیتن یاہو نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ غزہ کو غیر مسلح کر کے ایک پرامن شہری انتظامیہ قائم کی جائے گی، جس میں فلسطینی اتھارٹی، حماس یا کسی دہشت گرد تنظیم کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی میں مددگار ثابت ہوگا۔
یہ بیان اس تنازعے کے حل کے حوالے سے اسرائیل کی طرف سے ایک نئی حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے، جسے بین الاقوامی سطح پر مختلف رد عمل کا سامنا ہے۔ جہاں ایک طرف مغربی ممالک دو ریاستی حل کی بات کر رہے ہیں، وہیں اسرائیل اپنی شرائط پر غزہ کی انتظامیہ کو تبدیل کرنے پر زور دے رہا ہے۔