گورننس کا بحران اور ممکنہ حل
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
پاکستان میں ایک سنگین مسئلہ گڈ گورننس کے بحران کا ہے۔ ہر حکومت نے حالات کی تبدیلی کے بجائے اس کے بگاڑ میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ 18ویں ترمیم کے نتیجے میں صوبائی حکومتوں کو خود مختاری اور ماضی کے مقابلے میں زیادہ انتظامی، سیاسی اور مالی اختیارات کے حصول کے بعد گورننس سے جڑے مسائل کے حل کی ذمے داری بھی صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔
صوبوں نے مقامی سطح پر ایک مضبوط نظام کی بنیاد رکھنی تھی ۔ ایک مضبوط اور خود مختار سیلف گورننس یعنی مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط بنانا تھا۔ مگر صوبائی حکومتوں نے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے تحت ضلعوں اور تحصیل سمیت یونین کونسل کی مضبوط خود مختاری کو اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنانے سے گریز کیا۔صوبائی حکومتوں نے مرکزیت کو بنیاد بناکر عدم مرکزیت یعنی اختیارات کی سیاسی ،انتظامی اور مالی تقسیم سے گریز کی پالیسی کو اختیار کیا ہوا ہے۔
ایک طرف صوبائی حکومتوں کی مقامی حکومتوں کے نظام کی مضبوطی سے انحراف کی پالیسی، صوبائی سطح پر اختیارات کو محدود کرنا سمیت صوبائی مضبوط بیوروکریسی اچھی حکمرانی کے نظام میں رکاوٹ ہے۔
دوسری طرف وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ، مخصوص شہروں تک ترقی کو محدود کرنا ،دیہی اور شہری ترقی میں عدم توازن اور محرومی یا تفریق کی سیاست، چھوٹے اور بڑے شہروں پر متضاد پالیسی ، چھوٹے شہروں سے بڑی تعداد میں افراد کی بڑے شہروں میں آمد یا آبادی کا پھیلاؤ، شہروں اور چھوٹے علاقوں کی ترقی کے ماسٹرز پلان پر توجہ نہ دینا،ترقی کے بارے میں لانگ ٹرم ،مڈٹرم اور شارٹ ٹرم منصوبہ بندی کا فقدان، بے ہنگم اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے ترقی کے پروگرامز،کڑی نگرانی ،جوابدہی اور شفافیت سمیت احتساب کا فقدان ،بے ہنگم ٹریفک، ناجائز تجاوزات اور تعمیر،ماحولیاتی اور گورننس کے مسائل نے لوگوں کی زندگیوں کو اور زیادہ تکلیف دہ بنا دیا ہے۔
اس وقت دیکھیں تو تمام صوبائی حکومتیں سیاسی وابستگی سے ہٹ کرگورننس کے مسائل کے حل میں ناکامی سے دوچار ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر لوگ موجود حکمرانی کے نظام سے نالاں ہیں۔کیونکہ لوگوں کے بنیادی نوعیت کے مسائل حل نہیں ہو رہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ صوبائی حکومتوں کی پالیسیاں عوام دشمن ہیں یا ان میں گورننس کے نظام کو چلانے کی صلاحیت ہی موجود نہیں ہے۔
اگر ہم نے گورننس کے نظام میں شفافیت پیدا کرنی ہے تو اس نظام میں لوگوں کی زیادہ سے زیادہ مقامی یا کمیونٹی کی سطح پر عملی شراکت یقینی بنانا ہے ۔لیکن ہمارا گورننس کا نظام مقامی سطح پر لوگوں کو حق حکمرانی یا نمایندگی دینے کے بجائے یا تو طاقت کو اپنی ذات تک محدود کرنا چاہتے ہیں یا بیوروکریسی کا نظام پر بڑھتا ہوا کنٹرول مقامی لوگوں کی شراکت کو روکنے کا سبب بنتا ہے لیکن یہ ہی مضبوط بنیاد پر قائم بیوروکریسی نظام حکومت کی ناکامی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور جب بھی ان کے اختیارات یا ان کے مفادات میں تبدیلی کی بات کی جاتی ہے تو یہ نظام کی تبدیلی میں ایک بڑی رکاوٹ اور مضبوط دیوار بن جاتے ہیں۔اسی طرح ارکان اسمبلی جو مختلف سیاسی وابستگی رکھتے ہیں ان کی سیاسی اور ترقی کی ترجیحات میں بہت زیادہ عدم شفافیت ہوتی ہے اور ایسے بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ مقامی ترقی میں ارکان اسمبلی کو بھی شامل نہیں کیا جاتا ۔
صوبائی حکومتیں غربت کے خاتمے ، خوراک کا بحران ، روزگار پیدا کرنا ، محروم اور کمزور طبقات کے مفادات کو اہمیت دینا،تعلیم اور صحت سمیت بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی،انصاف کے نظام میں شفافیت پیدا کرنے میں کچھ نہیں کرسکیں۔
صوبائی حکومتوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اپنے صوبہ میں ادارہ جاتی عمل کو مستحکم اور شفافیت کی بنیاد پربنیادی اصلاحات پر توجہ دیں مگر ایسے لگتا ہے کہ نظام کی تبدیلی میں یہ ترجیحات حکومتی نظام کا حصہ نہیں ہیں۔تمام صوبائی حکومتوں کی ترقی کا ماڈل لوگوں کی معاشی حیثیت کو تبدیل کرنا کم اور ان کو خیراتی ترقی کے ماڈل میں شامل کرنا زیادہ ہے ۔تعلیم ،صحت، روزگار، پانی ،خوراک کی کمی اور خط غربت میں مسلسل اضافہ کے سرکاری اعداد وشمار کو دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ حکومتی منصوبوں میں انسانی ترقی کے منصوبے کم اور انتظامی یا ترقیاتی ڈھانچوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جو عملی طور لوگوں میں محرومی کی سیاست کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔
بدقسمتی سے ہماری حکومتیں اپنے پہلے سے موجود اداروں کی اصلاح کے بجائے ان پر نئے اداروں کو بنانے کی طرف توجہ دیتی ہیں جو خزانے پر بوجھ کے سوا کچھ نہیں اور یہ ہی عمل مختلف اداروں کے درمیان ٹکراؤ کا سبب بھی بنتا ہے۔اس لیے نئے یا متبادل ادارے بنانے کی حکمت عملی سے ہم گورننس کے نظام میں بہتر تبدیلی نہیں لاسکیں گے۔
اصل میں ہمارا حکمران طبقہ سمجھتا ہے کہ اگر ہم نے اداروں کو مضبوط بنانے کی پالیسی کو اختیار کیا تو اس کے نتیجے میں اہل اقتدار میں موجود ان بڑے بڑے سیاست دانوں کی اہمیت کم ہوتی ہے اور ان کو اداروں کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ اداروں ،آئین اور قانون کی بالادستی یا حکمرانی کا سوال پیچھے رہ جاتا ہے۔یہ جو اداروں کے مقابلے میں شخصی حکمرانی کی سوچ ہے وہ خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے ۔
بنیادی طور پر گورننس کا نظام وہیں اپنے بہتر نتائج دیتا ہے جہاں تمام ریاستی اور حکومتی ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں گے اور دوسرے اداروں میں بے جا مداخلت سے گریز کرکے اداروں کی بالادستی یا رٹ کو مضبوط بنائیں ۔یہ جو ہم ریاستی اور حکومتی نظام کو سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر چلانے کو ترجیح دیتے ہیں اس سے ادارے سیاست کا شکار ہوتے ہیں اورادارے کی تقسیم بھی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے جہاں ادارے قانون کی حکمرانی کے بجائے طاقت ور حکمران طبقات کے ایجنڈے تک خود کو محدود کرلیتے ہیں۔
مختلف ملکی اور عالمی ادارے اپنی اپنی سالانہ رپورٹس میںملک کے گورننس کے نظام پر بنیادی سوالات اٹھاتے ہیں اور ان مسائل پر مختلف سطح کی تجاویز بھی دیتے ہیں۔لیکن حکمران طبقات نے ان رپورٹس اور تجاویز پر اپنی آنکھیں بند رکھی ہوئی ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ملکی سطح پر گورننس کا نظام لوگوں میں بداعتمادی پیدا کرکے اپنی ساکھ ختم کرچکا ہے۔اسی طرح ہم دنیا میں گورننس کے نظام میں ہونے والی بہتری سے بھی کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں ۔اگرچہ یہاں حکمرانی کے نام پر بڑے بڑے دعوے ہیں اور میڈیا سمیت ڈیجیٹل میڈیا پر اس کی بڑی بڑی تشہیر بھی کی جاتی ہے۔ لیکن اس تشہیری مہم سے نہ تو لوگ مطمئن ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے پیٹ بھرتے ہیں۔وسائل کی بندر بانٹ جو کی جاتی ہے اس میں انسانی ترقی کا پہلو بہت کمزور ہے اور حکومتی وسائل یا مواقعوں پر عام آدمی کی رسائی کا پہلو بھی بہت کمزور ہے۔
بنیادی طور پر ہمیں گورننس کی بہتری کے لیے سیاسی،انتظامی، قانونی اور مالیاتی ڈھانچوں میںسخت گیر بنیادوں پر اسٹرکچرل اصلاحات سمیت پورے نظام کی اصلاح میں ایک بڑی سرجری درکار ہے۔لیکن ہمارا حکمرانی کا نظام اس کے لیے تیار نہیں اور ان کی حکمرانی کی سوچ پرانی روائتی سوچ کے گرد گھومتی ہے۔پارلیمنٹ سمیت سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام اس حد تک کمزور ہے کہ عام آدمی سے جڑے مسائل پر بحث اور ان کا حل تلاش کرنا ان کی ترجیحات کا حصہ نہیں ہے یا وہ خود کو اس نظام میں بے بس محسوس کرتے ہیں۔
اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی اپنی سیاسی وابستگی کو نظرانداز کرکے اس ملک کے موجودہ حکمرانی کے نظام کو چیلنج کریں اور سیاسی وقانونی راستے کو بنیاد بنا کر اس نظام کے خلاف اپنی اپنی سطح پر مزاحمت کریں ۔مزاحمت کی بنیاد نظام کی تبدیلی اور شفافیت سے جڑی ہونی چاہیے تاکہ ملک کو بہتری کی طرف لایا جاسکے۔ہمیں اپنی سیاسی قیادت اور اقتدار میں شامل جماعتوں پر دباؤ کی سیاست کو آگے بڑھانا ہوگا اور ان کو قائل کرنا ہوگا کہ موجودہ نظام ہمیں موجودہ حالت میں قبول نہیں ۔ موجودہ نظام اپنی افادیت کھوچکا ہے ۔ اس نظام سے چمٹ کر رہنے سے قومی مسائل حل نہیں ہونگے اور اس کے لیے ہمیں خود اپنے آپ کو بھی تبدیل کرنا ہے اور دوسروں کو بھی ترغیب دینی ہے کہ وہ نظام کی تبدیلی کے عمل میں حصہ لیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صوبائی حکومتوں کی گورننس کے نظام نظام کی تبدیلی کے نظام میں حکمرانی کے گورننس کا کی پالیسی لوگوں کی کی بنیاد کے بجائے کا نظام جاتی ہے ہیں اور ہوتی ہے نظام کو ترقی کے اور ان ہے اور کے لیے
پڑھیں:
اپنے اپنے مفادات کی سیاست
شاہ محمود قریشی نے جیل سے بانی پی ٹی آئی کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ خالی قرار دی گئی نشستوں کو الیکشن میں خالی نہ چھوڑیں بلکہ ان پر پی ٹی آئی کے خواہش مندوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دیں کیوں کہ جبر اور انتقام کے باوجود ہمیں سیاسی میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہیے کیوں کہ الیکشن لڑنا ہی ہمارے سیاسی مفاد میں ہے۔
پی ٹی آئی رہنما اس سے قبل بھی بانی چیئرمین کو متعدد پیغامات بھیج چکے ہیں مگر لگتا ہے کہ سینئر رہنما کی نہیں سنی جا رہی۔ انھیں جیل سے کوئی جواب ملتا ہے اور نہ ہی ان کے شکوؤں پر توجہ دی جاتی ہے اور شاہ محمود قریشی سے کہیں جونیئر رہنما اور موجودہ عہدیداران بھی ان سے ملاقات کرنے آنا نہیں چاہتے اور سب جو سیاست میں نئے اور وکلا ہیں وہ بھی اپنے سینئر رہنماؤں کی کسی بات کو اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی دو سال سے قید پارٹی کے سینئرزسے جیل میں جا کر ملنا بھی پسند نہیں کرتے۔ کیوں کہ پی ٹی آئی کے موجودہ عہدیداروں کی اب پارٹی میں کوئی اہمیت نہیں کہ وہ سینئر رہنماؤں کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ وہ سب پی ٹی آئی سے تعلق کے باعث دو سال سے جیل بھگت رہے ہیں اور کوئی نیا رہنما ان کی رہائی کا بھی مطالبہ نہیں کرتا اور باقی جو صرف بانی چیئرمین کی رہائی کا ہی مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔
ان نئے رہنماؤں کو پارٹی میں کوئی نہیں جانتا اور یہ سب اپنے اپنے سیاسی مفاد کے لیے اور میڈیا میں نظر آنے کے لیے سرگرم رہتے ہیں اور بانی نے بھی مفت وکالت کے لیے انھیں اہم عہدے دے رکھے ہیں جب کہ ان کی پارٹی کے لیے کوئی خدمات نہیں ہیں اور متعدد بانی کی وجہ سے اسمبلیوں میں بھی پہنچ چکے ہیں جن کا اپنا کوئی حلقہ انتخاب تک نہیں ہے مگر بانی کی مفت وکالت ہی ان کی پہچان ہے۔
جن نئے رہنماؤں نے کبھی کونسلر تک کا الیکشن نہیں لڑا آج وہ پارٹی کے کرتا دھرتا بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ آج کی سیاست کا عوام کی خدمت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ آج ہر شخص صرف سیاسی مفاد کے لیے سیاسی پارٹی جوائن کرتا اور مختلف طریقے استعمال کرکے یا پارٹی کو فنڈز دے کر پارٹی قیادت کے سامنے اپنا مقام بناتا جاتا ہے کیونکہ سرمایہ دار ہر پارٹی کی ضرورت ہوتے ہیں اور قیادت بھی ایسے شخص کوپارٹی ٹکٹ دینے پر مجبور ہوتی ہے اور تمام سیاسی پارٹیوں کے سربراہ ایک ہیں اور کسی ایک کا بھی مثالی کردار نہیں ہے کیونکہ ملک میں سیاسی پارٹیاں ہی ایسا کرتی آ رہی ہیں جس کی وجہ سے ہر پارٹی سربراہ مفاد پرستوں کو ہی اہمیت دیتا ہے کیوں کہ پارٹی چلانا ہوتی ہے ‘ بڑے پیمانے پر عطیات دینے والے موجود ہیں۔
پی ٹی آئی ملک کی واحد پارٹی ہے جو 2013 میں صوبائی اور 2018 میں وفاقی اقتدار میں آئی اور اسے بڑا صوبہ فرمائش پر اکثریت نہ ہونے کے باوجود دیا گیا تھا اور پی ٹی آئی میں اکثر لوگ کبھی اقتدار میں نہیں رہے اور نئے رہنما اور دوسری پارٹیوں کے لوگ اقتدار کے لیے ہی شامل ہوئے تھے جب کہ (ن) لیگ اور پی پی تین تین باریاں لے کر اپنوں کو نواز چکی تھیں۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے پہلی بار اقتدار میں آ کر خوب نوازا۔ بیرون ملک سے بھی اپنوں کو بلا کر حکومتی عہدوں سے نوازنے کا نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔
پی ڈی ایم کے ذریعے اپنی آئینی برطرفی کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے بھرپور طور استعمال کیا اور 2024میں پی ڈی ایم کی نفرت میں عوام نے کامیابی بھی دلائی مگر سانحہ 9 مئی اور بانی کے مختلف اور متنازع بیانات اور ہٹ دھرمی کی سیاست انھیں اقتدار سے دور لے جا چکی ہے اور حالیہ سزاؤں اور احتجاجی تحریک میں مسلسل ناکامیوں کے باعث ہی غالباً ضمنی الیکشن میں حصہ لینے سے انکار کیا ہے اور ضمنی الیکشن میں انھیں اپنی پارٹی کی ناکامی نظر آ رہی ہے۔ مفاد پرستوں کے لیے اب پی ٹی آئی میں کشش نظر نہیں آ رہی اور سیاسی مفاد پرستی کے لیے حکومتی پارٹیوں میں ہی جانے کو ترجیح دیں گے۔