اسرائیل نے ہولوکاسٹ کا سبق بھلا کر غزہ پر قبضے کا غیر قانونی منصوبہ بنایا، روسی سفارتکار
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
اقوام متحدہ میں روس کے نائب نمائندے دمتری پولیانسکی نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ شہر پر قبضے کا منصوبہ بنا کر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور ہولوکاسٹ کے عبرت آموز اسباق کو بھول گیا ہے۔
انہوں نے کہا یہ اقدام غزہ کی انسانی صورتحال کو خراب کرے گا اور فلسطین و اسرائیل کے دو ریاستی حل کے امکانات کو تباہ کر دے گا۔ پولیانسکی نے اسرائیلی وزیر خارجہ پر منافقت کا الزام بھی لگایا اور افسوس کا اظہار کیا کہ وہ کیسے یہودی ہیں جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں ہولوکاسٹ کا سامنا کیا، اب فلسطینیوں کو “گیٹو” میں ڈال کر ان کے مکمل خاتمے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: آسٹریلوی وزیراعظم کا نیتن یاہو پر غزہ کے انسانی بحران کا الزام اور شدید تنقید
واضح رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بینیامین نیتن یاہو کی کابینہ نے غزہ پر قبضے کے منصوبے کی منظوری دی ہے جس کا مقصد حماس کو غیر مسلح کرنا، تمام یرغمالیوں کی بازیابی اور غزہ کو غیر عسکری بنانا بتایا گیا ہے۔ نیتن یاہو نے کہا ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد یہ علاقہ غیر معینہ عرب فورسز کو دیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل اقوام متحدہ اقوام متحدہ میں روس دمتری پولیانسکی غزہ ہولوکاسٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل اقوام متحدہ اقوام متحدہ میں روس ہولوکاسٹ
پڑھیں:
امن مسلط کرنے کا منصوبہ
اسلام ٹائمز: اسرائیل کو اس فورس کی موجودگی کے ذریعے تنازعے کے بین الاقوامی ہونے اور اسکے فیصلہ سازی اور کنٹرول کے دائرے کے محدود ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ طے نہیں ہوا ہے کہ کون سے ممالک اس فورس میں حصہ لیں گے، جبکہ عرب ممالک نے اس فورس میں اپنی شرکت کو غزہ میں فورس کے مینڈیٹ کی نوعیت سے جوڑا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جو ممالک شرکت کرینگے، وہ حماس کے ساتھ تصادم کے اصول کی مخالفت کریں گے اور چاہیں گے کہ یہ مشن امن قائم کرنے کے لیے ہونا چاہیئے، نہ کہ "امن مسلط کرنے کے لیے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے چند گھنٹے بعد کہ غزہ میں بہت جلد بین الاقوامی افواج کی تعیناتی کی جائے گی، اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں حماس کی تمام سرنگوں کو "آخری سرنگ تک" تباہ اور ان کا صفایا کر دیں۔ کاٹز نے اپنے X پلیٹ فارم اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ میں کہا: "اگر سرنگیں نہیں ہیں تو حماس نہیں ہوگی۔“ اسرائیل حماس کو غیر مسلح کرکے اور اس کے سرنگوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرکے اسے شکست دینا چاہتا ہے۔ یعنی اسرائیل وہ کام کرنا چاہتا ہے، جو وہ دو سال کی تباہ کن جنگ کے دوران کرنے میں ناکام رہا ہے۔ کاٹز کا یہ بیان غزہ کی پٹی میں ایک "بین الاقوامی انفورسمنٹ فورس" کے قیام کی امریکی تجویز اور ٹرمپ کے اس اعلان کی روشنی میں آیا ہے کہ "یہ کام بہت جلد ہو جائے گا۔"
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اسرائیلی فوج نے معاہدے کے دوسرے مرحلے کے آغاز سے قبل، زیادہ سے زیادہ کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے غزہ کی پٹی میں اپنا کام تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیل دوسرے مرحلے میں جانے سے پہلے غزہ میں باقی تمام لاشوں کی بازیابی پر اصرار کرتا ہے اور 2027ء کے آخر تک غزہ میں کم از کم دو سال کے لیے بین الاقوامی افواج کی تعیناتی بھی چاہتا ہے۔ بین الاقوامی فورس کے اس امریکی منصوبے کے تحت اس فورس کے دائرہء مسئولیت میں اسرائیل اور مصر کے ساتھ غزہ کی سرحدوں کو محفوظ بنانا، شہریوں اور انسانی راہداریوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ایک نئی فلسطینی پولیس فورس کے ساتھ تربیت اور شراکت داری اور غزہ کی پٹی کو غیر مسلح کرکے سلامتی کے ماحول کو مستحکم کرنا، بشمول فوجی انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کو روکنا اور مستقل طور پر مسلح گروپوں کو تباہ کرنا شامل ہے۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر حماس رضاکارانہ طور پر خود کو غیر مسلح نہیں کرتی تو یہ کام بین الاقوامی فورس کرے گی، لیکن اسرائیل کو یقین نہیں ہے کہ یہ کام بین الاقوامی طاقت کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ کاٹز کے بیان سے پہلے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ حماس کو غیر مسلح کرنے کا ہدف "یا تو بین الاقوامی طاقت کے ذریعے آسان طریقے سے حاصل کیا جائے گا، یا پھر اسرائیل کے ذریعے مشکل راستے سے۔" دوسری جانب اسرائیلی سکیورٹی کابینہ کی جمعرات کی شام ہونے والی میٹنگ سے "یڈیوٹ احرونوت" اخبار کی طرف سے شائع ہونے والے اقتباسات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نیتن یاہو غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کے لیے "یلو زون" میں ایک ماڈل سٹی بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جس کا مقصد انہیں حماس کے جنگجوؤں سے الگ کرنا ہے۔
دریں اثناء، اسرائیلی چیف آف اسٹاف ایال ضمیر نے رفح سرنگوں میں پھنسے حماس کے جنگجوؤں کے حوالے سے کسی بھی "ڈیل" کو مسترد کر دیا ہے اور تمام مقتول قیدیوں کی لاشوں کی واپسی سے پہلے حماس کے ساتھ معاہدے کے اگلے مرحلے پر آگے نہ بڑھنے اور حماس کے مکمل طور پر غیر مسلح ہونے سے پہلے پٹی کی تعمیر نو کی اجازت نہ دینے کی سفارش کی ہے۔ ضمیر نے کابینہ کے اجلاس میں حماس کے جنگجوؤں کے حوالے سے کہا: "یا تو وہ ہتھیار ڈال دیں یا ہم انہیں ختم کر دیں گے۔ بحث کے دوران وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور وزراء کے درمیان اس وقت تنازعہ پیدا ہوا، جب انہوں نے غزہ کی پٹی کے اسرائیلی زیر کنٹرول علاقے میں ایک "ماڈل سٹی" قائم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا، جس کا مقصد حماس کو آبادی سے الگ کرنا تھا۔
نیتن یاہو کے اس منصوبے کی اس کی کئی وزراء نے مخالفت کی۔ سائنس کے وزیر گیلا گیملیل نے کہا، "یہ خطرناک ہے۔" وزراء نے مطالبہ کیا کہ اس شہر کو سرحد کے اس طرف اسرائیل کے زیر کنٹرول نہ بنایا جائے۔ نیتن یاہو نے سیشن میں یہ بھی انکشاف کیا کہ منصوبہ بند بین الاقوامی اسٹیبلائزیشن فورس پہلے المواسی کے علاقے میں داخل ہوگی، جو اسرائیلی کنٹرول میں نہیں ہے۔ اسرائیل اب تک عالمی طاقت کے ساتھ محتاط انداز میں نمٹ رہا ہے، نہ اس کا خیرمقدم کر رہا ہے اور نہ ہی اسے مسترد کر رہا ہے۔ اگرچہ مجوزہ فورس کی تشکیل کی تفصیلات اس کے مطالبات کی طرف جھکاؤ رکھتی ہیں، لیکن اس پر تحفظات بھی ہیں۔
اسرائیل نہیں چاہتا کہ یہ فورس سلامتی کونسل کے ذریعے تشکیل دی جائے، وہ فلسطینی اتھارٹی کی موجودگی اور ترک افواج کی ممکنہ موجودگی کو بھی مسترد کرتا ہے، تاہم فلسطینی پولیس فورس کی موجودگی سے اتفاق کرتا ہے۔ اسرائیل کو اس فورس کی موجودگی کے ذریعے تنازعے کے بین الاقوامی ہونے اور اس کے فیصلہ سازی اور کنٹرول کے دائرے کے محدود ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ طے نہیں ہوا ہے کہ کون سے ممالک اس فورس میں حصہ لیں گے، جبکہ عرب ممالک نے اس فورس میں اپنی شرکت کو غزہ میں فورس کے مینڈیٹ کی نوعیت سے جوڑا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جو ممالک شرکت کریں گے، وہ حماس کے ساتھ تصادم کے اصول کی مخالفت کریں گے اور چاہیں گے کہ یہ مشن امن قائم کرنے کے لیے ہونا چاہیئے، نہ کہ "امن مسلط کرنے کے لیے۔