Express News:
2025-08-13@00:50:24 GMT

افواہیں، دریا اور نیا موڑ

اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT

پاکستان کی سیاسی فضا میں افواہوں کا راج کوئی نئی بات نہیں۔ ہماری تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں سرگوشیاں، چہ مگوئیاں اور مبینہ اطلاعات وقت کے ساتھ ساتھ حقیقت کا روپ دھارتی چلی گئیں۔ سیانوں کا قول ہے کہ ہر افواہ کے پیچھے کچھ نہ کچھ سچائی ضرور چھپی ہوتی ہے چاہے وہ سچائی پوری تصویر نہ بھی ہو۔ آج کل بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں،اقتدار کے ایوانوں سے لے کر گلی محلوں تک، چائے خانوں سے لے کر نیوز اسٹوڈیوز تک، ہر جگہ ایک ہی افواہ سنائی دے رہی ہے ،آخر ہونے کیا والا ہے؟

اسلام آباد کی نجی محفلوں میں جاری افواہوں کو سرے سے نظراندازبھی نہیںکیا جا سکتا۔ یہ صرف حکومت کے کیمپ تک محدود نہیں بلکہ اقتدار دینے والے مراکزسے رابطے رکھنے والے بھی محسوس کر رہے ہیں۔ادھر حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات سے یہ اشارہ کہیں نظر نہیں آتا کہ اپوزیشن کے ساتھ کسی بامعنی مکالمے یا مفاہمت کی راہ کھلنے والی ہے۔ تحریکِ انصاف کے صفِ اول کے رہنماؤں اور کارکنوں کو عدالت سے حال ہی میں جوسزائیں سنائی گئی ہیں‘وہ توکچھ اور پیغام دے رہی ہیں ۔

ہماری سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد ہم ایک نئے دوراہے پر آن کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک بحران سے نکلتے ہیں تو دوسرا بحران سامنے منہ کھولے کھڑا ہوتا ہے۔ یہ کیفیت بالکل منیر نیازی مرحوم کے اس شعر کی یاد دلاتی ہے۔

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

منیر نیازی کا یہ شعر ہماری اجتماعی سیاسی کہانی کا عکس ہے۔ ہر بار جب ہمیں لگتا ہے کہ اب حالات سدھر جائیں گے، کوئی نیا طوفان اُمڈ آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کے دکھ درد بیان کرنے کے لیے شاعری کا سہارا لینا اکثر ناگزیر ہو جاتا ہے ۔فی الحال جو افواہیں گردش کر رہی ہیں ان میں سب سے نمایاں آئین میں متوقع ترامیم کا معاملہ ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ تبدیلیاں سیاسی تنازع کو ہوا دے سکتی ہیں خاص طور پر اس وقت جب ملک میں پہلے ہی سیاسی ہم آہنگی ناپید ہے اور دو صوبے امن و امان کے شدید مسائل سے دوچار ہیں۔ ایسے میں اہلِ دانش یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا یہ مناسب وقت ہے کہ کوئی نیا محاذ کھولا جائے؟

دوسری طرف ایک اور تاثر بھی تیزی سے جنم لے رہا ہے یہ کہ ’ہائیبرڈ حکمرانی ‘کا ماڈل مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہا ہے۔ چنانچہ اس سے نجات حاصل کر کے اقتدار ایسے ہاتھوں میں دیا جائے جو یا تو انتخابی سیاست سے آزاد ہوں یا ایسے سیاسی رہنما ہوں جو عوام میں ذاتی حیثیت سے مقبول ہوں لیکن کسی مخصوص جماعتی ڈسپلن کے اسیر نہ ہوں۔ گویا ایک ’ٹیکنوکریٹ پلس ‘طرز کی حکومت کا تصور زیرِ غور ہے ایسی حکومت جس میں سب جماعتوں کی نمایندگی ہو لیکن جماعتی وابستگی فیصلہ کن نہ ہو۔

یہ تجربہ اپنی نوعیت کا نیا ہو گا مگر سوال یہ ہے کہ عوام اس کو کس نظر سے دیکھیں گے؟ پاکستان میں ووٹ زیادہ تر شخصیت اور لیڈرشپ کے نام پر ڈالا جاتا ہے نظریات یا پروگرام کی بنیاد پر نہیں۔ ایسے میں کیا لوگ اس نظام کو قبول کریں گے؟ یا یہ بھی ایک اور’نیا دریا‘ثابت ہو گا جسے عبور کرنے کے بعد ہمیں پھر ایک نئے دریا کا سامنا کرنا پڑے گا؟ادھر یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ ماضی کی طرح ایک نئی ’چارج شیٹ، تیار کی جا رہی ہے جسے مناسب وقت پر عوام کے سامنے رکھا جائے گا۔

اس امکان نے حکومتی صفوں میں بھی اضطراب پیدا کر دیا ہے اور اپوزیشن کے کئی حلقے پرجوش نظر آ رہے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض سیاسی رہنماؤں کی نجی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ڈائیلاگ کے لیے تیار ہیںبس اجازت نہیں مل رہی۔یہ صورتحال ایک بڑے تضاد کی عکاسی کرتی ہے۔ بظاہر ہر کوئی جانتا ہے کہ سیاسی مکالمہ ہی مسائل کا حل ہے مگر عملی طور پر کوئی اس طرف قدم بڑھانے کو تیار نہیں۔ اس دوران عوامی مسائل بدستور جوں کے توں ہیں۔ مہنگائی کی لہر رکنے کا نام نہیں لے رہی، چینی اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور عام آدمی کا جینا محال ہو چکا ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری سیاست ایک بند گلی میں کھڑی ہے جہاں سے نکلنے کا راستہ صرف باہمی اعتماد ، وسیع دل اور طویل المدت وژن کے ذریعے ہی نکل سکتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ سب چیزیں اس وقت ناپید ہیں۔ ہم نے ماضی میں بارہا دیکھا ہے کہ جب سیاسی قوتیں ایک پیج پر آئیں تو ملک نے معاشی اور سماجی سطح پر ترقی کی لیکن یہ دورانیہ ہمیشہ عارضی رہا۔اگر ہم واقعی اس بحران سے نکلنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ماننا ہو گا کہ سیاست میں اختلاف فطری ہے مگر دشمنی زہرِ قاتل۔ اقتدار کے کھیل کو صفر جمع صفر کا کھیل بنانے کے بجائے اسے قومی خدمت کا ذریعہ بنانا ہو گا۔ بصورت دیگر، یہ افواہیں، یہ چہ مگوئیاں، یہ ’نئے دریا‘ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔

اب یہ ہم پر ہے کہ ہم افواہوں کے طوفان میں ڈوبتے ہیں یا بصیرت اور تدبر سے اس کے پار اُترتے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے اگر ہم نے وقت پر درست سمت کا تعین نہ کیا تو شاید آنے والے برسوں میں ہم پھر ایک اور دریا کے سامنے کھڑے ہوں گے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہی ہیں رہا ہے

پڑھیں:

کبھی بھی لوگوں کو بہکانے کے لیے فلمیں نہیں بناؤں گا، جان ابراہم

بالی وڈ کے معروف اداکار جان ابراہم نے نئی فلم ‘تہران’ کی ریلیز سے قبل سنسرشپ اور سیاسی حساسیت کے موضوع پر کھل کر بات کی ہے۔ انہوں نے انڈین فلم انڈسٹری میں تخلیقی آزادی اور ضابطہ کاروں کے درمیان نازک توازن پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ کبھی بھی ایسی فلمیں نہیں بنائیں گے جو لوگوں کو سیاسی طور پر متاثر کرنے کی غرض سے ہوں۔

انڈیا ٹوڈے سے گفتگو میں جان ابراہم نے بتایا کہ ‘تہران’ کو سینما گھروں میں دکھانے کی اجازت ملنا ایک چیلنج تھا، اور انہوں نے وزارت خارجہ کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے فلم کی نمائش کی اجازت دی۔ انہوں نے سنسر بورڈ کی ضرورت کو تسلیم کیا مگر اس کے موجودہ طریقہ کار پر سوال اٹھایا۔

مزید پڑھیں: شاہ رخ خان پہلے ہندوستانی اداکار، جن کے نام سے سونے کا سکہ جاری

جان نے کہا کہ میں نہ دائیں بازو کا ہوں، نہ بائیں، میں سیاسی طور پر باشعور ہوں اور اپنی فلموں میں ایمانداری کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ تجارتی فائدے کے لیے سیاسی یا جارحانہ موضوعات پر مبنی فلمیں بنانے کے حق میں نہیں، بلکہ اپنی تخلیقی شناخت پر قائم رہتے ہیں۔

فلم ‘تہران’ 14 اگست سے زی 5 پر اسٹریم ہوگی اور اسے ارون گوپالان نے ڈائریکٹ کیا ہے۔ جان ابراہم نے اپنی فلمی ذمہ داری اور رسک لینے کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا، کہا کہ بڑا رسک لینا ہی بڑا اثر پیدا کرتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بالی وڈ کے معروف اداکار جان ابراہم فلم 'تہران'

متعلقہ مضامین

  • خیبر پختونخوا میں کرفیو کی افواہیں، بیرسٹر ڈاکٹر سیف کا اہم بیان سامنے آگیا
  • کبھی بھی لوگوں کو بہکانے کے لیے فلمیں نہیں بناؤں گا، جان ابراہم
  • بھارت مغربی دریا پاکستان کیلیے بلا رکاوٹ بہنے دے، عالمی ثالثی عدالت
  • اپنے اپنے مفادات کی سیاست
  • گورننس کا بحران اور ممکنہ حل
  • عوام میں اتنی طاقت ہے کہ بھارت سے اپنے تمام 6 دریا واپس چھین سکیں، بلاول بھٹو زرداری
  • وزیراعظم شہباز کو اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد حاصل، تبدیلی افواہیں بے بنیاد قرار
  • کرکٹر سے ڈیٹنگ کی افواہیں ختم، آشا بھوسلے کی پوتی کا واضح جواب
  • ماضی کی غلطیوں سے سب کو سیکھنا ہوگا