Express News:
2025-11-11@20:26:33 GMT

افواہیں، دریا اور نیا موڑ

اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT

پاکستان کی سیاسی فضا میں افواہوں کا راج کوئی نئی بات نہیں۔ ہماری تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں سرگوشیاں، چہ مگوئیاں اور مبینہ اطلاعات وقت کے ساتھ ساتھ حقیقت کا روپ دھارتی چلی گئیں۔ سیانوں کا قول ہے کہ ہر افواہ کے پیچھے کچھ نہ کچھ سچائی ضرور چھپی ہوتی ہے چاہے وہ سچائی پوری تصویر نہ بھی ہو۔ آج کل بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں،اقتدار کے ایوانوں سے لے کر گلی محلوں تک، چائے خانوں سے لے کر نیوز اسٹوڈیوز تک، ہر جگہ ایک ہی افواہ سنائی دے رہی ہے ،آخر ہونے کیا والا ہے؟

اسلام آباد کی نجی محفلوں میں جاری افواہوں کو سرے سے نظراندازبھی نہیںکیا جا سکتا۔ یہ صرف حکومت کے کیمپ تک محدود نہیں بلکہ اقتدار دینے والے مراکزسے رابطے رکھنے والے بھی محسوس کر رہے ہیں۔ادھر حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات سے یہ اشارہ کہیں نظر نہیں آتا کہ اپوزیشن کے ساتھ کسی بامعنی مکالمے یا مفاہمت کی راہ کھلنے والی ہے۔ تحریکِ انصاف کے صفِ اول کے رہنماؤں اور کارکنوں کو عدالت سے حال ہی میں جوسزائیں سنائی گئی ہیں‘وہ توکچھ اور پیغام دے رہی ہیں ۔

ہماری سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد ہم ایک نئے دوراہے پر آن کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک بحران سے نکلتے ہیں تو دوسرا بحران سامنے منہ کھولے کھڑا ہوتا ہے۔ یہ کیفیت بالکل منیر نیازی مرحوم کے اس شعر کی یاد دلاتی ہے۔

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

منیر نیازی کا یہ شعر ہماری اجتماعی سیاسی کہانی کا عکس ہے۔ ہر بار جب ہمیں لگتا ہے کہ اب حالات سدھر جائیں گے، کوئی نیا طوفان اُمڈ آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کے دکھ درد بیان کرنے کے لیے شاعری کا سہارا لینا اکثر ناگزیر ہو جاتا ہے ۔فی الحال جو افواہیں گردش کر رہی ہیں ان میں سب سے نمایاں آئین میں متوقع ترامیم کا معاملہ ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ تبدیلیاں سیاسی تنازع کو ہوا دے سکتی ہیں خاص طور پر اس وقت جب ملک میں پہلے ہی سیاسی ہم آہنگی ناپید ہے اور دو صوبے امن و امان کے شدید مسائل سے دوچار ہیں۔ ایسے میں اہلِ دانش یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا یہ مناسب وقت ہے کہ کوئی نیا محاذ کھولا جائے؟

دوسری طرف ایک اور تاثر بھی تیزی سے جنم لے رہا ہے یہ کہ ’ہائیبرڈ حکمرانی ‘کا ماڈل مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہا ہے۔ چنانچہ اس سے نجات حاصل کر کے اقتدار ایسے ہاتھوں میں دیا جائے جو یا تو انتخابی سیاست سے آزاد ہوں یا ایسے سیاسی رہنما ہوں جو عوام میں ذاتی حیثیت سے مقبول ہوں لیکن کسی مخصوص جماعتی ڈسپلن کے اسیر نہ ہوں۔ گویا ایک ’ٹیکنوکریٹ پلس ‘طرز کی حکومت کا تصور زیرِ غور ہے ایسی حکومت جس میں سب جماعتوں کی نمایندگی ہو لیکن جماعتی وابستگی فیصلہ کن نہ ہو۔

یہ تجربہ اپنی نوعیت کا نیا ہو گا مگر سوال یہ ہے کہ عوام اس کو کس نظر سے دیکھیں گے؟ پاکستان میں ووٹ زیادہ تر شخصیت اور لیڈرشپ کے نام پر ڈالا جاتا ہے نظریات یا پروگرام کی بنیاد پر نہیں۔ ایسے میں کیا لوگ اس نظام کو قبول کریں گے؟ یا یہ بھی ایک اور’نیا دریا‘ثابت ہو گا جسے عبور کرنے کے بعد ہمیں پھر ایک نئے دریا کا سامنا کرنا پڑے گا؟ادھر یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ ماضی کی طرح ایک نئی ’چارج شیٹ، تیار کی جا رہی ہے جسے مناسب وقت پر عوام کے سامنے رکھا جائے گا۔

اس امکان نے حکومتی صفوں میں بھی اضطراب پیدا کر دیا ہے اور اپوزیشن کے کئی حلقے پرجوش نظر آ رہے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض سیاسی رہنماؤں کی نجی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ڈائیلاگ کے لیے تیار ہیںبس اجازت نہیں مل رہی۔یہ صورتحال ایک بڑے تضاد کی عکاسی کرتی ہے۔ بظاہر ہر کوئی جانتا ہے کہ سیاسی مکالمہ ہی مسائل کا حل ہے مگر عملی طور پر کوئی اس طرف قدم بڑھانے کو تیار نہیں۔ اس دوران عوامی مسائل بدستور جوں کے توں ہیں۔ مہنگائی کی لہر رکنے کا نام نہیں لے رہی، چینی اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور عام آدمی کا جینا محال ہو چکا ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری سیاست ایک بند گلی میں کھڑی ہے جہاں سے نکلنے کا راستہ صرف باہمی اعتماد ، وسیع دل اور طویل المدت وژن کے ذریعے ہی نکل سکتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ سب چیزیں اس وقت ناپید ہیں۔ ہم نے ماضی میں بارہا دیکھا ہے کہ جب سیاسی قوتیں ایک پیج پر آئیں تو ملک نے معاشی اور سماجی سطح پر ترقی کی لیکن یہ دورانیہ ہمیشہ عارضی رہا۔اگر ہم واقعی اس بحران سے نکلنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ماننا ہو گا کہ سیاست میں اختلاف فطری ہے مگر دشمنی زہرِ قاتل۔ اقتدار کے کھیل کو صفر جمع صفر کا کھیل بنانے کے بجائے اسے قومی خدمت کا ذریعہ بنانا ہو گا۔ بصورت دیگر، یہ افواہیں، یہ چہ مگوئیاں، یہ ’نئے دریا‘ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔

اب یہ ہم پر ہے کہ ہم افواہوں کے طوفان میں ڈوبتے ہیں یا بصیرت اور تدبر سے اس کے پار اُترتے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے اگر ہم نے وقت پر درست سمت کا تعین نہ کیا تو شاید آنے والے برسوں میں ہم پھر ایک اور دریا کے سامنے کھڑے ہوں گے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہی ہیں رہا ہے

پڑھیں:

سوڈان کا ماتم: مسلم آبادی پر تباہی، بیرونی مفادات اور مستقبل کا ممکنہ منظرنامہ

اسلام ٹائمز: سوڈان کا المیہ اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ جنگیں ہمیشہ سرحدوں، حکومتوں یا افواج کے درمیان نہیں ہوتیں۔ اصل جنگ انسان کے گھر، رشتوں، روزمرہ زندگی اور امید کے خلاف ہوتی ہے۔ وہ بچے، بوڑھے اور عورتیں جو آج پناہ گاہوں اور خیموں میں زندگیاں گزار رہے ہیں، ان کا مستقبل صرف اسی صورت محفوظ ہوسکتا ہے جب دنیا اس درد کو سننے اور سمجھنے کے ساتھ ساتھ عملی اور مستقل اقدامات کرے۔ سوڈان کا سوال محض سیاسی نہیں، انسانی ہے اور انسانی سوال ہمیشہ فوری جواب مانگتا ہے۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ 

سوڈان اس وقت ایک ایسے انسانی المیے سے گزر رہا ہے جو ہمارے جدید دور کی سب سے تکلیف دہ حقیقتوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ بحران ہے جس نے لاکھوں زندگیاں تباہ کیں، سماجی ڈھانچے کو توڑا، شہروں کو کھنڈرات میں بدل دیا اور ایک پوری نسل کو بے وطنی، بیماری اور بے یقینی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ اپریل 2023ء میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد سے ملک کا نقشہ ہر روز بدل رہا ہے۔ ایک طرف فوج (Sudanese Armed Forces) اور دوسری طرف ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) طاقت کی جنگ لڑ رہی ہیں، جبکہ درمیان میں سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں کا ہو رہا ہے۔

خرطوم، ال فاشر، نیالا، ال اوبیڈ اور دارفور کے وسیع علاقے وہ مقام بن چکے ہیں جہاں زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ بہت مختصر رہ گیا ہے۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی امدادی ادارے اس صورت حال کو عالمی سطح پر "انتہائی سنگین انسانی بحران" قرار دے چکے ہیں۔ اندازہ ہے کہ اب تک کم از کم چالیس ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جبکہ متاثرین اور بے گھر افراد کی مجموعی تعداد ایک کروڑ چالیس لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے گھروں کے اندر بے گھر ہو چکے ہیں اور وہ بھی جو پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ بہت سی ہلاکتیں ایسی بھی ہیں جن کا اندراج ممکن نہیں ہوا کیونکہ جنگ زدہ علاقوں میں رسائی تقریباً ناممکن ہے۔

شمالی دارفور اور ال فاشر کی صورت حال اس بحران کی شدت کو واضح کرتی ہے۔ زامزام اور ابو شُوک جیسے کیمپوں پر حملوں کے دوران سینکڑوں شہری مارے گئے، اور بعض علاقوں میں اجتماعی قبروں کی موجودگی رپورٹ کی گئی ہے۔ ال اوبیڈ میں ایک جنازے پر فائرنگ میں درجنوں لوگ ہلاک ہوئے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ جنگ اب کسی ہدف یا محاذ تک محدود نہیں رہی بلکہ عام شہری زندگی کو براہ راست نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عبادت گاہیں، بازار، اسکول اور اسپتال اب محفوظ جگہیں نہیں رہیں۔

یہ بحران صرف گولی اور بارود کی تباہی تک محدود نہیں۔ ملک میں خوراک، پانی، ادویات اور بجلی کا نظام شدید طور پر متاثر ہوا ہے۔ بہت سے اضلاع میں بچے غذائی قلت اور پانی کی آلودگی کے نتیجے میں ایسی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں جن کا علاج مقامی سطح پر ممکن نہیں۔ اسپتال یا تو تباہ ہو چکے ہیں یا وہاں عملہ اور ادویات موجود نہیں۔ عالمی امدادی اداروں کے مطابق کچھ علاقوں میں قحط جیسی صورت حال جنم لے رہی ہے، اور بچوں کی اموات کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ اس خانہ جنگی کی وجوہات کو محض ایک وقتی سیاسی تنازع یا فوجی بغاوت سمجھنا درست نہیں ہوگا۔ اس کے پیچھے دو بڑے عناصر ہیں: مقامی سیاسی و قبائلی کشمکش، اور علاقائی و عالمی طاقتوں کی مداخلت۔

ایک طرف سوڈان کی ریاستی ساخت دہائیوں سے عدم استحکام کا شکار ہے۔ فوجی حکمرانی اور سول حکومت کے درمیان کشمکش نے ادارہ جاتی نظام کو کمزور کیا۔ سیاسی جماعتیں کمزور رہیں، عدالتی نظام مستقل دباؤ میں رہا، اور معاشی بدحالی نے عوام میں بے چینی کو بڑھایا۔ اس صورت حال میں عسکری دھڑے طاقت کے حصول کے لیے براہ راست میدان میں آگئے۔ RSF کی بنیاد بھی دراصل دارفور کے تنازع کے دوران ایک ملیشیا کے طور پر پڑی جو بعد میں باقاعدہ مسلح قوت میں تبدیل ہوئی۔ جب ریاست اور حکومت طاقت کا منصفانہ نظام نہ قائم کر سکیں تو اس خلا کو ہتھیاروں اور ملیشیوں نے پُر کیا۔

دوسری طرف، بیرونی مفادات اس جنگ کو مزید شدید بناتے ہیں۔ خلیجی ممالک، روس، مصر اور مغرب کے مختلف مفادات سودان کی سیاسی اور عسکری پوزیشن پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ متعدد رپورٹس کے مطابق UAE پر RSF کی مالی اور لاجسٹک مدد کا الزام ہے، جس کے پیچھے لالچ دریائے احمر کی ساحلی رسائی، علاقائی اثر و رسوخ اور سونے کے ذخائر تک پہنچ سے جڑا ہوا ہے۔ روس خصوصاً ویگنر گروپ کے ذریعے سونے کی کانوں تک رسائی، فوجی معاہدوں اور علاقائی سیاسی قوت حاصل کرنے کی کوشش میں رہا ہے۔ ویگنر اور مقامی عسکری گروہوں کے درمیان اسلحے کے بدلے قدرتی وسائل کے سودے کی خبریں کئی بار سامنے آ چکی ہیں۔

مصر اپنے طور پر نیل کے پانی اور سرحدی سلامتی کو اولین ترجیح دیتا ہے، اس لیے وہ عموماً سودانی فوج کی حمایت کے قریب نظر آتا ہے۔ مغربی ممالک بظاہر امن کی کوششوں کا اظہار کرتے ہیں، مگر ان کی سفارتی حکمت عملی میں تضادات پائے جاتے ہیں۔ پابندیاں، تاخیری اقدامات اور بعض اوقات غیر واضح مداخلت نے حالات میں بہتری نہیں لائی۔ یوں یہ جنگ اب ایک مکمل پراکسی تنازع کی شکل اختیار کر چکی ہے جس میں بیرونی طاقتیں اپنے مفادات کے مطابق فریقین کی مدد کرتی ہیں۔ نقصان صرف عوام کا ہو رہا ہے۔

زمینی حقیقت یہ ہے کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کے شواہد سامنے آ چکے ہیں۔ خاص طور پر RSF پر قتل عام، لوٹ مار، نسلی حملوں اور جبری نقل مکانی کے الزامات واضح ہیں۔ لیکن صرف مقامی گروہوں پر ذمہ داری ڈال کر بات ختم نہیں ہو جاتی۔ وہ طاقتیں بھی جوابدہ ہیں جو اس جنگ کو مالی اور عسکری سہارا دے کر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کی سست روی اور غیر مربوط پالیسیوں نے بھی بحران کو کم کرنے کے بجائے بڑھایا ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی ٹھوس اور مشترکہ اقدام نہ کیا تو آنے والے مہینوں اور سالوں میں حالات اور بگڑ سکتے ہیں۔

قحط اور وبائی امراض میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پڑوسی ممالک میں پناہ گزینوں کی تعداد بڑھ کر علاقائی عدم استحکام پیدا کر سکتی ہے۔ مسلح گروہ مستقل طاقت بن کر سامنے آ سکتے ہیں۔ انتہا پسند تنظیمیں بحران کے خلا سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ اس صورت حال میں چند بنیادی اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے انسانی امداد کی محفوظ راہداری یقینی بنانی ہوگی تاکہ خوراک، ادویات اور پناہ گاہیں ان لوگوں تک پہنچ سکیں جن کے پاس بچنے کا کوئی اور راستہ نہیں۔ دوسری بات، فریقین کو بیرونی ہتھیار اور مالی مدد کی فراہمی پر سخت بین الاقوامی پابندیاں ضروری ہیں۔ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اسے ایندھن ملتا رہے گا۔

تیسری بات، مذاکرات کی بحالی اور سیاسی حل کی تشکیل میں غیر جانب دار ثالثوں کا کردار اہم ہوگا۔ صرف بین الاقوامی طاقتیں اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتیں، اس میں علاقائی مسلم اور غیر مسلم ریاستوں کی مشترکہ کوشش شامل ہونا چاہیئے تاکہ سودان کے عوام کے حقیقی نمائندوں کو قرارداد سازی کا حصہ بنایا جائے اور آخر میں، جنگی جرائم کی شفاف تحقیقات اور جوابدہی کے بغیر کوئی مستقل امن ممکن نہیں، انصاف کے بغیر مصالحت صرف وقتی وقفہ ثابت ہوتی ہے۔

سوڈان کا المیہ اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ جنگیں ہمیشہ سرحدوں، حکومتوں یا افواج کے درمیان نہیں ہوتیں۔ اصل جنگ انسان کے گھر، رشتوں، روزمرہ زندگی اور امید کے خلاف ہوتی ہے۔ وہ بچے، بوڑھے اور عورتیں جو آج پناہ گاہوں اور خیموں میں زندگیاں گزار رہے ہیں، ان کا مستقبل صرف اسی صورت محفوظ ہوسکتا ہے جب دنیا اس درد کو سننے اور سمجھنے کے ساتھ ساتھ عملی اور مستقل اقدامات کرے۔ سوڈان کا سوال محض سیاسی نہیں، انسانی ہے اور انسانی سوال ہمیشہ فوری جواب مانگتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  •  چلاس: لینڈسلائیڈنگ سے 6 گاڑیاں دب گئیں، 2 گاڑیاں دریا میں جاگریں
  • چلاس: لینڈسلائیڈنگ کی زد میں آکر 6 گاڑیاں دب گئیں، 2 گاڑیاں دریا میں جاگریں
  • چلاس میں لینڈسلائیڈنگ کے باعث 6 گاڑیاں دب گئیں اور 2 دریا میں جاگریں
  • جیکی چن کی موت کی افواہیں، مداحوں کا سوشل میڈیا پر ردعمل
  • آئمہ بیگ اور زین احمد کی طلاق؟ افواہیں زور پکڑ گئیں
  • معرکہ حق میں کامیابی کے بعد فوج کے انٹرنل اسٹرکچر میں تبدیلی ضروری تھی، رانا ثنا
  • مغربی ایشیا میں مذموم اسرائیلی منصوبوں کے بارے حزب اللہ کا انتباہ
  • آئمہ بیگ اور زین احمد کے درمیان ایک بار پھر علیحدگی کی افواہیں زیرِ گردش
  • ن لیگ اور پی پی کا اصلی چہرہ سامنے آ چکا، چودھری اشفاق
  • سوڈان کا ماتم: مسلم آبادی پر تباہی، بیرونی مفادات اور مستقبل کا ممکنہ منظرنامہ