Express News:
2025-09-19@01:11:17 GMT

ایک اور امتحان…

اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT

عذاب الٰہی کا تو سوچا بھی نہیں جاسکتا، رحمٰن و رحیم پروردگار اس ارض پاک، اس کے مکینوں سمیت پوری امت مسلمہ کو ہر عذاب سے اپنی ستاری میں لپیٹ رکھیں، آمین ثمہ آمین یا رب العالمین۔ ہمارے اعمال کے نتیجے میں اللہ کی طرف سے مسلسل ہمیں تنبیہ مل رہی ہے، پے در پے مشکلات اور امتحانات ہیں ایک مشکل ختم نہیں ہوتی، دوسری آن گھیرتی ہے۔ مگر قوم اور حکمران اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کے لیے تیار نہیں اور رب کو راضی کرنے کا خیال نہیں۔

ابھی قوم شمالی علاقوں بالخصوص خیبرپختونخوا میں آنے والی قیامت صغریٰ کی تباہ کاریوں کے صدمے سے دوچار تھی کہ پنجاب تاریخ کے بدترین سیلاب کی زد میں آگیا۔ 1988کے دوران میں آئی بی اے پنجاب یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا اسی دوران میں نے خوفناک بپھرے راوی، ستلج، چناب کو دیکھا تھا مگر ماہرین کے نزدیک یہ 1988سے بڑا سیلاب اور خوفناک صورتحال ہے۔ اس صورتحال کی وجہ کوئی ہندوستان کی آبی جارحیت، کوئی حکمرانوں کی نااہلی، کوئی لینڈ مافیا کی حرص، کوئی متعلقہ اداروں کی مجرمانہ غفلت گردانتا ہے تو کوئی اسے دریا کنارے پلاٹ خریدنے والوں کی حماقت سمجھ رہا ہے۔

درحقیقت یہ سارے عوامل اس سیلاب کی شدت کا باعث بنے مگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تو یہ بحیثیت قوم ہمارے اعمال اور فطرت سے مسلسل لڑنے کی روش پر یہ فطرت کا انتقام اور اللہ کا امتحان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طوفانی بارشوں کے علاوہ بھارت نے لاکھوں کیوسک پانی چھوڑا تو یہ تینوں اہم دریا بپھر گئے۔ بھارت تو پاکستان کا ازلی دشمن ہے، ذرا سوچیں کہ اگر ہمارے ملک کا کوئی ڈیم بھر جاتا تو کیا ہم پانی نہیں چھوڑتے؟ کیا ہم نے بڑے شہروں اور ہیڈز کو بچانے کے لیے بند بارود سے نہیں اڑائے؟ لہٰذا بھارت کی آبی جارحیت کا رونا بند کرکے اس کا سدباب کریں کب تک ہم اپنی نااہلی کو بھارت کی دشمنی کے پیچھے چھپائیں گے؟

حقیقت یہ ہے سیلابی ریلے دریائے ستلج، راوی اور چناب کے کنارے توڑتے ہوئے اپنی اپنی زمین واہ گزار اور قبضے چھڑانے باہر نکل آئے تو اپنے راستے میں آنے والی ہر شے اور حکومتی ساکھ کو اپنے ساتھ بہا کر لے گئے۔ تادم تحریر متاثرہ علاقوں سے انخلا کا سلسلہ جاری ہے، مسلسل بارشوں کے سلسلے اور بھارت میں حفاظتی بند ٹوٹنے کے بعد صورتحال مزید سنگین ہوگئی، سیالکوٹ، پسرور، نارروال، وزیرآباد، لاہور، شورکوٹ، ملتان اور جنوبی پنجاب میں شدید تباہی مچاتے ہوئے سیلابی ریلے تیزی سے سندھ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ حکومت پنجاب اس غیرمعمولی آبی بحران سے نمٹنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے کیونکہ اس طرح کے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے دہائیوں کی پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ حادثے کے بعد اس سے نپٹنا آسان نہیں ناممکن ہوتا ہے۔

فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن اور پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق صوبے کے اہم دریاؤں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہے، اور کئی مقامات پر پانی نازک یا اس سے بھی اوپر کے درجے کو چھو رہا ہے۔ پنجاب کے نشیبی علاقوں کے لاکھوں رہائشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ غیر معمولی سیلابی ریلوں کو قابو میں رکھنے کے لیے بپھرے ہوئے دریاؤں کے مختلف مقامات پر حفاظتی بندوں میں شگاف ڈالنے کا عمل جاری ہے، یہ حکمتِ عملی ہزاروں ایکڑ زرعی زمین قربان کر کے اہم بیراجوں، پلوں اور بڑے شہری مراکز کو بچانے کے لیے اپنائی گئی۔

گوکہ راوی، چناب اور ستلج میں 1988کے بعد کوئی بڑا سیلاب نہیں آیا لیکن حالیہ سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں نے ایک بات بڑی واضح کردی ہے کہ انسان اپنا راستہ بھول سکتا ہے لیکن دریا اپنا راستہ نہیں بھولا کرتے۔ لاہور کی صرف پہچان نہیں بلکہ لاہور کی جان دریائے راوی1988کے بعد انتظامیہ کی ملی بھگت ، فیکٹریوں کے زہریلے فضلے اور شہر کے گندے پانی کی وجہ سے زہریلا نالہ بن چکا تھا۔ حکومتوں کے آشیر باد اور سرپرستی میں دریائی زمینوں پر قبضے ہوئے یا اونے پونے فروخت کیے گئے جس پر بڑی بڑی سوسائٹیاں بن گئیں، ان سوسائٹیوں کے مالکان نے لوگوں کو سبز باغ دکھائے اور کوڑیوں کے مول لی گئی زمین کے پلاٹس کروڑوں میں فروخت کیے۔

ہر سوسائٹی ہزاروں گھروں پر مشتمل ہے، این او سی دینے والوں کو خدا کا خوف تھا نہ مالکان کو۔ دھڑا دھڑ این او سی ملتے اور پلاٹ فروخت ہوتے رہے، بدقسمت خریداروں کی آنکھوں پر بھی پردے پڑ گئے یا بھول گئے کہ یہ سوسائٹیاں تو دریا کے راستے میں آتی ہیں، سیلاب آئے گا تو سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ انسان تو بھول گئے لیکن دریا اپنا راستہ نہیں بھولا، آج سیلاب آیا تو راستے میں بنی سوسائٹیوں کے مکانوں اور مکینوں کی خون پسینے اور عمر بھر کی کمائی کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔

قومی میڈیا تو خاموش مگر سوشل میڈیا پر سوسائٹی مالکان کے خلاف آواز بلند ہوئی، مالکان نے اپنے بچاؤ کے لیے این او سی دکھانے شروع کردیے مگر اربوں روپے اپنی تجوریوں میں بھرنے والے مالکان بھول گئے کہ وہ کروڑوں روپے رشوت دے کر لیے گئے این او سی عدالتوں اور متعلقہ اداروں کو دکھا کر بچ سکتے ہیں لیکن دریا تمہارے این او سی کو نہیں مانتا ہے نہ یہ حشر کے میدان میں آپ کو بچا سکیں گے۔

چند سال پہلے اس ملک کی عنان اقتدار جب تبدیلی سرکار کے ہاتھوں میں تھی تو ناعاقبت اندیش خان اعظم راوی کنارے کھڑے ہو کر کہتا تھا کہ "راوی ایک گندہ نالہ رہ گیا ہے اسی لیے یہاں لوگ ناجائز تجاوزات کررہے ہیں، میں یہ تجاوزات ختم کرکے ایک عظیم الشان شہر بساؤں گا"۔ اندازہ کیجیے کہ بجائے دریائی زمین قابضین سے واگزار کرانے کے بعد دریا کو واپس کرنے کے موصوف نجی قبضے چھڑا کر سرکاری قبضے کا اعلان بحیثیت وزیراعظم کر رہے تھے مگر کسی نے نہیں بتایا کہ دریائے راوی پر اگر شہر بسایا تو یہ شہر ہندوستان کے رحم وکرم پر ہوگا، وہ جب چاہے گا راوی میں پانی چھوڑ دے گا اور آپ کے خوابوں کے شہر کو ڈبو دے گا۔ ضرور کسی نے بتایا ہوگا مگر ان کی سمجھ میں بات کب آتی ہے مگر آج دریا نے خود سب کو بتا دیا کہ یہ میرا راستہ ہے اس پر جو قبضہ کرے گا اسے بہا کر لے جاؤں گا۔ سیلاب سے پہلے ان سوسائٹیوں میں پلاٹس کے ریٹ کروڑوں تک پہنچ چکے تھے، اب پانی کے ساتھ ساتھ ان کے ریٹ بھی اترتے نظر آئیں گے۔ لوگ اپنے پلاٹ اونے پونے داموں فروخت کریں گے مگر کوئی خریدار نظر نہیں آئے گا۔

تادم تحریرملک بھر میں سیلاب متاثرین کی تعداد کروڑوں تک پہنچ چکی ہے جب کہ20 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ سیکڑوں افراد موت کی آغوش میں جاچکے ہیں، گھر بار، کاروبار، کھیت کھلیان پانی کی نذر ہوچکا ہے۔ سیلاب کی شدت اور تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے سندھ کو سیلاب سے بے گھر ہونے والوں کی تخمینہ رپورٹ پر نظرِ ثانی کرنا پڑگئی ہے، اب اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر 16 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد کو خطرہ لاحق ہے۔ پنجاب میں متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور امدادی سرگرمیاں جاری ہیں، ریاستی ادارے، بالخصوص پاک فوج کے جوان سیلاب میں پھنسے لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے کے لیے تمام تر وسائل استعمال کررہے ہیں۔ الخدمت اور ایدھی جیسی فلاحی تنظیمیں امدادی سرگرمیوں میں پیش پیش ہیں، جمعیت علمائے اسلام کے ذمے داران اور انصار الاسلام کے رضا کار بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

ملک کے عوام کی بے حسی اور بے مروتی دیکھ کر دکھ ہوا۔ پتہ نہیں ہماری معاشرتی قدروں کے زوال کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ پنجاب کے عوام کو صرف اتنا بتاتا چلوں کہ جو آج محفوظ ہیں کل ان کی باری بھی آسکتی ہے۔

کیونکہ اب تو اربن فلڈنگ کی بات ہو رہی ہے اور اسلام آباد میں موسلادار بارشوں نے اربن فلڈنگ کی جھلک دکھا بھی دی اس لیے خدا را ہوش کے ناخن لے کر سیلاب متاثرین کی بحالی اور موسمیاتی تبدیلیوں اور آلودگگی کے خاتمے کے لیے خود میدان میں آئیں یہ صرف حکومت اور چند فلاحی رفاہی اداروں کی بس کی بات نہیں۔ بلا تفریق سابقہ اور موجودہ حکمرانوں نے نئے آبی ذخائر بنانے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جس کا خمیازہ آج قوم بھگت رہی ہے۔ اگر بروقت ضروری آبی ذخائر کی تعمیر پر توجہ دی جاتی تو نہ صرف بارشوں، گلیشئرپگھلنے اور بھارت کے آبی جارحیت سے آنے والے سیلاب کے نقصانات کم بلکہ زمینیں زرخیز، فصلوں کی پیداوار بڑھ جاتی، پوری زرعی شعبے کو ترقی ملتی اور ہم زرعی اجناس درآمد کرنے کے بجائے برآمد کرنے والے ملکوں میں شامل ہوتے، آبپاشی کے ساتھ یہ آبی ذخائر سستی بجلی کی فراہمی کا ذریعہ بھی بنتے اور ناقابل برداشت بجلی کے بلوں سے بھی عوام کی کمر ٹوٹنے سے محفوظ رہتی۔ خدارا ارباب اقتدار و اختیار ان آفتوں سے کچھ تو سبق سیکھیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مقامات پر بہا کر لے سیلاب ا کے لیے رہا ہے نہیں ا رہی ہے کے بعد

پڑھیں:

سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلزپارٹی کو شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی

لاہور ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 16 ستمبر 2025ء ) وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہےکہ سندھ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، اس کے باوجود پیپلز پارٹی وفاق کو بیرون ممالک امداد مانگنے پر فورس کر رہی ہیں۔ عظمیٰ بخاری نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کے لیے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلز پارٹی کو اس بیانیے میں شامل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب اس وقت ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا کر رہا ہے، وزیر اعلیٰ مریم نواز اور پنجاب کی انتظامیہ دن رات سیلاب متاثرین کی بحالی اور ریلیف میں مصروف ہیں۔ الحمدللہ پنجاب حکومت اپنے وسائل سے متاثرین کی ہر ممکن مدد فراہم کر رہی ہے اور وفاق یا کسی دوسری تنظیم سے کسی قسم کی امداد کی طرف نہیں دیکھا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ مریم نواز نے تمام وسائل اور حکومتی مشینری کا رخ متاثرہ علاقوں کی طرف موڑ دیا ہے۔

اس وقت ہمارا فوکس صرف عوامی خدمت ہے، اسی لیے ہم سیاسی تلخیوں کو اتحادی سمجھ کر برداشت کر رہے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پیپلز پارٹی کے جعلی فلسفے اور ناکام تھیوریاں سنیں۔وزیر اطلاعات پنجاب نے کہا کہ منظور چوہدری اور حسن مرتضیٰ اپنے دکھ اور فلسفے بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کو سنائیں۔ سندھ میں سیلاب سے کوئی بڑا جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا، اس کے باوجود پیپلز پارٹی وفاق کو بیرون ملک امداد لینے پر مجبور کر رہی ہے جو غیر سنجیدہ رویہ ہے۔عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور اس کے ہارے ہوئے رہنماؤں کو پہلے سندھ کے عوام کے مسائل کی فکر کرنی چاہیے، جہاں 2022 کے سیلاب متاثرین آج تک امداد کے منتظر ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ن لیگ نے صوبائیت اورڈیم کارڈ کبھی نہیں کھیلا، عظمیٰ بخاری کا شرجیل میمن کے بیان پر ردعمل
  • ن لیگ نے صوبائیت اور ڈیم کارڈ کبھی نہیں کھیلا، عظمیٰ بخاری کا شرجیل میمن کے بیان پر ردعمل
  • حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
  • سیاسی مجبوریوں کے باعث اتحادیوں کو برداشت کر رہے ہیں، عظمیٰ بخاری
  • آخری متاثرہ شخص کو ریلیف دینے تک چین سے نہیں بیٹھوں گی، مریم نواز
  • انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
  • سیاسی بیروزگاری کے رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی‘ پی پی اس بیانیے میں شامل نہ ہو: عظمیٰ بخاری
  • وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلزپارٹی کو شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی؟ عظمی بخاری