خواجہ آصف کو نشان امتیاز دیں یا جرات: کوئی اعتراض نہیں، حنیف عباسی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے کہا ہے کہ ان کا وزیر دفاع خواجہ آصف سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے، خواجہ آصف کو نشان امتیاز دیں یا نشان جرات مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
نجی ٹی وی پروگرام میں وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی سے سوال کیا گیا کہ ان کا وزیر دفاع خواجہ آصف سے کیا اختلاف ہے؟ جواب میں حنیف عباسی نے کہا کہ ان کا خواجہ آصف کے ساتھ کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومتی بینچوں پر بیٹھ کر اپوزیشن جیسی باتیں زیب نہیں دیتیں، حنیف عباسی کی خواجہ آصف پر تنقید
حنیف عباسی نے کہا کہ خواجہ آصف سینئر اور بزرگ سیاستدان ہیں، میں صرف اپنا مؤقف بیان کرتا ہوں، میں بھی اسمبلی میں کھڑے ہو کر روزانہ تقریر کر سکتا ہوں لیکن میں 2، 3 مہینے بعد جب کوئی مسئلہ آتا ہے اس پر بات کرتا ہوں، خواجہ آصف کی جگہ کوئی بھی سینئر یا جونیئر سیاستدان حکومتی بینچز پر بیٹھ کر یہ بات کر رہا ہوتا تو میں یہیں جواب دیتا۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے نظام کو برا بھلا کہہ رہے ہیں جس کا ہم حصہ ہیں اور جس نظام کا ہم 40 سال سے حصہ رہے ہیں، یہ مناسب رویہ نہیں ہے، اگر میرے کسی سے ذاتی اختلافات ہوں گے تو میں اسے پارٹی کے اندر بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کروں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بھی پارٹی سے کئی اختلافات ہوتے ہیں لیکن کبھی کسی نے ہمارے چہرے سے اندازہ نہیں لگایا ہوگا، ان اختلافات کو ہم گھر کے اندر حل کرتے ہیں لیکن یہاں سرعام کپڑے دھونا مناسب نہیں ہے، 40 سال اگر آپ کہتے ہیں کہ پنجاب میں لوکل باڈیز نہیں ہیں تو کیا اب لوکل باڈیز کی کمی وزیراعلیٰ پنجاب پوری نہیں کر رہی؟
یہ بھی پڑھیں: خواجہ آصف سیالکوٹ میں سڑک کی ناقص تعمیر پر بول پڑے، شدید تحفظات کا اظہار
حنیف عباسی نے کہا کہ راولپنڈی کو دیکھیں، راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی دیکھیں، میٹرو دیکھیں، راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی دیکھا ہے، راولپنڈی میں پل بنتے دیکھیں، راولپنڈی میں صفائی کا نظام دیکھیں، ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ دیکھیں، نظام بدلا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کبھی آپ ہائبرڈ نظام کی بات کرتے ہیں اور کبھی اپنے ہی منہ پر طمانچہ مارنے والی بات ہو جاتی ہے، ہم دنیا کو کیا بتا رہے ہیں کہ ہائبرڈ نظام پر ہماری حکومت چل رہی ہے۔ ’آپ ذمہ دار آدمی ہیں، جنگ کے دوران آپ نے کہہ دیا کہ ہم یو ایس اے اور یورپ کے گندے کپڑے دھوتے رہے ہیں یعنی ہم دہشت گردی کو پروان چڑھاتے رہے ہیں، آپ ایک ذمہ دار مقام پر ہوتے ہوئے ایسی باتیں کر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ہم ایک جمہوری نظام کے تحت حکومت چلا رہے ہیں، آپ معرکۂ حق کو انجوائے کریں، پاکستان نے اپنے بہت بڑے دشمن کو شکست دی ہے، آپ اس کو انجوائے کریں، یہ کہ اگر ہم 40 سال کے نظام کی بات کریں جس میں لوکل باڈیز الیکشن نہیں کرواتے، کرپشن ہے اور انکروچمنٹ ہے تو ایسے میں میں بھی کئی مسائل پر بات کر سکتا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: ریلوے نظام میں بہتری کے لیے انقلابی اقدامات جاری ہیں، وزیر ریلوے حنیف عباسی
انہوں نے کہا کہ ہم نے اگر یہ باتیں کرنی ہیں تو اپوزیشن میں جانا چاہیے، اپوزیشن میں یہ باتیں بہت اچھی لگتی ہیں، یعنی اگر حکومت دودھ کی نہریں بھی بہا رہی ہو تو میں اپوزیشن میں کہوں گا یہ دودھ پانی میں ملا ہوا ہے۔
وزیر ریلوے نے کہا کہ زندگی میں کبھی کسی کے کہنے پر تقریر نہیں کی، خواجہ آصف کو نشان امتیاز دیں یا نشان جرات مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news حنیف عباسی خواجہ آصف مسلم لیگ ن ہائبرڈ نظام وزیردفاع وزیرریلوے.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: حنیف عباسی خواجہ ا صف مسلم لیگ ن ہائبرڈ نظام وزیردفاع وزیرریلوے حنیف عباسی نے کہا وزیر ریلوے خواجہ ا صف نے کہا کہ رہے ہیں نہیں ہے بات کر
پڑھیں:
نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی
حمیداللہ بھٹی
ہمارامزاج کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ اگر کچھ عرصہ پُرسکون گزرے تو بے چین ہوجاتے ہیں اور خود ایسی کوششوں میں لگ جاتے ہیں جن سے بے چینی ا ورہیجان کو فروغ ملے اِس کی وجہ عدم برداشت ، رواداری کا فقدان اور نفرت انگیز بیانیہ ہے۔ اگرکوئی بے بنیاد لیکن سنسنی خیزخبر سنائے تو لوگ نہ صرف دلچسپی اورمزے سے سنتے ہیں بلکہ اپنے رفقاکوبھی سنانے میں لذت محسوس کرتے ہیں ۔ایسامزاج بالغ نظر معاشرے کانہیں ہوسکتا ۔مزید یہ کہ ہم سچائی کے متلاشی نہیں رہے سُنی سنائی بات پرفوراََ یقین کرلیتے ہیں۔اِس طرح نفرت انگیز بیانیے کے لیے حالات سازگار ہوئے ہیں اور جھوٹ ہمارے مزاج کاحصہ بن گیاہے۔ ہر کوئی جب چاہے کسی پربھی دشنام طرازی کرنے لگتا ہے اور پھراِسے کارنامہ جان کر فخر سے اپنے رفقاکو بتاتاہے کہ فلاں اہم شخص کو اِس طرح بدنام کیا ہے تعجب یہ کہ سُننے والا بھی حوصلہ شکنی کی بجائے واہ واہ کرتا ہے۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ جھوٹ اورنفرت انگیز بیانیہ رکھنے والے کی حوصلہ شکنی کی جائے لیکن ایسا نہیں ہورہا کیونکہ اکثریت کوسچ سے کوئی غرض نہیںصرف اپنے مزاج کے مطابق سنناہی پسند ہے ۔
ذرائع ابلاغ نے بہت ترقی کرلی ہے اِس لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ حقیقت جاننے میں مشکل پیش نہ آئے مگرذرائع ابلاغ کی ترقی نے حقائق سے آگاہی مشکل کردی ہے۔ ویسے لوگ بھی حقیقت جاننے کی جستجو ہی نہیں کرتے اور جب سے سوشل میڈیا کاظہورہوا ہے یہ توبالکل ہی جھوٹ پر مبنی نفرت انگیز بیانیہ پھیلانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اب جس کا جی چاہتا ہے وہ گلہ پھاڑ کر ہرکسی پر کیچڑ اُچھالنے لگتا ہے کیونکہ تدارک کا کوئی طریقہ کار نہیں۔ لہٰذاسوشل میڈیانے معاشرے کوجھوٹ سُننے اور سنانے کے لیے مادرپدرآزاد کردیاہے ۔یہ سوشل میڈیا کا تعمیری کی بجائے نقصان ہے ۔دنیامیںیہ مقبولیت بڑھانے اور تجارت کے لیے استعمال ہوتا ہے مہذب معاشروں کے لوگ اخلاق اور دلیل سے بات کرتے ہیں اور سچائی جاننے کی جستجو کرتے ہیں اسی لیے ہلچل وہیجان کم ہوتا ہے۔ اگر کوئی من گھڑت اور بے بنیاد واقعات کی تشہیر کرے توجلدہی کوئی سچ سامنے لے آتا ہے اسی لیے نفرت انگیز بیانیے کی گنجائش نہیں اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھی اپنے اطوار کا جائزہ لیں اوربرداشت و رواداری پر مبنی زمہ دارانہ بیانیہ اپنائیں ۔
دنیا میں کوئی ایسا ملک بتا دیں جس کے شہری اپنے ملک کی بجائے سرِعام خودکودوسرے ملک کاکہیں اپنے علاقوں کو ہمسایہ ملک کا حصہ قراردیں ۔اگر کوئی ایسے کسی فعل کامرتکب ہوتونہ صرف اِداروں کامعتوب ہوتا ہے بلکہ عام شہری بھی ایسی حرکت کابُرامناتے اور نفرت کرتے ہیں مگر زرا دل پر ہاتھ رکھ کربتائیں کیا ہمارے یہاں بھی ایسا ہے؟ہرگز نہیں۔یہاں تو قوم پرستی کا لبادہ اوڑھے کچھ لوگ پاک وطن کا شہری کہلوانے سے گریزاں ہیں۔ اِن کی اولاد بھی ایسا ہی نفرت انگیز بیانیہ رکھتی ہے مگر ریاست خاموش ہے ۔اب تو ایسے ہی ایک قوم پرست کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنا دیا گیا ہے ۔اِس کا والد قیامِ پاکستان کا مخالف رہا ۔اِس کی اولاد نے پاکستانی سرزمین پر جنم لیا تعلیم حاصل کی اسی ملک کے وسائل استعمال کیے مگرپاک وطن کی وفادار نہیں بلکہ لسانی اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم کی علمبردارہے ۔یہ امن کے بجائے لڑائو،گھیرائو اور جلائو پر فریفتہ ہے۔ رواداری اور برداشت سے کوئی سروکار نہیں۔ البتہ سچ پر جھوٹ کو ترجیح دینے سے خاص رغبت ہے اسی خاندان کے سربراہ کا قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈربن جاناسمجھ سے بالاتر ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے خاندان اور شخصیات کی حوصلہ شکنی کیوں نہیں کی جاتی؟کیونکہ ایسے چہروں کوعزت و مرتبہ ملنے سے وطن پرستی کی بجائے نفرت انگیز بیانیے کادرس ملتا ہے ۔
اپنے وطن کی ترقی پر شہری خوش ہوتے ہیں مگر ہمارے یہاں ایسا رواج نہیں ہمارے حکمرانوں کوکہیں عزت واہمیت ملے تویہاں رنجیدگی ظاہر کی جاتی ہے لیکن بے عزتی ہونے کواُچھالتے ہوئے سوشل میڈیاپر لوگ جھوم جھوم جاتے ہیں ۔ارے بھئی کوئی ملک اگر ہمارے حکمرانوں کو عزت دیتا ہے تو یہ ایک حکومتی شخص کی نہیں بلکہ پاکستان کی عزت ہے۔ اگر کسی کوسیاسی ،علاقائی ،لسانی یاقومیت کے حوالے سے کوئی مسئلہ ہے تواظہار کے اور بھی کئی طریقے ہیں یہ طریقہ تو کوئی مناسب نہیں کہ ملک کوعزت ملنے پر غمزدہ ہواجائے اور بے عزتی پر خوشی کے شادیانے بجائے جائیں۔
بھارت نے پاک وطن کو نیچا دکھانے اور خطے پر بالادستی ثابت کرنے کے لیے رواں برس چھ سے دس مئی کے دوران جارحیت کاارتکاب کیا جس کاجواب پاک فوج نے دندان شکن دیادشمن کی جارحیت پر موثر،شاندار اور نپے تُلے ردِعمل نے دشمن کو دن میں تارے دکھا دیے بھارت کے جنگی طیارے کچھ اِس طرح گرائے جیسے شکاری شکارکے دوران پرندے گراتا ہے۔ اِس بے مثال کامیابی کو دنیا نے تسلیم کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص ہر اہم تقریب میں خوشی سے تذکرہ کرتا ہے وہی امریکہ جہاں ماضی میںہمارے وزیرِ اعظم کا ٹیلی فون سُننے تک سے اجتناب کیاجاتا تھا اب پاکستان پر فداہے ۔ہمارے حکمرانوں کی عزت افزائی کرتا اور فیلڈمارشل کو پسندیدہ قرار دیتا ہے دنیا کی تینوں بڑی طاقتیں امریکہ ،روس اور چین اِس وقت پاکستان پر مہربان ہیں جس کی وجہ پاک فوج کی مہارت وطاقت ہے تینوں بڑی عالمی طاقتوںکو معلوم ہے کہ پاک فوج میں حیران کردینے والی صلاحیت ہے۔ حرمین شریفین کے تحفظ کی الگ سعادت ملی ہے جبکہ بھارت کی سفارتی تنہائی عیاں ہے مگر یہاں ایسے بھی لوگ ہیں جواب بھی نفرت انگیز بیانیہ رکھتے اور مایوسی کا پہلو تلاش کرلیتے ہیں۔ شاید یہ لوگ چاہتے ہیں ہماری حکومت اور فوج ہر جگہ ماردھاڑ کرے اور بے عزت ہواگر ایسا ہی ہے تویہ وطن پرستی ہر گز نہیں ارے بھئی پاکستان کوبھی ترقی کرنے کا حق ہے تاکہ ہر شہری خوشحال ہو اور دنیا میں عزت وتکریم کاحقدار ٹھہرے۔
شمال مغربی سرحد کی صورتحال پر ہر پاکستانی فکرمند ہے اور چاہتا ہے کہ افغانستان سے دوبدوہونے کی نوبت نہ آئے حکومت اور فوج کی بھی یہی سوچ ہے مگر ڈالرزملنے کی وجہ سے طالبان قیادت پاک وطن کے خلاف بھارت کی پراکسی بن چکے ہیں۔ بار بارسمجھانے اوردہشت گردی کے ثبوت دینے کے باوجود وہ نمک حرامی ترک نہیں کر رہے۔ قطر اور ترکیہ میں ہونے والے مذاکرات بھی اسی وجہ سے ناکام ہوئے۔ اب پاکستان کے پاس ایسا کوئی راستہ نہیں رہا کہ نمک حراموں کو طاقت سے کچل دے لیکن سوشل میڈیا پر ایسے نا ہنجاربھی ہیں جو مشورہ دیتے ہیں کہ پاکستان لڑنے کی بجائے افغانستان سے ہونے والے حملوں کو برداشت کرے کیوں بھئی؟کیوں برداشت کرے؟ جب پاک فوج خود سے آٹھ گُنا بڑے دشمن کو دھول چٹاسکتی ہے توافغانستان کے چند ہزارگوریلا جنگ لڑنے والوں کی کیا حیثیت ؟ کا ش نفرت انگیز بیانیہ رکھنے والے یہ حقیقت سمجھ جائیں اور سیاست پر رواداری اور برداشت کو ترجیح دیں۔ ملک اور اداروں کا ساتھ دیناوطن پرستی ہے جس دن ایسا ہوگیا وہ دن پاکستان کی ترقی ،خوشحالی اور سیاسی استحکام کی بنیاد ثابت ہوگا۔
٭٭٭