سپریم کورٹ فل کورٹ اجلاس کے اعلامیہ میں کیا کہا گیا؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, September 2025 GMT
سپریم کورٹ فُل کورٹ اِجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ کورٹ فیس اور سکیورٹیز میں اضافے کے فیصلے کو فی الحال مؤخر کیا جاتا ہے۔
رولز میکنگ کمیٹی اِس سلسلے میں تمام ججز، بار نمائندوں اور دیگر کے ساتھ مشاورت کے بعد تجاویز دے گی جِن کو فُل کورٹ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: 4 ججوں نے سپریم کورٹ رولز کی سرکولیشن کے ذریعے منظوری غیر قانونی قرار دے دی
اعلامیے کے مطابق سپریم کورٹ کا 156واں فل کورٹ اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے کی۔ سپریم کورٹ کے معزز ججز فل کورٹ اجلاس میں شریک ہوئے۔
چیف جسٹس نے رولز میکنگ کمیٹی کی کوششوں کو سراہا، کمیٹی نے سپریم کورٹ رولز 1980 کے جائزے پر کام کیا، ججز اور وکلا کی رائے سے جامع ڈرافٹ تیار کیا گیا، جسٹس شاہد وحید نے فل کورٹ کو رولز پر بریفنگ دی۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس آدھا گھنٹے بعد اختتام پذیر
فل کورٹ نے تفصیلی غور و خوض کے بعد اتفاق رائے کیا، سپریم کورٹ رولز 2025 کو لِوِنگ ڈاکیومنٹ قرار دیا گیا، رولز کا جائزہ اور ترامیم وقتاً فوقتاً جاری رہیں گی۔
فل کورٹ نے مختلف تجاویز اور مشاورت پر اتفاق کیا، رولز میں ترامیم سے عدالتی فیسوں اور سکیورٹیز میں آسانی ہوگی،کمیٹی نے ججز اور وکلا کی سفارشات کو جامع شکل دی۔
مزید پڑھیں: ایس آر او کا اجرا عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا، سپریم کورٹ
فل کورٹ نے سپریم کورٹ رولز 2025 متفقہ طور پر منظور کیے، چیف جسٹس نے رولز کی تیاری پر کمیٹی کو خراج تحسین پیش کیا، رولز میں ترمیم عدلیہ کے ادارہ جاتی فریم ورک کو مضبوط کرے گی۔
سپریم کورٹ رولز جدید تقاضوں کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ رولز متحرک، جوابدہ اور وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی سپریم کورٹ فل کورٹ اجلاس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: چیف جسٹس پاکستان یحیی آفریدی سپریم کورٹ فل کورٹ اجلاس سپریم کورٹ رولز فل کورٹ اجلاس چیف جسٹس
پڑھیں:
پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔
حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔
حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔