تھائی لینڈ کی سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم تھاکسن شناواترا کو ایک سال قید کی سزا سنادی
اشاعت کی تاریخ: 9th, September 2025 GMT
تھائی لینڈ کی سپریم کورٹ نے ملک کے سابق وزیراعظم اور ارب پتی کاروباری شخصیت تھاکسن شناواترا کو ایک سال جیل کی سزا کاٹنے کا حکم دے دیا ہے، عدالت نے قرار دیا ہے کہ ان کا گزشتہ برس طویل اسپتال میں قیام غیرقانونی تھا اور اس دوران قید کا عرصہ شمار نہیں ہوگا۔
76 سالہ تھاکسن شناواترا تھائی سیاست کا ایک طاقتور اور متنازعہ نام ہیں، جو 2001 سے 2006 تک ملک کے وزیراعظم رہے تاہم فوجی بغاوت کے ذریعے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: تھائی لینڈ کی وزیرِاعظم پیتونگتارن شناواترا کو آئینی عدالت نے معطل کردیا
وہ 15 برس جلاوطنی کے بعد 2023 میں وطن واپس آئے تو انہیں اختیارات کے ناجائز استعمال، کرپشن اور مفادات کے ٹکراؤ کے الزامات پر 8 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
تاہم سزا کے باوجود تھاکسن نے جیل کی کوٹھری نہیں دیکھی، بلکہ انہوں نے اپنی پوری سزا بینکاک کے پولیس جنرل اسپتال میں گزاری۔
ان کا دعویٰ تھا کہ انہیں سینے میں درد، بلڈ پریشر اور آکسیجن کی کمی جیسے مسائل لاحق ہیں۔ بعد ازاں تھائی بادشاہ مہا وجیرالونگکورن نے ان کی سزا کم کرکے ایک سال کردی اور فروری 2024 میں انہیں پیرول پر رہا بھی کردیا گیا۔
اب ایک بار پھر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ اسپتال میں قیام قید کے عرصے کے طور پر شمار نہیں ہوگا اور تھاکسن کو باقی سزا بینکاک ریمانڈ جیل میں کاٹنی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: تھائی لینڈ کی آئینی عدالت نے وزیراعظم کو برطرف کردیا
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ان کی طبی حالت ایسی نہیں تھی جس کے لیے طویل اسپتال میں داخلہ ضروری ہو، بلکہ انہیں او پی ڈی کے ذریعے علاج فراہم کیا جا سکتا تھا۔
بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق جون میں میڈیکل کونسل نے ان دو ڈاکٹروں کی رجسٹریشن معطل کر دی تھی جنہوں نے جھوٹے طبی کاغذات کے ذریعے تھاکسن کو اسپتال میں رکھنے میں سہولت فراہم کی، ایک جیل کے ڈاکٹر کو بھی معیارات پر پورا نہ اترنے پر تنبیہ کی گئی۔
พี่น้องประชาชนที่เคารพ
ด้วยความสำนึกในพระมหากรุณาธิคุณแห่งองค์พระบาทสมเด็จพระเจ้าอยู่หัว ที่ได้พระราชทานอภัยลดโทษจำคุกแก่ผมคงเหลือเวลา 1 ปี นับเป็นพระมหากรุณาที่คุณอย่างหาที่สุดไม่ได้ ต่อทั้งตัวผม และครอบครัว
ผมขอน้อมรับและพร้อมเข้าสู่กระบวนการตามคำพิพากษาในวันนี้…
— Thaksin Shinawatra (@ThaksinLive) September 9, 2025
فیصلے کے بعد تھاکسن شناواترا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کہا ’آج میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ماضی کو بھلا کر آگے کی طرف دیکھوں۔ اگرچہ میں جسمانی آزادی سے محروم ہوں، مگر میرے خیالات آزاد ہیں اور میں اپنی قوم اور عوام کی بھلائی کے لیے سوچتا رہوں گا۔‘
ان کی بیٹی اور سابق وزیراعظم پیتونگتارن شناواترا نے عدالتی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے والد اور خاندان کا حوصلہ بلند ہے اور ان کی جماعت پھوتھائی پارٹی بطور اپوزیشن اپنا سیاسی کردار جاری رکھے گی۔
یہ بھی پڑھیں: مریم نواز شریف کا تھائی لینڈ میں پرتپاک استقبال، شینا وترا خاندان کی شرکت
عدالت کے باہر تھاکسن شناواترا کے حامیوں کی بڑی تعداد جمع تھی۔ ایک خاتون حامی نے روتے ہوئے کہا کہ وہ بہت غمگین ہیں کیونکہ تھاکسن شناواترا کی یونیورسل ہیلتھ کیئر اسکیم نہ ہوتی تو ان کے شوہر کو دل کا آپریشن نصیب نہ ہوتا۔
تھاکس خاندان کو سیاسی دھچکا
تھاکسن شناواترا فیصلے کے دن عدالت میں موجود تھے، جنہیں جیل بھیج دیا گیا ہے، فیصلے کے تقریباً ایک گھنٹہ بعد ایک حکومتی گاڑی انہیں بنکاک ریمانڈ جیل لے گئی۔
یہ فیصلہ شناواترا خاندان کے خلاف 3 عدالتی فیصلوں میں آخری تھا۔ حال ہی میں ان کی بیٹی اور سابق وزیراعظم پیتونگتارن کو بھی ایک لیک آڈیو کال کے باعث آئینی عدالت نے عہدے سے ہٹا دیا۔
تھاکسن گزشتہ 25 برس سے تھائی لینڈ کی سیاست میں ایک بڑی طاقت رہے ہیں۔ ان کی جماعت اور اتحادی تقریباً ہر الیکشن جیتتے رہے، تاہم اسٹیبلشمنٹ، فوج اور عدالتوں نے بار بار ان کی حکومتوں کو ختم کیا۔
یہ بھی پڑھیں: تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا
ان کی بہن ینگ لک شناواترا کو بھی عدالت نے وزارتِ عظمیٰ سے ہٹایا تھا جس کے بعد 2014 میں فوجی حکومت قائم ہوگئی۔
سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ شناواترا خاندان کی سیاسی طاقت اب کمزور پڑ گئی ہے اور ان کا طویل سیاسی غلبہ اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے تھائی لینڈ میں بڑی سیاسی تبدیلی آئی جب پھو تھائی پارٹی کو حکومت سے ہٹا دیا گیا اور انوتن چارنویراکل ملک کے نئے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ وہ تھائی لینڈ کے تیسرے وزیراعظم ہیں جو دو سال میں اقتدار میں آئے ہیں۔ انوتن پہلے وزیر داخلہ رہے اور ملک میں کینابیس (بھنگ) کو قانونی حیثیت دینے کے حامی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news تھائی لینڈ تھاکسن شناواترا جیل سابق وزیراعظم سپریم کورٹ سزا قید.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: تھائی لینڈ جیل سپریم کورٹ تھائی لینڈ کی یہ بھی پڑھیں شناواترا کو اسپتال میں سپریم کورٹ عدالت نے دیا گیا کی سزا
پڑھیں:
وقف قانون پر سپریم کورٹ کی متوازن مداخلت خوش آئند ہے، مسلم راشٹریہ منچ
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں وقف ترمیمی قانون 2025 کے متنازعہ شقوں پر عارضی پابندی عائد کی ہے، جن پر وسیع پیمانے پر اعتراضات سامنے آئے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ وقف ترمیمی قانون 2025 پر سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے نے سیاسی اور سماجی حلقوں میں وسیع بحث کو جنم دیا ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ (ایم آر ایم) نے اس حکم کا گرم جوشی سے خیرمقدم کیا اور اسے ملک اور معاشرے کے مفاد میں ایک متوازن اور تاریخی فیصلہ قرار دیا۔ فورم کے قومی رابطہ کار شاہد سعید اور خواتین ونگ کی قومی سربراہ ڈاکٹر شالینی علی نے اسے ایسا اقدام قرار دیا جو ملک میں بھائی چارہ، اتحاد اور منصفانہ ماحول کو مزید مضبوط کرے گا۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں وقف ترمیمی قانون 2025 کے متنازعہ شقوں پر عارضی پابندی عائد کی ہے، جن پر وسیع پیمانے پر اعتراضات سامنے آئے تھے۔ ان میں مسلمانوں کے لئے اسلام کی پانچ سال تک پیروی کی شرط، کلکٹر کو وقف کی جائیدادوں کے تعین کا اختیار اور وقف کی جائیدادوں سے متعلق فیصلے کرنے کی انتظامی طاقت شامل ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ان شقوں پر تفصیلی سماعت کے بعد ہی حتمی فیصلہ ہوگا۔
ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ قانون کو مکمل طور پر منسوخ کرنے کا کوئی جواز نہیں، یعنی باقی قانون لاگو رہے گا جب کہ متنازعہ شقوں پر عدالت حتمی فیصلہ سنائے گی۔ مسلم راشٹریہ منچ کے قومی رابطہ کار شاہد سعید نے سپریم کورٹ کے حکم کو ہر طبقے کے لئے قابل احترام اور قابل قبول قرار دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ قومی اتحاد اور سالمیت کو مزید مضبوط کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ متوازن اور دل کو سکون دینے والا ہے، اس نے مسلمانوں میں پیدا شدہ الجھن کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ عدالت نے دونوں جانب سے دلائل سننے کے بعد ریلیف دیا، جس سے یہ یقین مضبوط ہوتا ہے کہ عدلیہ عوامی مسائل کو سنجیدگی سے لیتی ہے اور غیر جانبدارانہ فیصلے کرتی ہے، یہ حکم بھارت کی جمہوری روایت کو مکمل طور پر مضبوط کرتا ہے۔
مسلم راشٹریہ منچ کے خواتین ونگ کی قومی سربراہ ڈاکٹر شالینی علی نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالتی غیر جانبداری اور بھارتی جمہوریت کی مضبوطی کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ثابت کر دیا ہے کہ عدلیہ نہ صرف غیر جانبدار ہے بلکہ ہر طبقے، ہر کمیونٹی اور ہر حصے کے جذبات کا مکمل احترام بھی کرتی ہے۔ اس حکم نے نہ صرف وقف ترمیمی قانون سے متعلق شبہات دور کیے ہیں بلکہ مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والی الجھن کو بھی ختم کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ معاشرتی ہم آہنگی، بھائی چارہ اور ہم نصابی تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ اس کا دل سے خیرمقدم کرتا ہے۔
مسلم راشٹریہ منچ نے اس حکم کو بھارتی آئین میں درج بنیادی حقوق سے منسلک کیا۔ تنظیم کے مطابق یہ فیصلہ آرٹیکل 14 (برابری کا حق)، آرٹیکل 25 (مذہبی آزادی) اور آرٹیکل 300A (جائیداد کا حق) کی عملی تشریح کی نمائندگی کرتا ہے۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ بھارت میں کسی مخصوص مذہب پر من مانے پابندیاں عائد نہیں کی جا سکتیں اور نہ ہی حکومت انتظامی طاقت کے ذریعے جائیداد کے حقوق کو محدود کر سکتی ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ کا ماننا ہے کہ یہ حکم صرف ایک تکنیکی قانونی معاملہ نہیں بلکہ سماجی انصاف اور آئینی اخلاقیات کی بحالی ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد اصل چیلنج یہ ہے کہ وقف کی جائیدادوں کا فائدہ صحیح مستحقین تک پہنچے۔