اے آئی چیٹ بوٹس: مسیحا یا سراب؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT
عصرِ حاضر میں مصنوعی ذہانت (AI) نے ہماری زندگی کے ہر شعبے کو نئی جہتیں دی ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں بھی، یہ ایک انقلابی ٹول کے طور پر ابھری ہے، جہاں اے آئی چیٹ بوٹس نے ذہنی صحت اور ابتدائی طبی مشورے کے لیے ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔
یہ چیٹ بوٹس، جو چوبیس گھنٹے دستیاب رہتے ہیں اور جن سے بات کرنا نہایت آسان ہے، لوگوں کے لیے ایک ایسا متبادل پیش کرتے ہیں جو کسی بھی وقت، کہیں بھی مدد فراہم کرسکتا ہے۔ لیکن کیا یہ ٹیکنالوجی واقعی اتنی مؤثر ہے جتنی نظر آتی ہے؟ اور کیا یہ انسان کی وہ گہری ہمدردی اور بصیرت فراہم کرسکتی ہے جو ایک ماہرِ نفسیات یا ڈاکٹر کے پاس ہوتی ہے؟
اس سوال کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ تیزی سے اپنی پریشانیوں، ذہنی دباؤ اور جسمانی علامات کے بارے میں بات کرنے کےلیے ان چیٹ بوٹس کا استعمال کر رہے ہیں۔
نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن کے 21 دسمبر 2023 کے شمارے میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مضمون بعنوان "Generative AI in Clinical Practice" میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ اے آئی ماڈلز خاص طور پر ذہنی صحت کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے میں انتہائی کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ چیٹ بوٹس ابتدائی معلومات فراہم کرسکتے ہیں اور لوگوں کو اس قابل بنا سکتے ہیں کہ وہ اپنے مسائل کو تسلیم کریں اور ان پر بات کریں۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں ذہنی صحت کے مسائل کو عام طور پر چھپایا جاتا ہے، یہ ایک خوش آئند قدم ہے۔ تاہم ماہرینِ صحت اس کے محدود استعمال پر زور دیتے ہیں۔
امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن (APA) نے 27 فروری 2024 کو ایک پالیسی بیان جاری کیا جس میں یہ واضح کیا گیا کہ مصنوعی ذہانت انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتی۔ APA کے ماہرین کے مطابق، انسانی جذباتی ذہانت، ہمدردی اور کسی کے الفاظ کے پیچھے چھپے ہوئے احساسات کو سمجھنے کی صلاحیت اے آئی میں موجود نہیں۔
ایک حقیقی معالج نہ صرف مریض کے الفاظ پر توجہ دیتا ہے بلکہ اس کے لہجے، خاموشی اور جسمانی زبان کو بھی سمجھتا ہے، جو کسی بھی چیٹ باٹ کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ایک چیٹ باٹ صرف وہی جواب دیتا ہے جو اس کے ڈیٹا بیس میں موجود ہوتا ہے، جبکہ ایک معالج ہر فرد کی منفرد صورتحال کے مطابق ایک نیا، ذاتی اور مناسب حل تلاش کرتا ہے۔
ایک اور سنگین مسئلہ غلط اور غیر تصدیق شدہ معلومات کا ہے۔ جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن (JAMA) میں 14 مئی 2024 کو شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ بعض اوقات یہ چیٹ بوٹس ایسی معلومات یا مشورے فراہم کر دیتے ہیں جو کسی فرد کی طبی حالت کے لیے مناسب نہیں ہوتے، اور بعض اوقات خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح، JAMA نیٹ ورک اوپن، کے 15 جولائی 2024 کے شمارے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ مریضوں کا ذاتی اور حساس طبی ڈیٹا ان چیٹ بوٹس کے ذریعے غیر محفوظ طریقے سے استعمال ہو سکتا ہے، جس سے ڈیٹا کی رازداری اور حفاظت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ JAMA نیٹ ورک اوپن کوئی عام ویب سائٹ نہیں، بلکہ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن (AMA) کا ایک معتبر اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اوپن ایکسیس جریدہ ہے جہاں ہر تحقیق اشاعت سے قبل اسی شعبے کے دیگر ماہرین کی سخت جانچ پڑتال سے گزرتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی تمام معلومات قابلِ اعتبار ہوتی ہیں۔
اگرچہ اے آئی چیٹ بوٹس کو صحت کے مشورے کےلیے ایک ابتدائی آلہ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ کسی بھی صورت میں انسانی ماہرین کا متبادل نہیں ہیں۔ ماہرین کی واضح رائے ہے کہ اے آئی کا استعمال صرف ایک ضمنی ٹول کے طور پر ہونا چاہیے جو حقیقی معالج کی نگرانی اور رہنمائی میں کام کرے۔ یہ ٹیکنالوجی صرف اس وقت محفوظ ہے جب اس کی حدود کا احترام کیا جائے اور اسے صرف ایک معلوماتی ذریعہ سمجھا جائے، نہ کہ حتمی علاج۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ صحت اور نفسیات کا تعلق صرف معلومات کے تبادلے سے نہیں، بلکہ انسانی ہمدردی، اعتماد اور پیشہ ورانہ مہارت سے ہے۔ ہمیں ٹیکنالوجی کی سہولیات سے فائدہ اٹھانا چاہیے، لیکن ہمیں اس حقیقت کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ انسانی صحت ایک ایسا قیمتی معاملہ ہے جس پر کسی بھی صورت میں سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیٹ بوٹس سکتے ہیں کسی بھی کے لیے اے آئی
پڑھیں:
قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
مہذّب ملکوں میں آئین کو سپریم لاء کی حیثیّت حاصل ہوتی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کو اس ملک میں سب سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ آئین ہی مختلف اکائیوں کو ملاکر، ریاست کی تشکیل کرتا ہے اور آئین ہی طرزِ حکمرانی کے بارے میں راہنما اصول فراہم کرتا ہے۔
آئین ہی کو قومی اتحادکی بنیاد اور ضمانت سمجھا جاتا ہے۔مہذّب معاشروں میں آئین کو پامال کرنا ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتاہے۔ اس کو محض آئین شکنی ہی کہہ لیں تو بھی جرم کی سنگینی برقرار رہتی ہے۔جمہوری معاشروں میں آئین شکنی کو بغاوت کی طرح سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آئین توڑنے والے سزاسے بچتے رہے اس لیے قانون شکنی کو فروغ ملا اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوسکی۔
دوست ممالک کے سفارتکار کسی تقریب میں ملیں تو حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ’’ آپ عجیب قوم ہیں جہاں ٹی وی پر وزراء کھلم کھلا ہائبرڈ نظام کی تعریف و تحسین کرتے ہیں۔ کسی ایسے نظام کی تعریف صرف وہ دسترخوانی ٹولہ ہی کرسکتا ہے جو اس نظام کے دسترخوان پر بیٹھا، اس کی برکات سے پوری طرح مستفیض ہورہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین کو جاہل یا بھیڑ بکریاں سمجھ کر فسطائیت کو ایک بہتر آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے خطرناک اثرات اور نتائج سے عوام کو جان بوجھ کر بے خبر رکھتے ہیں۔
کیا وہ نہیں جانتے کہ جدید ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ۔ میڈیا کو بھی چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ ایک مہذّب معاشرے کی نشوونما کے لیے عوام کی منتخب پارلیمنٹ، طاقتور عدلیہ ، آزاد میڈیا، باضمیر انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر آمریّت ان سب کی نفی کرتی ہے۔ ڈکٹیٹروں کو اپنے غیر آئینی اقدام پر قانونی مہر لگوانے کے لیے تابعدار عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پارلیمنٹ کے بعد سب سے پہلے عدلیہ کو قابو کیا جاتا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو حکومت، وزیرِاعظم یا صدر اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں کرسکتا۔ انھیں صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی عہدے سے برخاست کرسکتی ہے مگر ڈکٹیٹروں نے جج صاحبان کو ہٹانے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کرلیا، وہ اپنے وفادار اٹارنی جنرل یا وزیرِ قانون کے ذریعے معلوم کرتے ہیں کہ کون سے جج فرمانبردار ہیں اور کون سے جج ایسے ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈّی مضبوط ہے، اگر باضمیر جج کافی تعداد میں نظر آئیں تو پھر شریف الدّین پیرزادوں کے مشورے پر PCO کے نام سے ایک نیا آئین نافذ کردیا جاتا ہے۔
جج صاحبان کو پابند کیاجاتا ہے کہ وہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھائیں یا پھر گھر جائیں۔ جب جنرل مشرّف نے آئین توڑ کر حکومت پر قبضہ کیا تو اس کے مشیر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو ڈکٹیٹر کے غیر آئینی اقدام کی حمایت پر آمادہ کرتے رہے۔ جب آدھے سے زیادہ جج صاحبان (ان ججوں میں کوئی بھی پنجابی نہیں تھا) اس پر تیار نہ ہوئے تو انھیں عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔ انھیں دو دن کے لیے گھروں پر نظر بند کرکے فرمانبردار ججوں سے حلف اُٹھوالیا گیا اوراس کے بعد اپنی مرضی کے کچھ اور جج تعنیات کرکے ان سے مارشل لاء کے حق میں فیصلہ لے لیا گیا۔
سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد بھی آئین کے آرٹیکل چھ کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے، اس کے لیے ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام (غیر آئینی) اقدامات کو پارلیمنٹ سے ratifyکروائیں۔ اس کے لیے اِدھر اُدھر سے لوٹے جمع کرکے ایک کنگز پارٹی بنائی جاتی ہے، جس طرح جنرل مشرّف نے ق لیگ بنائی تھی، اسی طرح کی پارٹی ہر آمر کو بنانا پڑتی ہے، اس کے لیے ایک جعلی ساالیکشن کروایا جاتا ہے جس میں کنگز پارٹی کے امیدواروں کو جتوانے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کے ایسے افسر تیّار کیے جاتے ہیں، جو ہر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں۔
ان کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے کہ تم ہمارے کہنے پر غیر قانونی کام کرتے رہو، ہمارے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے بناؤ ۔ اس کے صلے میں ہم تمہیں تخفّظ دیں گے، تمہیں فیلڈ پوسٹنگ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ تم فیلڈ میں جتنا عرصہ چاہے رہو اور جتنی چاہے لوٹ مار کرتے رہو، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا، اس کے بعد بھی تمہیں بہترین پوسٹنگ دلادیں گے۔ اس طرح پولیس اور انتظامیہ میں ایک نئی کلاس تیار کی جاتی ہے۔ ایسے افسر، سول سرونٹس نہیں رہتے بلکہ حکمرانوں کے نوکر بن جاتے ہیں۔ اس طرح مقننّہ اور عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کو بھی برباد کردیا جاتا ہے۔
آمر اور فاشسٹ حکمران آزاد میڈیا کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ میڈیا کو جو ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، خوف اور تحریص سے اپنا حامی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھکنے سے انکار کرنے والے صحافیوں کو آمروں کے دور میں کوڑے مارے گئے، گرفتار کیا گیا، کچھ کو خرید لیا گیا اور کئی قتل کردیے گئے ۔ اس طرح ملک کا نام دنیا بھر میں بدنام اور بے وقار ہوتا رہا اور دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو رسوائی اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔
آمریتوں کے دور میں میڈیا جبر کا شکار رہا ہے اور کالم نگار ، اینکرز اور تجزیہ کار آمروں کی بنائی ریڈ لائنز کراس کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے، انھیں صرف تعریف و تحسین کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے صحافیوں کے تجزئیے سن کر افتخار عارف یاد آیا کرتے ہیں جو درست کہہ گئے کہ ؎ہوسِ لقمۂ تر کھاگئی لہجے کا جلال ۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون بھی بوسیدہ کردیا گیا ہے۔
اِس وقت بھی اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ کیا الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے؟ تو اس کا جواب ناں میں ہوگا۔ یوں الیکشن کمیشن پر بھی عوامی اعتماد ختم کرادیا گیا۔ آمرانہ حکومتیں جب چاہیں پولیس اور انتظامیہ کو اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں یا صحافیوں کے پیچھے لگادیتی ہیں، جو افراد پھر بھی راہِ راست پر نہ آئیں، ان کے پیچھے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو لگادیا جاتا ہے کیونکہ مخالفین کو تنگ کرنے کے لیے ان کی خدمات ہر وقت حاضر رہتی ہیں۔
ہائبرڈ نظام میں ادارے متنازعہ بنا دیے جاتے ہیں۔ کنگز پارٹی کے سوا باقی تمام پارٹیاں اور ان کے حامی اداروں سے نفرت اور غصّے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہیں آمرانہ حکمرانی کے نتائج۔ جمہوریّت کو مطعون کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ملک ٹوٹنے نہیں دیتی اور تمام کنفیڈریٹنگ یونٹس کو ریاست کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے۔
قومی اداروں کی کمزوری کے خطرناک after effects یا side effects سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایوّب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج بوئے گئے اور بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ یحیٰ خان جیسے آمر نے ملک کا ایک بازو کٹوا دیا۔ جنرل ضیاالحق نے قوم کو کلاشنکوف، ہیروئن، انتہاپسندی اور لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے تحفے دیے اور جنرل مشّرف نے ملک کو د ہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔
کل ایک شادی کی تقریب میں ایک بڑی عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ گفتگو کے دوران کہنے لگے ’’جمہوریت دوسرے نظاموں سے اس لیے بہتر ہے کہ اس میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنایا جاتا ہے، کوئی ادارہ لا محدود اختیارات کا حامل نہیں ہوتا، ہر ادارے پر چیک رکھا جاتا ہے کیونکہ کسی حکمران کے پاس لامحدود اختیارات آجائیں تو سسٹم میں کرپشن در آتی ہے اور 'Absolute Power Corrupts absolutely' دوسرے یہ کہ وہ تمام اداروں کو نگل جاتا ہے۔
ایک طاقتور آمر کے علاوہ باقی سب اپنا وجود کھو دیتے ہیں، پارلیمنٹ irrelevant ہو جاتی ہے۔ میڈیا صرف قصیدہ گوئی کرسکتا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے افسران حکمرانوں کے تابع فرمان بن جاتے ہیں، وہ حکمرانوں کے کہنے پر ہر غیر قانونی اور غیراخلاقی کام کرنے کے لیے تیّار رہتے ہیں۔ ادارے کمزور ہوجائیں تو شہریوں کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوجاتا ہے ۔کیا اس طرح ملک ترقی کرسکتے ہیں؟ ترقّی کیا اِس طرح تو ملک قائم بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘
یادرکھیں امن، جبر سے نہیں انصاف سے قائم ہوتا ہے اور استحکام ظلم سے نہیں قانون کی حکمرانی سے حاصل ہوتا ہے۔