اقوام متحدہ کے تحت 15 ستمبرکو دنیا بھر میں عالمی یومِ جمہوریت منایا گیا۔ پیپلز پارٹی کے سابق شریک چیئرپرسن اور ملک کے صدر آصف علی زرداری اگرچہ اس موقع پر سوشلسٹ ملک عوامی جمہوریہ چین کے دورے پر تھے مگر انھوں نے اس موقعے پر خصوصی پیغام دیا کہ ’’ جمہوریت وہ نظام ہے جو شہریوں کو بااختیار بناتا ہے۔
جمہوریت کسی بھی منصفانہ اور جامع معاشرہ کی بنیاد ہے اور شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کی قربانیوں نے ملک میں جمہوری اداروں کی بحالی اور استحکام کی بنیاد رکھی۔ ‘‘ مسلم لیگ ن کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اس موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’’ یہ دن عالمی سطح پر جمہوری نظامِ حکومت کے طور پر تنوع اور افادیت پر غور و فکر کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
1973کا آئین پاکستان کے ہر شہری کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ آج اس اہم دن، پاکستان اس عزم کا اعادہ کرتا ہے کہ جمہوری اصولوں اور بنیادی حقوق کے تحفظ اور ترقی یافتہ مستقبل کی تعمیر کے لیے عوام، ادارے اور حکومت مل کر کام کریں گے۔‘‘ برطانیہ کی سب سے بڑی آکسفورڈ یونیورسٹی کے سند یافتہ اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’’جمہوریت ہی ہماری قومی شناخت کی روح اور ترقی کی اساس ہے۔ جمہوریت کا تحفظ ایک قومی فریضہ ہے جو شہری اور ہر ادارہ پر لازم ہے۔‘‘
عالمی یومِ جمہوریت پر روزنامہ ایکسپریس کے صفحہ اول پر ایک بین الاقوامی غیر ریاستی تنظیم ’’ فیک نیوز واچ ڈاگ‘‘ کے دنیا بھر کے ممالک میں جمہوریت کی صورتحال پر ایک خصوصی رپورٹ شایع کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان ڈیموکریسی انڈیکس کے 10 بدترین ممالک میں شامل ہے۔ اس تنظیم کے جاری کردہ وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی صورت میں طاقتور اور اشرافیہ کا گٹھ جوڑ ہے۔ اس وائٹ پیپر میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں میڈیا مسلسل دباؤ کا شکار ہے۔
پاکستان کی سیاست میں مداخلت کی ایک طویل تاریخ ہے جو جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ وائٹ پیپر میں منتخب اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ منتخب ایوان میں معاشی بحث و مباحثہ عوامی مسائل کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اس وائٹ پیپر میں مزید کہا گیا ہے کہ خواتین اور سیاسی کارکنوں کو ہراساں کرنے کے لاتعداد واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔
ایک آزاد نیوز آؤٹ لیٹ ڈراپ سائٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ کامن ویلتھ دولت مشترکہ کی تنظیم نے اس سال فروری میں ہونے والے انتخابات کا جائزہ لیتے ہوئے مبصرین کے ایک گروپ کو بھیجا تھا مگر ان مبصرین نے ابھی تک اپنی رپورٹ مرتب نہیں کی ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ مستقبل میں بھی یہ رپورٹ شایع نہ ہوسکے۔ نیوز آؤٹ لیٹ کے رپورٹر نے لکھا ہے کہ فروری میں منعقد ہونے والے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھائے گئے تھے اور یہ رپورٹ حکومت پاکستان اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھیج دی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں فائنڈنگ اور سفارشات شامل تھیں۔
دولت مشترکہ کے سیکریٹری جنرل کے سامنے یہ پیش کی جائیں گی۔ ماضی کی روایات کے تحت اس طرح کی رپورٹ انتخابات کے انعقاد کے دس سے پندرہ دن کے اندر جاری کردی جاتی تھی۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گزشتہ ہفتے ایک رپورٹ کا اجراء کیا تھا۔
اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حکومت پاکستان غیر ملکی ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں کے ذریعے موبائل فون اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نگرانی کرتی ہے اور اب یہ ٹیکنالوجی حاصل کرلی گئی ہے کہ کسی سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو کس طرح بند کیا جائے مگر حکومت کی جانب سے آزادئ اظہار اور آزادئ صحافت پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ جمہوریت کا ارتقاء انسانی حقوق کی بالادستی کے ساتھ منسلک ہے ۔ گزشتہ دنوں دولت مشترکہ کے ممالک کے بارے میں کام کرنے والی تنظیم Common Wealth Human Rights Initiative (CHRI) نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ رکن ممالک میں دولت مشترکہ کے بیشتر ممالک میں آزادئ اظہار، آزادئ صحافت اور انسانی حقوق پر پابندیاں عائد ہیں۔
بعض ممالک میں کئی افراد کو محض تقریرکا حق استعمال کرنے پر ان کے خلاف بغاوت کرنے کے قوانین کے تحت مقدمات درج کیے جا رہے ہیں اور ان الزامات کے تحت بعض افراد کے خلاف سیکیورٹی کے قوانین کے تحت مقدمات چلائے گئے ہیں۔ بعض ممالک کی حکومتوں نے صحافیوں اور انسانی حقوق کی تحریک سے وابستہ اراکین، وکلاء اور سماجی کارکنوں کی آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے اس طرح کے امتناعی قوانین کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ اس رپورٹ میں دولت مشترکہ کے سیکریٹریٹ اور رکن ممالک کی حکومتوں پر زور دیا گیا ہے کہ یہ ممالک غیر سرکاری تنظیموں اور کارکنوں کے ساتھ بیٹھ کر دولت مشترکہ کے آزادئ اظہار، آزادئ صحافت اور اچھی طرزِ حکومت میں میڈیا کے کردار کے بارے میں دولت مشترکہ کے 11 اصولوں کے تحت لائحہ عمل طے کریں۔ یہ 11 نکات پر مشتمل منشور دولت مشترکہ کے ممالک کے Somoa میں ہونے والی سربراہ کانفرنس میں منظور کیے گئے تھے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دولت مشترکہ کے 19 ممالک میں 2006 سے 2023کے دوران 213 صحافی ہلاک کیے گئے تھے۔ اس رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کے حوالے سے یہ تحریر کیا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والے صحافیوں میں 213کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک اب تک نہیں پہنچایا جاسکا۔ اس رپورٹ میں اعداد و شمار کے تناظر میں بتایا گیا ہے کہ دولت مشترکہ کے 41 ممالک میں ہتک عزت کے مقدمہ میں فوجداری کارروائی ہوئی ہے اور عدالت مجرم قرار دینے والے افراد کو کئی برسوں تک جیل بھیج دیتی ہے اور بعض ممالک میں ہتک عزت کے مقدمات میں ملک سے بغاوت کے قوانین کو استعمال کیا جاتا ہے اور 39 ممالک میں بلاس فیمی کے قوانین کو استعمال کیا جاتا ہے۔
دولت مشترکہ کی صحافیوں اور وکلاء کی تنظیموں نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ آزادئ اظہار، آزادئ صحافت اور ہتک عزت کے مقدمات میں فوجداری قوانین کے استعمال کے خاتمے کے لیے ریاستی اور غیر ریاستی ایکٹرز کے اشتراک سے ایک حقیقی لائحہ عمل تیارکیا جانا چاہیے۔ یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ مسلمہ عالمی اصولوں کے تحت سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کے ماہرین مشترکہ طور پر دولت مشترکہ کے میڈیا سے متعلق اصولوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے میں مدد کریں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دولت مشترکہ کے چند ممالک میں اب بھی نوآبادیاتی دورکے قوانین پر عملدرآمد ہورہا ہے تاکہ منحرفین کی آوازوں کو خاموش کیا جاسکے۔
رپورٹ میں یاد دلایا گیا ہے کہ دولت مشترکہ کے رکن ممالک آزادئ اظہار اور آزادئ صحافت کے تحفظ کے لیے اپنی بین الاقوامی ذمے داریوں پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم کے سربراہ ولیم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ دولت مشترکہ کے رکن ممالک 20 سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود 213 صحافیوں کے قاتلوں کو سزا دلوانے میں ناکام رہے ہیں۔
دولت مشترکہ کے رکن ممالک کی اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف دولت مشترکہ کے ممالک میں ہی نہیں بلکہ امریکا اور دیگر ممالک میں بھی آزادئ اظہار اور آزادئ صحافت کو خطرات ہیں۔ آزادئ اظہار اور آزادئ صحافت پر پابندیاں ہونگی تو جمہوریت کمزور ہوگی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ ملک میں ہائبرڈ جمہوریت کا تجربہ کامیابی سے جاری ہے مگر تاریخ شاہد ہے کہ آئین کی ریاست کے تمام اداروں پر بالادستی سے جمہوریت مستحکم ہوتی ہے مگر خوش آیند بات یہ ہے کہ صدر اور وزیر اعظم نے عالمی یومِ جمہوریت کی اہمیت کو محسوس کیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آزادئ اظہار اور آزادئ صحافت انسانی حقوق کی وائٹ پیپر میں بین الاقوامی کہا گیا ہے کہ اس رپورٹ میں کے قوانین رکن ممالک ممالک میں عالمی یوم کے ممالک میں کہا کے تحت کے لیے گئی ہے کیا ہے ہے اور
پڑھیں:
امریکا کے 10 امیر ترین افراد کی دولت میں ایک سال میں 700 ارب ڈالر کا اضافہ، آکسفیم کا انکشاف
برطانوی فلاحی ادارے آکسفیم کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال امریکا کے 10 امیر ترین ارب پتی افراد کی مجموعی دولت میں تقریباً 700 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیاں ملک میں عدم مساوات کو مزید بڑھا رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا کی 10 امیر ترین خواتین اربوں ڈالر دولت کی مالک کیسے بنیں؟
رپورٹ کے مطابق، صرف ایک سال میں امریکی ارب پتیوں کی دولت 698 ارب ڈالر بڑھ گئی ہے۔
BREAKING: Billionaires in America now own a record $8 TRILLION in wealth.
That's up $5 TRILLION since Trump passed tax breaks for the rich in 2017.
The 15 richest of them have more wealth today than ALL billionaires did when that tax scam was passed.
Where is the trickle down? pic.twitter.com/mBnlEikb2w
— Americans For Tax Fairness (@4TaxFairness) October 27, 2025
آکسفیم نے فیڈرل ریزرو کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 1989 سے 2022 کے درمیان، اوپر کے 0.1 فیصد گھرانوں کی دولت میں 39.5 ملین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔
جبکہ اوپر کے 1 فیصد گھرانوں کو 8.3 ملین ڈالر کا فائدہ ہوا۔ اس کے برعکس، نیچے کے 20 فیصد گھرانوں کی دولت میں صرف 8,465 ڈالر کا اضافہ ہوا۔
یہ فرق اتنا زیادہ ہے کہ رپورٹ کے مطابق، اوپر کے 1 فیصد میں شامل سب سے غریب گھرانے نے نیچے کے 20 فیصد میں شامل سب سے امیر گھرانے کے مقابلے میں 987 گنا زیادہ دولت حاصل کی۔
مزید پڑھیں: دولت کمانے کی دوڑ، ایلون مسک نے نیا ریکارڈ اپنے نام کرلیا
آکسفیم کا کہنا ہے کہ گزشتہ 3 دہائیوں میں محنت کش اور متوسط طبقے کی دولت میں معمولی اضافہ ہوا ہے، جبکہ امریکا کے امیر ترین افراد کی دولت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، 1980 سے 2022 کے درمیان قومی آمدنی میں اوپر کے ایک فیصد کا حصہ دوگنا ہو گیا، جبکہ نیچے کے 50 فیصد کا حصہ ایک تہائی کم ہو گیا۔
مزید یہ کہ امریکا کے اوپر کے ایک فیصد افراد اب پورے اسٹاک مارکیٹ کا نصف مالک ہیں، جب کہ نیچے کے 50 فیصد شہریوں کے پاس صرف 1.1 فیصد حصہ ہے۔
مزید پڑھیں: مکیش امبانی یا شاہ رخ خان، امیر ترین بھارتی کون؟ نئی فہرست جاری
آکسفیم امریکا کی صدر ایبی میکسمین نے کہا کہ اعداد و شمار اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں جسے امریکی عوام دل سے جانتے ہیں۔ ’ایک نئی امریکی اولیگارکی اب قائم ہو چکی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ارب پتی اور بڑی کارپوریشنز ترقی کر رہی ہیں جبکہ محنت کش خاندان رہائش، صحت اور خوراک کے اخراجات پورے کرنے میں جدوجہد کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیاں اس عدم مساوات کو مزید بڑھا سکتی ہیں۔
مزید پڑھیں:دنیا کے امیر ترین شخص لیری ایلیسن کون ہیں؟
آکسفیم کے مطابق، ریپبلکن پارٹی کی اکثریت والے کانگریس کے تعاون سے انتظامیہ محنت کش طبقے کے خلاف بھرپور کارروائی کر رہی ہے اور اقتدار کو دولت مند طبقے کے مفاد میں استعمال کر رہی ہے۔
ایبی میکسمین نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ اور ریپبلکن ارکانِ کانگریس اس معاشی تفاوت کو ’ٹربو چارج‘ کرنے کے خطرے میں ہیں۔
’یہ عمل نیا نہیں، مگر فرق یہ ہے کہ اب ان کے پاس غیرجمہوری طاقت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آکسفیم ارب پتی افراد امریکا امریکی اولیگارکی امیر ترین ایبی میکسمین پالیسیاں ٹربو چارج خوراک ڈالر ریپبلکن پارٹی صحت عدم مساوات غریب گھرانے غیرجمہوری طاقت فیڈرل ریزرو مجموعی دولت محنت کش