اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 20 ستمبر 2025ء) ایران کو 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت پابندیوں سے چھٹکارا دینے کی سہولت برقرار رکھنے کی تجویز سلامتی کونسل میں رائے شماری کے نتیجے میں مسترد کر دی گئی ہے جس سے پابندیوں کے دوبارہ نفاذ سے متعلق طریقہ کار (سنیپ بیک) کے حوالے سے رکن ممالک میں شدید اختلافات واضح ہو گئے ہیں۔

15 رکنی کونسل کے صدر جمہوریہ کوریا کی جانب سے پیش کردہ تجویز کے حق میں چار ووٹ (روس، چین، الجزائر اور پاکستان) آئے جبکہ نو ارکان (ڈنمارک، فرانس، یونان، پانامہ، سیرالیون، سلوانیہ، صومالیہ، برطانیہ اور امریکہ) نے اسے مسترد کر دیا۔

گینا اور جمہوریہ کوریا نے رائے شماری میں شرکت نہیں کی۔

اس تجویز کو منظوری کے لیے مجموعی طور پر نو ارکان کی حمایت درکار تھی۔

(جاری ہے)

منظوری کی صورت میں ایران پر 2015 کے جوہری معاہدے 'مشترکہ جامع منصوبہ عمل' (جے سی پی او اے) سے قبل عائد کردہ اقوام متحدہ کی پابندیاں ختم ہو جاتیں اور معاہدے کے تحت اسے کو دی جانے والی نرمی برقرار رہتی۔

Photo: IAEA/Paolo Contri ایران کا بشر نیوکلیئر پاور پلانٹ۔

'سنیپ بیک' کی شرائط

جولائی 2015 میں 'جے سی پی او اے' کی توثیق کے لیے منظور کی جانے والی قرارداد 2231 میں اس عمل کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جس کے تحت ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں ختم کی جائیں گی اور ساتھ ہی ایک ایسا طریقہ کار بھی متعین کیا گیا ہے جس کے تحت معاہدے کے کسی بھی فریق کی جانب سے اس کی سنگین عدم تعمیل' کی صورت میں پابندیاں دوبارہ نافذ کی جا سکتی ہیں۔

اس معاہدے کے فریقین میں چین، فرانس، جرمنی، روس، برطانیہ، امریکہ، یورپی یونین اور ایران شامل ہیں۔

اگر معاہدے کا کوئی بھی دستخط کنندہ سلامتی کونسل کو کسی سنگین خلاف ورزی کی اطلاع دیتا ہے تو کونسل کا صدر 30 دن کے اندر پابندیوں میں نرمی جاری رکھنے سے متعلق ایک قرارداد رائے شماری کے لیے پیش کرنے کا پابند ہوتا ہے۔

اگر قرارداد یا تجویز منظور نہ ہو سکے تو اقوام متحدہ کی سابقہ پابندیاں خود بخود دوبارہ نافذ ہو جاتی ہیں۔

باالفاظ دیگر، سلامتی کونسل کی جانب سے پابندیوں میں نرمی برقرار رکھنے کے حق میں ووٹ نہ دیے جانے کی صورت میں اقوام متحدہ کی پرانی پابندیاں خود بخود بحال ہو جاتی ہیں۔تند و تیز مباحثہ

آج سلامتی کونسل کے اجلاس کے آغاز میں روس نے نکتہ اعتراض اٹھاتے ہوئے یورپی ممالک کے اس دعوے کو مسترد کیا کہ وہ 'سنیپ بیک' طریقہ کار کو فعال کر سکتے ہیں۔

روسی سفیر، ویزلے نیبینزیا نے کہا کہ اس طریقہ کار کو فعال کرنے یا قرارداد پر رائے شماری کی کوئی قانونی و سیاسی بنیاد موجود نہیں اور فرانس، جرمنی اور برطانیہ قرارداد 2231 اور 'جے سی پی او اے' دونوں کے دائرے سے باہر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان تینوں ممالک نے تنازعات کے حل کے طریقہ کار پر عمل نہیں کیا اور اس کے بجائے ایران پر یکطرفہ پابندیاں عائد کر دی ہیں جو کہ غیر قانونی ہیں۔

سفیر کا کہنا تھا کہ یورپی ممالک کا یہ موقف قابل قبول نہیں کہ ان کے پاس سابقہ قراردادوں کی تعزیری شقوں کو فعال کرنے کا حق موجود ہے جب کہ وہ خود اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

© IAEA گزشتہ سال نومبر میں آئی اے ای اے کے سربراہ رافائل گروسی نے ایران کے یورینیم افزودگی کے مراکز کا دورہ کیا تھا۔

۔ چین، برطانیہ اور فرانس کا موقف

اقوام متحدہ میں چین کے مستقل سفیر فو کونگ نے کہا کہ سنیپ بیک کے معاملے پر سلامتی کونسل کے ارکان کے درمیان وسیع تر اختلافات ہیں۔ اگر رائے شماری میں عجلت کی گئی تو یہ رکن ممالک کے درمیان محاذ آرائی کو مزید بڑھائے گی جس سے اس مسئلے کے سفارتی حل کی کوششیں اور بھی پیچیدہ ہو جائیں گی۔

برطانیہ کی سفیر باربرا ووڈورڈ نے کہا کہ جوہری معاہدے کے یورپی شرکا کا سنیپ بیک کو متحرک کرنے کا فیصلہ مکمل طور پر قانونی، جائز، وسیع اور قرارداد 2231 کے تقاضوں کے مطابق ہے۔

انہوں نے 28 اگست 2025 کو فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی طرف سے جمع کرائی گئی اطلاع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سنیپ بیک کو متحرک کرنے کے لیے صرف یہی درکار ہے کہ معاہدے کا کوئی بھی فریق ملک ایسی اطلاع دے کہ اسے یقین ہے کسی فریق نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔

فرانس کے سفیر جیروم بونافون نے رائے شماری سے قبل بات کرتے ہوئے ایران کے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام اور جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے ای اے) کے ساتھ اس کے تعاون میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایران نے معاہدے میں مقررہ حد سے کہیں زیادہ افزودہ یورینیم کا ذخیرہ جمع کر لیا ہے اور اپنی اہم جوہری تنصیبات تک 'آئی اے ای اے' کی رسائی محدود کر دی ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی امن و سلامتی، اور جوہری عدم پھیلاؤ کے عالمی نظام کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے سنیپ بیک طریقہ کار ضروری ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل برقرار رکھنے طریقہ کار معاہدے کے نے کہا کہ سنیپ بیک ایران پر کے تحت کے لیے

پڑھیں:

فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھنے کے حق میں امریکہ کا ایک بار پھر ویٹو

اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ میں الجزائر کے نمائندے عمار بن جامع نے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "ہمیں معاف کر دیجیے، خاص طور پر غزہ میں جہاں آگ ہر چیز کو جلا رہی ہے اور وہاں جہاں آنسو گیس سے لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ ہمیں معاف کر دیجیے کیونکہ یہ کونسل آپ کے بچوں کو نجات نہیں دلا سکی، کیونکہ اسرائیل کی حفاظت کی جا رہی ہے اور اسے استثنی حاصل ہے، بین الاقوامی قانون کی جانب سے نہیں بلکہ اس بین الاقوامی نظام کی جانبداری کی وجہ سے۔ اسرائیل ہر روز قتل کر رہا ہے اور کوئی ردعمل نہیں آتا۔ اسرائیل نے لوگوں کو بھوک کا شکار کیا ہوا ہے اور کوئی کچھ نہیں کرتا۔ اسرائیل اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گاہوں پر بم برسا رہا ہے اور پھر بھی کچھ نہیں ہوتا۔ اسرائیل ایک ثالث پر حملہ کرتا ہے اور سفارتکاری کو پامال کرتا ہے لیکن کوئی کچھ نہیں کرتا۔" تحریر: محمد علی
 
ایک طرف غزہ کی پٹی میں اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی اور مصنوعی قحط کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جبکہ دوسری طرف غزہ میں جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دس ہزارویں اجلاس میں امریکہ نے ایک بار پھر جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کر دی ہے۔ سلامتی کونسل کے باقی تمام 14 اراکین نے اس قرارداد کی حمایت کی تھی۔ 18 ستمبر 2025 کی شام منعقد ہونے والے اس اجلاس میں ڈنمارک نے 10 اراکین کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کو فوری اور غیر مشروط طور پر آزاد کر دینے اور غزہ میں فوری، غیر مشروط اور ہمیشگی جنگ بندی کے قیام پر مبنی قرارداد پیش کی جسے تمام اراکین کی حمایت حاصل ہونے کے باوجود امریکہ نے ویٹو کر دیا اور یوں ظلم و ستم کا شکار فلسطینیوں کی امید ایک بار پھر ختم ہو گئی۔ غزہ جنگ کے دوران جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کرنے پر مبنی امریکہ کا یہ چھٹا اقدام ہے۔
 
غذائی سلامتی سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے آئی پی سی نے گذشتہ ماہ اپنی رپورٹ میں سرکاری طور پر اعلان کیا تھا کہ غزہ کے وسیع حصوں میں قحط شروع ہو چکا ہے۔ سلامتی کونسل کے کل 15 اراکین میں سے 10 اراکین نے جنگ بندی کی حالیہ قرارداد تیار کی تھی جس میں آئی پی سی کی رپورٹ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا: "آئی پی سی کی رپورٹ کے مطابق صوبہ غزہ میں قحط شروع ہو چکا ہے اور ستمبر کے آخر تک دیر البلح اور خان یونس کے صوبوں میں بھی قحط کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ غزہ کی پوری پٹی میں انسانی بحران پایا جاتا ہے اور ہم بھوک کو عام شہریوں کے خلاف جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ اسرائیل کے فوجی آپریشن میں وسعت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے فوری بند کرنے اور غزہ میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی ہر کوشش کی روک تھام کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔"
 
اقوام متحدہ میں ڈنمارک کی نمائندہ کرسٹینیا مارکوس لاسن نے اس اجلاس میں کہا: "جنگ بندی کی قراردادیں ایک واضح پیغام لیے ہوئے ہیں۔ میرے ساتھیو، اجازت دیں یہ قرارداد ایک واضح پیغام بھیجے، اس بات کا پیغام کہ سلامتی کونسل بھوکے عام شہریوں، یرغمالیوں اور جنگ بندی کے مطالبے سے روگردان نہیں ہے۔ اجازت دیں یہ قرارداد ثابت کرے کہ ہم ان امدادی کارکنوں کی حمایت کرتے ہیں جو انتہائی کٹھن حالات میں کام کر رہے ہیں اور ہمیں اس بات کا شرف حاصل ہے کہ دنیا بھر میں لائیو شائع ہونے والی جنگ اور اس کے دلخراش واقعات پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اور یہ کہ بین الاقوامی قانون کی اہمیت ہے، انسانی اصول اہمیت رکھتے ہیں اور اقوام متحدہ کے منشور میں بیان شدہ انسان دوستی کا اصول ہمارا رہنما اصول ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "غزہ میں قحط ایک حقیقت ہے اور ہم فوری، ہمیشگی اور غیر مشروط جنگ بندی کے خواہاں ہیں۔"
 
اس اجلاس میں امریکہ وہ واحد ملک تھا جس نے نہ صرف اس قرارداد کی حمایت نہیں کی بلکہ اسے ویٹو کر کے غیر موثر بنا دیا۔ اسرائیل کے قریبی اتحادی ہونے کے ناطے امریکہ اب تک سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی کئی قراردادیں ویٹو کر چکا ہے۔ سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں امریکہ کی نمائندہ مورگن اورٹیگاس نے یہ بہانہ بناتے ہوئے کہ اس قرارداد میں حماس کی مذمت نہیں کی گئی یا اسرائیل کا اپنا دفاع کرنے کا حق تسلیم نہیں کیا گیا اس قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ اس نے دعوی کرتے ہوئے کہا: "یہ قرارداد حماس کے حق میں جھوٹی روایتوں کی تصدیق کر رہا ہے جو بدقسمتی سے اس کونسل کے اراکین میں رائج ہو چکی ہیں۔" امریکی نمائندے نے مزید دعوی کیا: "امریکہ کی جانب سے اس قرارداد کو ویٹو کرنا کسی کے لیے تعجب آور نہیں ہو گا کیونکہ اس میں حماس کی مذمت نہیں کی گئی جس نے 7 اکتوبر کو حملے کا آغاز کیا تھا۔"
 
اقوام متحدہ میں فلسطین کے سفیر ریاض منصور نے امریکہ کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا: "فلسطینی عوام جو سلامتی کونسل سے غزہ جنگ بند کروانے کی امیدیں وابستہ کر چکے تھے اس وقت شدید مایوسی اور غصے کا شکار ہیں۔" ریاض منصور نے امریکہ کی جانب سے جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کیے جانے کے بعد سلامتی کونسل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "غزہ سے شائع ہونے والی تصاویر شدید دکھ اور درد کی حامل ہیں اور ہر دیکھنے والے کو متاثر کر دیتی ہیں۔ ایسے کمسن بچے کو بھوک کی وجہ سے مر رہے ہیں، ایسے اسنائپر شوٹر جو عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، عام شہری اکٹھے قتل عام ہو رہے ہیں، خاندان جلاوطن ہو رہے ہیں، امدادی کارکن اور صحافی نشانہ بن رہے ہیں جبکہ اسرائیلی حکمران کھلم کھلا ان تمام واقعات کا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں۔"
 
اقوام متحدہ میں الجزائر کے نمائندے عمار بن جامع نے امریکہ کے ویٹو پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: "ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔" انہوں نے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "ہمیں معاف کر دیجیے، خاص طور پر غزہ میں جہاں آگ ہر چیز کو جلا رہی ہے اور وہاں جہاں آنسو گیس سے لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ ہمیں معاف کر دیجیے کیونکہ یہ کونسل آپ کے بچوں کو نجات نہیں دلا سکی، کیونکہ اسرائیل کی حفاظت کی جا رہی ہے اور اسے استثنی حاصل ہے، بین الاقوامی قانون کی جانب سے نہیں بلکہ اس بین الاقوامی نظام کی جانبداری کی وجہ سے۔ اسرائیل ہر روز قتل کر رہا ہے اور کوئی ردعمل نہیں آتا۔ اسرائیل نے لوگوں کو بھوک کا شکار کیا ہوا ہے اور کوئی کچھ نہیں کرتا۔ اسرائیل اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گاہوں پر بم برسا رہا ہے اور پھر بھی کچھ نہیں ہوتا۔ اسرائیل ایک ثالث پر حملہ کرتا ہے اور سفارتکاری کو پامال کرتا ہے لیکن کوئی کچھ نہیں کرتا۔"

متعلقہ مضامین

  • پابندیوں کی واپسی ہوئی تو ایران ان پر قابو پا لے گا، ایرانی صدر
  • سلامتی کونسل کا بڑا فیصلہ، ایران پر پابندیاں ختم کرنے کی قرارداد مسترد
  • سلامتی کونسل نے پابندیاں بحال کیں تو جوہری معاہدہ ختم ہوگا، ایران کا انتباہ
  • سلامتی کونسل :ایران پر پابندیوں میں نرمی کی قرارداد مسترد
  • اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بڑا فیصلہ، ایران پر پابندیاں ختم کرنے کی قرارداد مسترد
  • سلامتی کونسل نے ایران پر پابندیاں ختم کرنے کی قرارداد مسترد کر دی
  • اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران پر پابندیوں میں نرمی کی قرارداد مسترد کر دی
  • فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھنے کے حق میں امریکہ کا ایک بار پھر ویٹو
  • سلامتی کونسل: کیا ایران پر آج دوبارہ پابندی لگا دی جائے گی؟