ہائی وولٹیج ٹاکرا، پاکستان کا بھارت کو جیت کیلئے 172 رنز کا ہدف
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
ہائی وولٹیج ٹاکرا، پاکستان کا بھارت کو جیت کیلئے 172 رنز کا ہدف WhatsAppFacebookTwitter 0 21 September, 2025 سب نیوز
دبئی(سب نیوز)ایشیا کپ کے سپر فور مرحلے کے ہائی وولٹیج مقابلے میں پاکستان نے بھارت کو جیت کیلئے 172 رنز کا ہدف دے دیا۔ دبئی انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم میں ہونیوالے ایونٹ کے سپر فور کے بڑے مقابلے میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان سوریا کمار یادیو نے ٹاس جیت کر پاکستانی کپتان سلمان علی آغا کو بیٹنگ کی دعوت دی ہے۔
پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستان نے مقررہ 20 اوورز میں 5 وکٹوں کے نقصان پر 171 رنز بنائے، صاحبزادہ فرحان 58 رنز کیساتھ نمایاں رہے۔پاکستان کی جانب سے فخر زمان اور صاحبزادہ فرحان نے جارحانہ انداز میں کھیل کا آغاز کیا تاہم پاکستان کی پہلی وکٹ 21 رنز پر گئی، فخر زمان 9 گیندوں پر 15 رنز بنا کر وکٹوں کے پیچھے کیچ دے بیٹھے۔پاکستان کا دوسرا نقصان صائم ایوب کی صورت میں ہوا جب وہ 93 رنز کے مجموعی سکور پر 21 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے جبکہ نئے آنے والے بلے بازحسین طلعت بھی زیادہ دیر صاحبزاہ فرحان کا کریز پر ساتھ نہ نبھا سکے اور 10 رنز بنا کر کیچ آوٹ ہو گئے۔قومی ٹیم کو 115 رنز کے مجموعی سکور پر بڑا نقصان برداشت کرنا پڑا جب صاحبزادہ فرحان 58 رنز کی شاندار اننگز کھیلی کر کیچ تھما بیٹھے جبکہ محمد نواز 19 گیندوں پر 21 رنز بنا کر رن آوٹ ہوئے۔
ٹاس کے بعد گفتگو میں سلمان علی آغا نے کہا ہے کہ ٹاس جیت کر ہم بھی بولنگ کرنا پسند کرتے، میچ ایک نیا چیلنج ہے، آج اچھی کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ٹیم کا موڈ معمول کے مطابق ہے، فائنل الیون میں 2 تبدیلیاں کی گئی ہیں، فہیم اشرف اور طلعت حسین کو حسن نواز اور خوشدل شاہ کی جگہ ٹیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔ہینڈ شیک کا تنازع اور میچ کے بعد بھارتی کپتان سوریا کمار یادیو کے سیاسی بیان کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ ماحول مزید خراب ہوچکا ہے، آج بھی دنوں ٹیموں کے کپتانوں نے ٹاس کے بعد ہاتھ نہیں ملایا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرہماری خارجہ پالیسی نے سلامتی کونسل میں اسرائیل کو معافی مانگنے پر مجبور کر دیا، رانا تنویر ہماری خارجہ پالیسی نے سلامتی کونسل میں اسرائیل کو معافی مانگنے پر مجبور کر دیا، رانا تنویر ہم ایک انچ زمین بھی امریکا کو نہیں دیں گے، افغانستان کا ٹرمپ کو دو ٹوک جواب عالمی برادری اسرائیل و بھارت کی جارحیت اور مظالم کو فوری طور پر بند کرائے، بلاول بھٹو وزیراعظم دورہ امریکا میں 6اسلامی ممالک کے رہنماوں کے ہمراہ ٹرمپ سے ملاقات کرینگے توشہ خانہ ٹو کیس ، چشم دیدگواہ اور عمران خان کے سابق ملٹری سیکرٹری کا اہم بیان سامنے آگیا سیلاب کے باعث موٹروے ایم 5کئی مقامات سے متاثر، مزید 5پوائنٹس متاثر ہونیکا خدشہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
صدر ٹرمپ پاکستان کو کیا سمجھتے ہیں؟ دوست یا دشمن؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251105-03-6
وجیہ احمد صدیقی
جیسا کہ خدشہ تھا کہ صدر ٹرمپ اچانک یوٹرن لے لیں گے اور یہی ہوا پہلے تو وہ پاکستان کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن اب صدر ٹرمپ کے حالیہ سی بی ایس ’’60 منٹس‘‘ انٹرویو میں پاکستان پر جوہری ہتھیاروں کے خفیہ زیر زمین تجربات کے الزامات عالمی منظرنامے پر پاکستان کی جوہری پالیسی اور اس کے عالمی تعلقات کو ایک نئی بحث کے دائرے میں لے آئے ہیں۔ اس تجزیے میں صدر ٹرمپ کے رویے کی تبدیلی کی وجوہات، امریکی بھارت یکجہتی کے امکانات، پاکستان کے جوہری پروگرام کی دفاعی نوعیت، اور درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی حکمت عملی پر روشنی ڈالی جائے گی۔ صدر ٹرمپ کا رویہ اور اس کی ممکنہ وجوہات صدر ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کے جوہری پروگرام پر الزامات اور ان کا امریکا کے 33 سالہ جوہری تجربات کی پابندی کو ختم کرنے کے حق میں بیانیہ ایک اہم تبدیلی ہے۔ ماضی کے مقابلے میں ان کی بھارت کے قریب ہونے کی صورت حال نے ایک قسم کی امریکی کے بھارت کی طرف جھکاؤ کی نشاندہی کی ہے۔ بھارت اور امریکا کے تعلقات حالیہ برسوں میں مضبوط ہوئے، خاص طور پر تجارتی، دفاعی اور سیکورٹی تعاون میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کے خلاف امریکا کی جانب سے سخت بیانات سامنے آتے ہیں۔ جیو پولیٹیکل تبدیلیاں، کچھ اس طرح سے سامنے آئی ہیں کہ مصنوعی طور پر بھارت کو خطے کی ایک علاقائی طاقت ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ اسے چین کے مقابلے میں کھڑا کیا جا سکے۔ جبکہ معاشی طور پر بھارت کی ایک ارب آبادی میں 85 کروڑ افراد ایسے ہیں جن کو بھارتی حکومت ماہانہ پانچ کلو راشن دیتی ہے۔ بھارت پاکستان اور چین سے مقابلے کے لیے ان 85 کروڑ افراد کا پیٹ کاٹ کر خطے کی طاقت بننے کی کوشش میں مصروف ہے اور امریکا صرف چین کے ساتھ مخاصمت میں بھارت کی سرپرستی کر رہا ہے بھارت میں مسلسل کوئی جنگ لڑنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے اس کے اپنے اندر کئی ریاستیں اس سے آزاد ہونے کے لیے بے چین ہیں۔ امریکا کو ان ریاستوں کی آزادی کے لیے کوشش کرنا چاہیے نہ کہ بھارت کو مصنوعی طور پر چین کے سامنے کھڑا کرنے کی۔ جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن میں امریکا کی حکمت عملی کا مرکزی کردار ہونے کے باعث ٹرمپ کا یہ موقف ایسی پیچیدگیوں کا مظہر ہے۔ علاوہ ازیں، امریکی اندرونی سیاسی کلچر بھی بعض اوقات سخت قومی سلامتی کے بیانات کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے، جس سے اس قسم کے بیانات کا نظریہ مزید تقویت پاتا ہے۔
پاکستان کا جوہری پروگرام بنیادی طور پر دفاعی اور مزاحمت کی حکمت عملی پر مبنی ہے۔ 1974 میں بھارت کے پہلے ایٹمی دھماکے کے بعد سے پاکستان نے اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے اپنے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو گہری سنجیدگی سے لیا ہے۔ پاکستان نے کئی بار عالمی اداروں کو قائل کیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام جارحانہ نہیں بلکہ دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ یہ پروگرام ایک جامع قانونی اور ادارہ جاتی نظام کے تحت چلایا جاتا ہے، جس میں جوہری ہتھیاروں کی حفاظت اور استعمال کی سخت ترین شرائط شامل ہیں۔ پاکستان نے اپنے دفاعی اسلحہ کی حفاظت کے لیے جدید ترین سیکورٹی میکانزم نافذ کیے ہوئے ہیں، تاکہ جوہری ہتھیاروں کا غلط استعمال یا دہشت گردوں کے ہاتھ لگنا ممکن نہ ہو۔ اس حوالے سے پاکستان کی شفافیت اور ذمے داری کی عالمی سطح پر بھی تعریف کی جاتی ہے۔ عالمی تناظر اور پاکستان کی سفارتی حکمت عملی پاکستان نے ہمیشہ بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کی پاسداری کو اہمیت دی ہے اور اپنی جوہری صلاحیتوں کو صرف دفاعی موقف کے طور پر پیش کیا ہے۔ خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کی کوششیں قابل قدر ہیں، جس میں مسلسل بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ پاکستان کی یہ حکمت عملی خطے میں طاقت کے نازک توازن کو برقرار رکھنے میں معاون ہے۔ عالمی سطح پر امریکی موقف کے برخلاف پاکستان نے اپنی جوہری صلاحیت کو مسلم دنیا کے دفاع اور علاقائی سلامتی کے لیے ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر دیکھا ہے۔ وزیر خارجہ اور دیگر حکومتی عہدیداروں کی طرف سے بھی یہ واضح کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کا جوہری پروگرام جارحانہ نہیں بلکہ دفاعی ہے۔ پاکستان نے کئی مواقع پر مشترکہ مسلم عالمی سیکورٹی فورس کے قیام کا اصولی اظہار کیا ہے، جو امن کی خاطر کام کر سکے۔ پاکستان کے اگلے اقدامات اس پیچیدہ بین الاقوامی صورتحال میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی سلامتی اور دفاع کے حق کو مضبوطی سے بیان کرے۔ اس کے لیے چند اہم تجاویز درج ذیل ہیں:
شفافیت اور اعتماد سازی: پاکستان کو چاہیے کہ وہ عالمی اداروں کے ساتھ تعاون بڑھائے اور اپنی جوہری صلاحیتوں پر شفافیت کا مظاہرہ کرے تاکہ عالمی برادری کا اعتماد حاصل ہو۔ دفاعی تعلقات کو مستحکم کرنا: پاکستان کو اپنے دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط کرتے ہوئے سیاسی و سفارتی محاذ پر اپنے موقف کی حمایت کرنی چاہیے۔ عالمی سفارتی مہم: منفی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو مؤثر سفارتی اور میڈیا مہمات چلانی ہوں گی تاکہ اپنی پالیسیوں اور دفاعی پوزیشن کی وضاحت ہو سکے۔
بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری تو پاکستان چاہتا ہے؛ خطے میں دیرپا امن کے لیے پاکستان کو بھارت کے ساتھ کشیدگی کم کرنے اور مذاکرات کی بھی ضرورت ہے لیکن یہ تنہا صرف پاکستان کی ذمے داری نہیں ہے بلکہ بھارت کو بھی غیر سنجیدہ رویہ چھوڑ کر سنجیدگی سے اس جانب توجہ دینی ہوگی وہ پاکستان پر مسلسل دہشت گردی کا الزام لگا کر اپنی کوتاہیوں کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ عالمی طاقتوں کو بھارت کی نااہلی کا بھی جائزہ لینا ہوگا مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے بھارت لے کر آیا تھا۔ لیکن ایک طویل عرصہ گزر نے کے بعد بھی بھارت کشمیر کے عوام کو ان کا حق خود ارادی دینے کو تیار نہیں۔ دنیا گواہ ہے کہ بھارت پاکستان پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگاتا رہا ہے یہ اس کا غیر سنجیدہ رویہ ہے ایسی صورتحال میں بھارت سے مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں جب اس کا رویہ ہی جارحانہ اور جاہلانہ ہے۔ لہٰذا خطے میں امن قائم کرنے کی تنہا ذمے داری پاکستان پر نہیں ہے بلکہ اس کی 100 فی صد ذمے داری بھارت پر ہی عائد ہوتی ہے۔
صدر ٹرمپ کے حالیہ بیانات نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں ایک نیا چیلنج پیدا کیا ہے، جو نہ صرف دو طرفہ تعلقات بلکہ جنوبی ایشیا کے استحکام کے لیے بھی اہم ہے۔ امریکا کا بھارت کی طرف جھکاؤ خطے میں امن کا باعث نہیں بنے گا اور نہیں امریکا کے مفاد میں بھی ہے کہ وہ اس خطے میں جانبدارانہ رویہ اختیار کرے۔ پاکستان نے دفاعی طور پر امریکی امداد پر انحصار کم سے کم کر دیا ہے۔ اگر صدر ٹرمپ یہ رویہ اختیار کریں گے تو پاکستان ایک آزاد ملک ہے وہ اپنی خارجہ پالیسی بنانے میں بھی آزاد ہے۔ پھر وہ اپنے مفاد میں جو فیصلہ کرے بہتر ہوگا لیکن وہ فیصلہ ضروری نہیں کہ امریکی مفادات کے حق میں بھی ہو۔ دوسری جانب پاکستان کے عالمی جیوپولیٹیکل مفادات کی روشنی میں پاکستان کو اپنے دفاعی نظام کی مضبوطی اور سفارتی حکمت عملی پر کام بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا جوہری پروگرام بنیادی طور پر دفاعی ہے اور اس کا مقصد خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنا ہے، نہ کہ جارحیت۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ اعتماد قائم کرے اور اپنے دفاع کی پالیسی کو موثر طریقے سے پیش کرے تاکہ کسی قسم کے غلط فہمی یا الزام تراشی کا خاتمہ ہو سکے۔ یہ مضمون پاکستان کے موقف کی وضاحت اور عالمی اسٹیج پر اس کی دفاعی حکمت عملی کی تشہیر کے لیے ایک مضبوط اور منطقی دستاویز کا کردار ادا کرے گا، جو خطے میں امن اور استحکام کے لیے ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے۔