اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 21 ستمبر 2025ء) بین الاقوامی سمندروں میں حیاتیاتی تنوع کو تحفظ دینے کے لیے اقوام متحدہ کا معاہدہ 60 ممالک کی توثیق کے بعد نافذ العمل ہو گیا ہے۔

گزشتہ روز مراکش اور سیرالیون اس معاہدے کی توثیق کرنے والے 60ویں اور 61ویں ممالک بن گئے جس کے بعد آئندہ سال جنوری سے اس پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔ رکن ممالک نے جون 2023 میں اس معاہدے کی منظوری دی تھی جس سے پہلے دو دہائیوں تک اس پر بات چیت ہوتی رہی۔

اسے رسمی طور پر 'ملکی دائرہ ہائے اختیار سے پرے سمندری حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور پائیدار استعمال کا معاہدہ' (بی بی این جے) بھی کہا جائے گا۔ Tweet URL

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے معاہدے کی منظوری کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے سمندر اور کثیرالفریقیت کے لیے تاریخی کامیابی قرار دیا ہے۔

(جاری ہے)

سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ گزشتہ دو سال کے دوران رکن ممالک نے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے واضح کیا کہ جب مشترکہ بھلائی کے لیے اکٹھے کام کیا جائے تو کیا کچھ ممکن ہے۔ دنیا کو موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور آلودگی کی صورت میں تہرے زمینی بحران کا سامنا ہے اور ان حالات یہ معاہدہ سمندر اور انسانیت کی بقا کا ضامن ہو گا۔

انسان کے وجود کی بنیاد

کھلے سمندروں کا یہ معاہدہ بین الاقوامی پانیوں کے دو تہائی حصے کا احاطہ کرتا ہے۔ اس میں سمندری حیاتیاتی تنوع کے تحفظ و پائیدار استعمال، سمندری جینیاتی وسائل سے حاصل ہونے والے فوائد کی مزید منصفانہ تقسیم، سمندر میں مچھلیوں کو تحفظ دینے کے لیے محفوظ علاقوں کا قیام، سائنسی تعاون کو مضبوط بنانے اور متعلقہ صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جن کی پابندی رکن ممالک پر لازم ہو گی۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یونیپ) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے بھی اس کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں ان کا کہنا ہے کہ سمندر زندگی اور انسان کے وجود کی بنیاد ہے۔ آج دنیا نے سمندروں اور اپنے مستقبل کو تحفظ دینے کے لیے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔

انسانیت کے مستقبل کا تحفظ

'بی بی این جے' معاہدہ سمندری قانون پر اقوام متحدہ کے کنونشن تلے اٹھائے گئے اقدامات کو آگے بڑھائے گا جسے 'سمندروں کا آئین' بھی کہا جاتا ہے۔

17 جنوری 2026 کو نافذالعمل ہونے کے بعد یہ معاہدہ حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے بین الاقوامی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے عالمگیر طریقہ کار مہیا کرے گا۔ ان اہداف میں عالمگیر حیاتیاتی تنوع پر کنمنگ مانٹریال فریم ورک کے تحت 2023 تک زمین اور سمندر کے 30 فیصد علاقوں کو تحفظ دینے کا وعدہ بھی شامل ہے۔

سیکرٹری جنرل نے اقوام متحدہ کے باقیماندہ تمام ارکان پر زور دیا ہے کہ وہ بھی بلاتاخیر اس معاہدے کی توثیق کریں اور رکن ممالک اس پر فوری و مکمل عملدرآمد کو یقینی بنائیں کیونکہ سمندر کی صحت انسانیت کی صحت ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے حیاتیاتی تنوع کے اقوام متحدہ کے کو تحفظ دینے معاہدے کی رکن ممالک کے لیے

پڑھیں:

ترک خاتون کی داستانِ غزہ: ’زندگی رک جاتی ہے، مگر تعلیم نہیں‘

غزہ اپنی جدید تاریخ کے سب سے المناک دور سے گزر رہا ہے۔ ایسے میں ایک ترک خاتون، جنہوں نے 24 سال اس محصور خطے میں گزارے، وہاں کی زندگی، جنگوں، ناکہ بندیوں اور ایمان کی پختگی کو یاد کرتی ہیں۔

کیفسَر یلماز جارادہ 1999 میں شادی کے بعد غزہ منتقل ہوئیں اور 2 دہائیوں سے زائد عرصے تک وہیں مقیم رہنے کے بعد اپنے آپ کو فلسطینی ہی سمجھتی ہیں۔

’میں نے غزہ کے عوام کے ساتھ جنگیں، ناکہ بندیاں اور مشکلات جھیلیں، خود کو ان ہی میں سے ایک سمجھتی ہوں، مجھے لگتا ہے میں بھی غزہ کی ہوں۔‘

یہ بھی پڑھیں: دو سالہ جنگ کے بعد ملبہ اٹھانے کا عمل شروع، 5 لاکھ سے زیادہ فلسطینی غزہ لوٹ آئے

وہ 2023 کی گرمیوں میں علاج کے لیے ترکی آئیں، اور کچھ ہی دن بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔

کیفسَر یلماز جارادہ نے بتایا کہ 2005 تک اسرائیلی آبادکار فلسطینی زمینوں پر قابض تھے اور غزہ میں ’نظر نہ آنے والے علاقوں‘ میں پرتعیش زندگی گزارتے تھے۔

ان کے پاس وسیع فارم، اسکول اور کارخانے تھے، جب کہ مقامی آبادی انتفاضہ اور شدید معاشی دباؤ میں زندگی گزار رہی تھی۔

ان کے مطابق غزہ کے عوام نے مزاحمت کرتے ہوئے قبضہ کرنے والوں کو اپنی زمین پر سکون سے رہنے نہیں دیا، اور آخرکار ایک بھی آبادکار وہاں باقی نہ رہا۔

’غزہ میں زندگی رک جاتی ہے، مگر تعلیم نہیں‘

کیفسَر یلماز جارادہ کے مطابق تعلیم غزہ میں ہمیشہ اولین ترجیح رہی۔ ’’جنگ ہو یا امن، تعلیم کبھی نہیں رکتی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ اسکول کے بعد بچے عام طور پر مساجد کا رخ کرتے، جو سماجی مراکز کا کردار ادا کرتی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ غزہ سے باہر نکلنا بے حد مشکل تھا، طلبا اور مریضوں کو مہینوں پہلے نام درج کروانے اور اجازت کی فہرستوں کے انتظار میں رہنا پڑتا۔

غزہ کی زندگی بجلی اور پانی کی قلت سے جڑی ہوئی تھی، جہاں بجلی عام طور پر 4 سے 8 گھنٹے کے لیے آتی تھی اور کبھی کبھار بالکل نہیں۔

مزید پڑھیں: چین کا غزہ میں ’مستقل اور جامع‘ جنگ بندی پر زور، فلسطینیوں کے اپنے علاقے پر حق حکمرانی کی حمایت

’اگر رات کو بجلی آتی تو ہم اسی وقت کپڑے دھوتے، استری کرتے اور کھانا بناتے, 8 گھنٹے بجلی ملنا خوشی کی بات ہوتی تھی۔‘

پانی بھی 2 یا 3 دن بعد آتا، تو لوگ ٹینک بھر کر ذخیرہ کرتے۔ ان مشکلات کے باوجود طلبا نے اپنی یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کی۔

’غزہ کے عوام کی شکرگزاری اور ثابت قدمی نے ہمیں قیمتی سبق دیا۔‘

’غزہ کے لوگ کبھی نہیں کہتے، ہم ہار گئے‘

کیفسَر کے مطابق، غزہ کی مشکلات نے وہاں کے لوگوں کو ٹوٹنے کے بجائے مضبوط بنایا۔

’زندگی سخت تھی، مگر اس نے انہیں طاقتور بنا دیا، ان کا ایمان پختہ ہے، وہ جلد سنبھل جاتے ہیں اور کبھی نہیں کہتے کہ ہم ختم ہو گئے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ الاقصیٰ مسجد پر حملوں نے غزہ کے عوام کو متحد کر دیا۔

مزید پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری، الشفا اسپتال کے ڈائریکٹر کے خاندان سمیت 91 فلسطینی شہید

’انہوں نے قربانیاں دیں، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ جنگ کیوں شروع ہوئی، بلکہ سب نے اپنی طاقت پہچانی۔‘

جارادہ کہتی ہیں کہ 2 سال گزرنے کے باوجود غزہ شکست خوردہ نہیں۔ ’اسرائیل نہ اپنے تمام قیدی واپس لا سکا، نہ غزہ پر مکمل قبضہ، اس لیے غزہ ابھی بھی سر بلند ہے۔‘

’لوگ کنویں یا سمندری پانی پر زندہ رہے‘

8 اکتوبر 2023 کے بعد کے حالات یاد کرتے ہوئے جارادہ کہتی ہیں کہ بمباری اور ناکہ بندی کے دوران لوگ کنویں یا سمندری پانی پر زندہ رہے، حتیٰ کہ جنگلی پودے کھائے۔

’میرے بچے 2 ہفتے صرف پانی پر گزارہ کرتے رہے، ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہم نے مرغیوں کا دانہ پیس کر روٹی بنائی۔‘

ان کے مطابق اسپتالوں پر حملوں سے صحت کا نظام تباہ ہو گیا، زخمیوں کو علاج نہ مل سکا، اور ہزاروں بے گھر خاندان خیموں یا ملبے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔

’غزہ کے لوگ دوبارہ سنبھلنا جانتے ہیں‘

کیفسَر یلماز جارادہ کا کہنا ہے کہ غزہ کے معاشرے میں ’خود کو ازسرنو تعمیر کرنے کی فطری صلاحیت‘ موجود ہے۔

’جیسے ہی جنگ بندی ہوتی ہے، سب سے پہلے مساجد کی مرمت کی جاتی ہے، لوگ دوبارہ جمع ہوتے ہیں، گھر بنتے ہیں، گلیاں صاف کی جاتی ہیں اور زندگی پھر سے شروع ہو جاتی ہے۔‘

مزید پڑھیں: غزہ پر اسرائیلی حملے، ایک دن میں 57 فلسطینی جاں بحق

وہ کہتی ہیں کہ غزہ کے لوگ فیاض، شاکر اور باہمت ہیں، وہاں گزارے گئے 24 سالوں نے انہیں صبر، شکر اور یکجہتی سکھائی۔

اپنے بچوں کو غزہ میں پالنا ان کے لیے اعزاز تھا۔

’دنیا نے غزہ کے عوام کی ہمت اور وقار دیکھا ہے، دعا ہے کہ ایک دن ہم سب مل کر آزاد القدس میں نماز ادا کریں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

القدس بمباری ترک خاتون تعلیم جنگ بندی شکست خوردہ غزہ ناکہ بندی

متعلقہ مضامین

  • ترک خاتون کی داستانِ غزہ: ’زندگی رک جاتی ہے، مگر تعلیم نہیں‘
  • دنیا عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری کے ہدف تک محدود رکھنے میں ناکام
  • چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا کی زیر صدارت اسلام آباد میں سموگ کے تدارک و ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے اہم اجلاس
  • سمندر گھنائو نے کھیل پر ھارت کو شدید جواب ملے گا : ڈی جی آئی ایس پی آر 
  • ’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘
  • کراچی: سمندر کے راستے ڈیزل اسمگل کرنے کی کوشش ناکام، ایف بی آر
  • بھارت گہرے سمندر میں ایک اور فالس فلیگ آپریشن کی تیاری کر رہا ہے، ترجمان پاک فوج
  • بھارت گہرے سمندر میں ایک اور فالس فلیگ آپریشن کی تیاری کر رہا ہے، ترجمان پاک فوج
  • ایسے شواہد موجود ہیں کہ بھارت اس بار سمندر کے راستے سے کوئی کارروائی کرسکتا ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • لگتا ہے بھارت سمندر کے راستے کوئی فالس فلیگ آپریشن کریگا، ڈی جی آئی ایس پی آر