Jasarat News:
2025-11-07@04:45:15 GMT

امریکا، برطانیہ: عالمی سیاست کا رخ متعین کرتی ملاقات

اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کی حالیہ ملاقات نے بین الاقوامی تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ یہ دورہ نہ صرف دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی کی علامت ہے بلکہ موجودہ عالمی بحرانوں کے تناظر میں بڑی طاقتوں کے درمیان ہم آہنگی کی اشد ضرورت کو بھی واضح کرتا ہے۔ دفاعی و ترویراتی شراکت داری کے معاہدوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکا اور برطانیہ اپنی باہمی تجارت و صنعت کو نئی جہتوں سے آراستہ کر رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی پروسپرٹی ڈیل (TPD) میں شامل کوانٹم کمپیوٹنگ، مصنوعی ذہانت اور ایٹمی توانائی جیسے حساس شعبے اس بات کا اظہار ہیں کہ مستقبل کی معیشت اور سلامتی انہی عناصر پر استوار ہوگی۔ برطانیہ کی دفاعی خریداری میں 80 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری اور امریکا میں برطانوی کمپنیوں کے 30 بلین ڈالر کے منصوبے صرف معاشی تعاون نہیں بلکہ اسٹرٹیجک اعتماد کی علامت بھی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ معاہدے صرف برطانیہ اور امریکا تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ یورپی منڈیوں اور ناٹو کے دفاعی ڈھانچے پر بھی ان کے اثرات مرتب ہوں گے۔

عالمی تنازعات پر دونوں رہنماؤں کے بیانات بظاہر امن و استحکام کی خواہش کی عکاسی کرتے ہیں، مگر عملی صورتحال اس سے مختلف ہے۔ یوکرین میں جنگ کے طول پکڑنے سے یہ واضح ہے کہ مغربی طاقتیں درپردہ عسکری دباؤ کو ترجیح دیتی ہیں، حالانکہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے متعدد حلقے اس پرامن تصفیے کے لیے مذاکراتی راہ ہموار کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ اسی طرح غزہ میں انسانی بحران پر امریکا اور برطانیہ کی محدود سفارت کاری نے عالمی سطح پر ان کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیموں نے بھی بارہا اس بات پر زور دیا کہ محض ’’تحمل کی اپیل‘‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس تناظر میں دونوں ممالک کی پالیسیوں کو دوہرے معیار کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔ چا بہار بندرگاہ کے مسئلے پر ایران پر پابندیوں کی تجدید نے خطے میں طاقت کے توازن کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ بھارتی ماہرین معیشت کے مطابق اس اقدام سے بھارت کی وسطی ایشیا اور یورپ سے تجارتی روابط متاثر ہوں گے۔ پاکستان اور چین کے لیے یہ صورتحال ایک موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ گوادر پورٹ اور سی پیک کے منصوبوں کو زیادہ پرکشش اور فعال بنا کر خطے میں اپنی اقتصادی پوزیشن مستحکم کریں۔ ماہرین کے نزدیک خطے کی جغرافیائی سیاست اب دو دھڑوں میں بٹتی جا رہی ہے، جہاں ایک طرف امریکا اور اس کے اتحادی ہیں جبکہ دوسری طرف چین، روس اور ایران جیسے ممالک ایک نئے تجارتی و عسکری بلاک کی تشکیل میں مصروف ہیں۔

برطانیہ کے اندرونی حالات بھی اس ملاقات کے پس منظر میں اہمیت رکھتے ہیں۔ ٹرمپ کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ برطانوی عوام کا ایک بڑا طبقہ امریکی پالیسیوں سے ناخوش ہے۔ امیگریشن، موسمیاتی تبدیلی اور اسرائیل نواز رویہ ایسے نکات ہیں جن پر عوامی دباؤ اسٹارمر حکومت کو محتاط رویہ اپنانے پر مجبور کر سکتا ہے۔ ایپسٹین اسکینڈل جیسے پرانے تنازعات کا دوبارہ موضوع بحث بننا اس ملاقات کے تاثر کو مزید متنازع بنا گیا ہے۔ مستقبل کے امکانات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ امریکا برطانیہ کی بڑھتی ہوئی قربت عالمی فورمز جیسے ناٹو، جی 7 اور جی 20 میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔ یہ اتحاد چین کی بڑھتی ہوئی معیشت اور روس کے عسکری دباؤ کے مقابلے میں ایک مضبوط مغربی بلاک کے طور پر سامنے آئے گا۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا یہ بلاک حقیقی طور پر عالمی امن، انصاف اور پائیدار ترقی کے تقاضوں کو پورا کرے گا یا محض طاقت کے توازن کی روایتی کشمکش کو مزید شدت دے گا۔

یوں ٹرمپ اور اسٹارمر کی ملاقات بظاہر سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کی گئی ہے، لیکن اصل امتحان اس وقت ہوگا جب یہ معاہدے زمینی حقائق میں ڈھلیں گے۔ اگر امریکا اور برطانیہ عالمی برادری میں اپنی ساکھ کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں یوکرین، غزہ اور دیگر تنازعات میں غیر جانب دارانہ اور عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ بصورت دیگر یہ ملاقات ایک عارضی مظاہرہ ہی ثابت ہوگی، جو تاریخ کے اوراق میں محض ایک رسمی صفحہ بن کر رہ جائے گی۔ لہٰذا ٹرمپ اور کیئر اسٹارمر کی ملاقات محض دو طاقتور ممالک کی رسمی گفت و شنید نہیں بلکہ اس نے عالمی سیاست کی نئی ترجیحات کو بھی اجاگر کیا ہے۔ معاشی تعاون، دفاعی شراکت داری اور ٹیکنالوجی کے میدان میں معاہدے اگر اپنی عملی صورت اختیار کر جائیں تو یہ عالمی معیشت اور سیکورٹی پر مثبت اثر ڈال سکتے ہیں۔ لیکن اگر یہ معاہدے صرف بیانات اور اعداد وشمار تک محدود رہیں تو ان کی حیثیت وقتی سیاسی مظاہرے سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی۔ یوکرین، غزہ اور مشرق وسطیٰ جیسے بحرانوں میں امریکا اور برطانیہ کا رویہ اصل پیمانہ ہوگا جس سے دنیا فیصلہ کرے گی کہ آیا یہ شراکت عالمی امن کے لیے ہے یا صرف طاقت کے توازن اور معاشی مفادات کے لیے۔ تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ بڑی طاقتوں کے فیصلے صرف اپنے مفادات تک محدود رہیں تو ان کے نتائج دیرپا نہیں ہوتے۔ اگر ٹرمپ اور اسٹارمر واقعی ایک نئے باب کا آغاز کرنا چاہتے ہیں تو انہیں طاقت کی سیاست سے آگے بڑھ کر انصاف، انسانیت اور عالمی امن کو اپنی پالیسیوں کا مرکز بنانا ہوگا، ورنہ یہ ملاقات بھی ماضی کی سفارتی تقریبات کی طرح تاریخ کے ہنگامہ خیز دھارے میں گم ہو جائے گی۔

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: امریکا اور برطانیہ ٹرمپ اور ہیں تو کے لیے اور اس

پڑھیں:

خون میں چربی کی زیادتی (ڈس لپیڈی میا) پر تحقیقی جائزہ

اسلام ٹائمز: اگر قدیم اخلاطی نظریہ اور جدید بایومیڈیکل شواہد کو ایک ساتھ سمجھا جائے تو قلبی اور میٹابولک بیماریوں کی روک تھام کیلئے زیادہ جامع حکمتِ عملی تیار کی جا سکتی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر عابد رضا
حافط محمد الیاس انسٹیٹیویٹ آف فارماکولوجی اینڈ ہربل سائنسز، جامعہ ہمدرد کراچی

خون میں چربی کی زیادتی، جسے طبی اصطلاح میں ڈِس لپیڈی میا (Dyslipidemia) کہا جاتا ہے، عالمی سطح پر قلبی اور میٹابولک بیماریوں کے اہم عوامل میں شامل ہے۔ جدید حیاتیاتی اور کلینیکل تحقیق سے واضح ہوا ہے کہ خون میں لیپڈ پروفائل میں غیر متوازن سطحیں، جیسے کولیسٹرول اور ٹرائیگلیسرائیڈز کی بڑھتی ہوئی مقدار، شریانوں کی سختی، ایتھیروسکلروسیس، اور دل کے عارضہ جات کے خطرات میں خاطر خواہ اضافہ کرتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں امراضِ قلب، شریانوں کی تنگی، اور دیگر میٹابولک پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں، جو عالمی صحت کیلئے سنگین چیلنج ہیں۔ 

قدیم یونانی اطباء، جیسے ابنِ سینا، علی بن عباس المجوسی، اور چغمنی نے انسانی صحت اور بیماریوں کے مطالعے میں اخلاطی نظریہ (Humoral Theory) کو بنیاد بنایا۔ ان کے مطابق جسم میں چار بنیادی اخلاط موجود ہیں: خون، بلغم، صفرا اور سودا، اور ان کا توازن صحت کیلئے لازمی ہے۔ خون میں موجود روغنی مواد (Lipids) نہ صرف توانائی اور حرارت کا ذریعہ تھا، بلکہ اعضاء کی فعالیت اور مجموعی مزاج کیلئے بھی ضروری تھا۔ قدیم اطباء نے واضح کیا کہ خون میں چربی کی زیادتی یا کمی جسمانی توازن میں خلل پیدا کرتی ہے، جس سے دل، جگر اور دیگر اعضاء متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے نظریات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ غذا، مزاج، اور ماحولیات اخلاط کی مقدار اور معیار کو متاثر کرتے ہیں اور مناسب توازن کو برقرار رکھنا بیماریوں کی روک تھام کیلئے ضروری ہے۔ یہ فکری بصیرت آج کے جدید حیاتیاتی اور کلینیکل علم کے ساتھ قابلِ تطبیق ہے اور انسانی جسم کے پیچیدہ نظامات کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

جدید تحقیق نے ڈِس لپیڈی میا کے بایومیڈیکل میکانزم کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ خون میں موجود LDL کولیسٹرول، جسے عموماً "خراب کولیسٹرول" کہا جاتا ہے، شریانوں میں جمع ہو کر ان کی سختی اور ایتھیروسکلروسیس کا سبب بنتا ہے۔ اس کے برعکس HDL کولیسٹرول، جسے "اچھا کولیسٹرول" کہا جاتا ہے، اضافی چربی کو شریانوں سے دور لے کر دل اور دیگر اعضاء کیلئے فائدہ مند ہوتا ہے۔ متعدد مطالعات نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ خون میں چربی کی غیرمتوازن سطحیں قلبی امراض، ذیابیطس اور دیگر میٹابولک عوارض کے خطرے میں اضافہ کرتی ہیں،
یہ تحقیقی جائزہ یونانی طب کے کلاسیکی نظریات اور جدید حیاتیاتی سائنس کے اصولوں کو جوڑنے کی ایک کامیاب کاوش ہے۔ تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ ڈِس لپیڈی میا یعنی خون میں چربی کی زیادتی یا کمی، آج کے دور میں قلبی امراض، شریانوں کی تنگی، اور دیگر میٹابولک پیچیدگیوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔

قدیم یونانی اطباء صدیوں قبل ہی جسم میں چربی کے توازن، حرارت اور مزاج کے تعلق کو بیان کر چکے تھے۔ ان کے مطابق اعضاء میں چربی کا جمع ہونا جسم کی سرد مزاجی کی علامت ہے اور خون میں موجود چربی توانائی اور حرارت کا ذریعہ ہے، بالکل اسی طرح جیسے چراغ کو جلانے کیلئے تیل ایندھن کا کام کرتا ہے۔ اس طرح، قدیم یونانی معالجین نے خون میں موجود روغنی مادّے (Lipids) کو انسانی غذا، توانائی اور جسمانی ساخت کیلئے بنیادی حیثیت دی، اور ان کا عدم توازن وہی اثرات پیدا کرتا ہے، جنہیں آج ہم ڈِس لپیڈی میا کہتے ہیں۔ یہ تحقیق نہ صرف یونانی طب کے علمی و نظریاتی ورثے کی توثیق کرتی ہے بلکہ جدید حیاتیاتی تحقیق کیلئے ایک نیا فکری پل بھی فراہم کرتی ہے۔

اس جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر قدیم اخلاطی نظریہ اور جدید بایومیڈیکل شواہد کو ایک ساتھ سمجھا جائے تو قلبی اور میٹابولک بیماریوں کی روک تھام کیلئے زیادہ جامع حکمتِ عملی تیار کی جا سکتی ہے۔ ڈِس لپیڈی میا کے مطالعے سے بیماری کے پیدا ہونے اور ظاہر ہونے کے عمل کو بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور قدیم نظریاتی فریم ورک اور جدید سائنسی شواہد کا امتزاج بروقت تشخیص اور مؤثر علاج کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ تحقیق عالمی سائنسی کمیونٹی کیلئے نہایت اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ یہ تاریخی طبی حکمت کو جدید سائنسی طریقوں کے ساتھ یکجا کرتی ہے اور مستقبل کی تحقیق اور طبی عمل میں مؤثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • برطانوی وزیر ٹریڈ پالیسی کی ملاقات، دوطرفہ تجارت کے وسیع مواقع موجود: احسن اقبال
  • شادی عورت کی شخصیت یابنیادی حقوق ختم نہیں کرتی،عدالت عظمیٰ
  • خون میں چربی کی زیادتی (ڈس لپیڈی میا) پر تحقیقی جائزہ
  • 27ویں آئینی ترمیم: فیصل واوڈا کی مولانافضل الرحمن سے ملاقات
  • امریکا غزہ میں عالمی فوج کی تعیناتی کیلئے سرگرم (اقوام متحدہ سے منظوری مانگ لی)
  • اقوام متحدہ غزہ میں عالمی فوج تعینات کرنے کی منظوری دے، امریکا
  • تعریفیں اور معاہدے
  • اقوام متحدہ غزہ میں عالمی سیکیورٹی فورس کے قیام کی منظوری دے،امریکا
  • غزہ میں عالمی فوج کی تعیناتی کیلئے امریکا نے اقوام متحدہ سے منظوری مانگ لی
  • نسٹ کے ریکٹر، ڈاکٹر محمد زاہد لطیف سے پاکستان ہائی کمشنر کی ملاقات