لاہور ہائیکورٹ نے نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کے صحافیوں کو نوٹسز پر سوالات اٹھا دیے
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
لاہور:
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے صدر پریس کلب ارشد انصاری سمیت 6صحافیوں کو نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کی جانب سے جاری نوٹسز پر حکم امتناعی جاری کردیا ۔
جسٹس عالیہ نیلم نے کیس کے حوالے سے تفتیشی افسر کو بھی 14اکتوبر کو طلب کرلیا ۔
لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم نے صدر لاہور پریس کلب سمیت دیگر صحافیوں کو این سی سی آئی اے کے نوٹسز کے خلاف درخواست پر سماعت کی اور نوٹسز کے حوالے سے سوالات اٹھا دیے۔
اس موقع پر صدر پریس کلب ارشد انصاری ، صدر کورٹس جرنلسٹ ایسوسی ایشن محمد اشفاق سمیت صحافیوں کی بڑی تعداد عدالت میں پیش ہوئی ۔ دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ کمپلینٹ کی کاپی سمیت ریکارڈ آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کیا جائے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کمپلیننٹ عزیز اللہ کون ہے؟ یہ نوٹس کس قانون کے تحت جاری ہوئے؟۔ این سی سی آئی اے نے یہ کیا تماشا لگا ہوا ہے؟۔ روزانہ یوٹیوبرز مختلف اداروں کی ہرزہ سرائی کرتے ہیں، کیا ان کے خلاف بھی یہی ایکشن لیا گیا ؟
جسٹس عالیہ نیلم نے سوال اٹھایا کہ این سی سی آئی اے کے پاس 50ہزار شکایات ہیں، کیا تمام پر ایسے ہی ایکشن لیا گیا؟۔
سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے لا افسر رفاقت ڈوگر عدالت میں پیش ہوئے۔
واضح رہے کہ ارشد انصاری، مجاہد شیخ ،احمد فراز سمیت 6 صحافیوں نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے، جس میں این سی سی آئی اے کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ارشد انصاری سینئر صحافی اور لاہور پریس کلب کے صدر ہیں۔ اب این سی سی آئی اے کی جانب سے درخواست گزاروں کے خلاف کی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ این سی سی آئی کی جانب سے طلبی کے 2 نوٹسز بھیجے گئے ہیں۔
درخواست کے مطابق نوٹس جاری کرنے کے فوری بعد این سی سی آئی اے نے کرائم رپورٹرز کے گھروں پر چھاپے مارے ۔ این سی سی آئی اے کی صحافیوں کے خلاف کارروائی غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ عدالت سے استدعا ہے کہ این سی سی آئی اے کی جانب سے جاری نوٹسز کالعدم قرار دے اور درخواست کے حتمی فیصلے تک این سی سی آئی اے کے نوٹسز پر عملدرآمد معطل کرے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سی سی آئی اے جسٹس عالیہ نیلم لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے چیف جسٹس پریس کلب کے خلاف
پڑھیں:
ہائیکورٹ کا جج ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑا ہے: جسٹس طارق جہانگیری
ہائیکورٹ کا جج ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑا ہے: جسٹس طارق جہانگیری WhatsAppFacebookTwitter 0 25 September, 2025 سب نیوز
کراچی (آئی پی ایس) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا ہے کہ ہائیکورٹ کا جج ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑا ہے۔
سندھ ہائیکورٹ کے 2 رکنی بنچ کے روبرو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس ثمن رفعت، ایڈیشنل اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور کراچی یونیورسٹی کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری کا بیان
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے روسٹرم پر آکر بیان دیا کہ انہوں نے اس کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کی ہے، انہیں کبھی کراچی یونیورسٹی کی جانب سے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا ہے۔
جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیئے کہ ہم پہلے درخواست کے قابل سماعت ہونے کا معاملہ دیکھیں گے، جس پر جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ وہ اس کیس میں متاثرہ فریق ہیں۔
وکلا کے دلائل اور اعتراضات
جسٹس کے کے آغا نے استفسار کیا کہ جس نے کیس فائل کیا ہے وہ وکلاء کہاں ہیں؟ جس پر فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ متاثرہ شخص کو شامل کیے بغیر کیسے درخواست قابل سماعت ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے؟ اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ، کراچی بار و دیگر کے وکلا نے بنچ پر ہی اعتراض کر دیا۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ بنچ میں شامل جسٹس عدنان الکریم میمن نے جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فاروق ایچ نائیک کے کیسز اپنے روبرو مقرر کرنے سے منع کیا تھا۔
سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی درخواست
سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے فوری سماعت کی درخواست دائر کی اور مؤقف اپنایا کہ اگر کوئی آرڈر جاری نہ کیا گیا تو کمیشن کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے تاہم فوری سماعت کی درخواست میں کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی تھی، انتظامی آرڈر کے ذریعے کیس کو آئینی بنچ 2 سے بنچ ایک میں منتقل کیا گیا۔
جسٹس عدنان الکریم میمن نے کہا کہ ان کا اس کیس میں کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے، بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ہمارا اعتراض ذاتی نہیں بلکہ قانونی ہے، جسٹس کے کے آغا نے بیرسٹر صلاح الدین کو کہا کہ ہم آپ کے اعتراضات پر آرڈر کریں گے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ فوری سماعت کی درخواست نمٹائی جا چکی ہے، اگر فریقین کو اعتراض ہے تو اپیل دائر کریں، وکیل جامعہ کراچی طاہر احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے عدالت کو گمراہ کیا اور یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری کا مؤقف
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ پہلی بار ہائی کورٹ کا جج ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑا ہے، میرا جرم حلف سے وفاداری بنا دیا گیا ہے، میری ڈگری اصلی ہے اور میں امتحان میں بھی بیٹھا تھا۔
انہوں نے کہا کہ 34 برس بعد جعل سازی کر کے ڈگری کو متنازع بنایا گیا، میرے خلاف کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے، میں نے کسی کے کہنے پر فیصلے نہیں کیے، مجھے کم از کم سماعت کا موقع دیا جائے، پھر چاہے میرے خلاف فیصلہ دیا جائے۔
وکلا کا مؤقف اور عدالتی فیصلہ
فریقین کے وکلا نے کہا کہ پہلے ہمارے اعتراضات کا فیصلہ کیا جائے اور بعد میں درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ کیا جائے، اس کے بعد تمام درخواست گزاروں کے وکلاء کمرہ عدالت چھوڑ کر چلے گئے اور عدالت نے تمام درخواستیں عدم پیروی پر خارج کر دیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرقائداعظم کے نواسے اور اہلِ خانہ پر جعلسازی کا مقدمہ درج قائداعظم کے نواسے اور اہلِ خانہ پر جعلسازی کا مقدمہ درج گردشی قرضہ تمام وسائل نگل رہا تھا، اس مسئلے سے نمٹنا بہت بڑی کامیابی ہے: وزیراعظم وزیراعظم کا پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان تعلقات مضبوط کرنے کے عزم کا اعادہ معرکہ حق پاکستان کی عظیم فتح، فیلڈ مارشل نے دکھایا جنگیں کیسے لڑی جاتی ہیں،وزیراعظم وزیراعظم شہباز شریف کی آج وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات متوقع ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں برقی سیڑھی کی خرابی ’سازش‘ قرار دے دیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم