UrduPoint:
2025-09-26@13:58:04 GMT

اسرائیل کو مغربی کنارے کو ضم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، ٹرمپ

اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT

اسرائیل کو مغربی کنارے کو ضم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، ٹرمپ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 ستمبر 2025ء) ٹرمپ نے اوول آفس میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے، جہاں انہوں نے اس حوالے سے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا، ''میں اسرائیل کو مغربی کنارے کو ضم کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ ایسا نہیں ہونے والا ہے۔‘‘

صحافی نے ان سے جب یہ سوال کیا کہ کیا اس بارے میں ان کی اسرائیلی وزیر اعظم بینجیمن نیتن یاہو سے بات ہوئی ہے، تو انہوں نے کہا ، ''بات ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، بہت ہو چکا ہے، یہ روکنے کا وقت ہے، ہم اس کی اجازت نہیں دینے والے ہیں۔

‘‘

اسرائیل 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد سے مغربی کنارے پر قابض ہے اور فلسطینی اتھارٹی مغربی کنارے کے نیم خود مختار علاقوں کا انتظام سنبھالتی ہے۔

سن 1967 سے ہی اسرائیل مغربی کنارے میں بستیاں تعمیر کر رہا ہے، جنہیں بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی تصور کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اسرائیل نے حال ہی میں مغربی کنارے میں ایک متنازعہ آباد کاری کے منصوبے کو منظوری دی تھی، جس سے علاقہ دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا اور فلسطینی ریاست کے امکانات کو نقصان پہنچے گا۔

ٹرمپ نے غزہ تنازعہ کے حل پر بات چیت کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم بنجیمن نیتن یاہو کے ساتھ فون پر بات چیت کی اور اس کے بعد اس موضوع پر سوالات کا جواب دیا۔

نیتن یاہو پر فلسطینی سرزمین کو ضم کرنے کے لیے دائیں بازو کے اتحادیوں کے دباؤ کا سامنا ہے، جس کی مذمت کی جا رہی ہے۔

ٹرمپ نے منگل کے روز سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، مصر، اردن، ترکی، انڈونیشیا اور پاکستان کے رہنماؤں سے ملاقات کی تھی، تاکہ غزہ میں جنگ پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔

سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے جمعرات کو اقوام متحدہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''عرب اور مسلم ممالک نے صدر کو نہ صرف مغربی کنارے میں کسی بھی قسم کے الحاق کے خطرے بلکہ غزہ میں امن کے لیے اور کسی بھی پائیدار امن کے لیے خطرے کا باعث ہونے کی وضاحت پیش کی ہے۔‘‘

برطانیہ کے نائب وزیر اعظم کا غزہ کی صورتحال پر افسوس

برطانیہ کے نائب وزیر اعظم ڈیوڈ لیمی نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران غزہ کی صورتحال پر سخت افسوس کا اظہار کیا۔

لیمی نے کہا، ''غزہ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ناقابلِ دفاع ہے، یہ غیر انسانی ہے، اور اسے اب ختم ہونا چاہیے۔‘‘

لیمی نے کہا کہ برطانیہ ''فخر سے‘‘ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتا ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے اتوار کو ہی فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

لیمی نے اس موقع پر زور دے کر کہا کہ اسرائیلی اور فلسطینی دونوں ہی ''بہتر صورتحاتل کے مستحق ہیں۔

‘‘

انہوں نے 2023 میں اسرائیل پر حماس کے دہشت گردانہ حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ''سات اکتوبر کو حماس کی خوفناک کارروائیوں سے بہتر کا مستحق ہے جس نے بچوں کو ان کے والدین اور والدین کو ان کے بچوں سے جدا کر دیا۔‘‘

انہوں نے 2007 سے غزہ پر کنٹرول کرنے والے اسلام پسند عسکریت پسند گروپ کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ فلسطینی، ''حماس کی جنونی حکمرانی سے بہتر کے مستحق ہیں، جو کہ ایک گھٹیا، بے رحم دہشت گرد تنظیم ہے جس کا غزہ میں کوئی مستقبل نہیں ہونا چاہیے۔

‘‘

لیمی نے کہا کہ ''جیسے جیسے اسرائیل اپنی فوجی کارروائیوں میں اضافہ کر رہا ہے اور بار بار فلسطینی خاندانوں کو بے گھر کر رہا ہے، ان ہولناکیوں کا کوئی جواب نہیں ہو سکتا، تاہم امن کی امید کو زندہ رکھنے کے لیے ٹھوس سفارتی اقدام کی ضرورت ہے۔‘‘

اسرائیل نے حال ہی میں غزہ شہر میں ایک نیا حملہ شروع کیا، جس کی برطانیہ کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے۔

ادارت: جاوید اختر

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے لیمی نے کہا کہ نے کہا رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

مسئلہ فلسطین میں یورپ کی منافقت

اسلام ٹائمز: گارنٹی فراہم کرنے اور غاصب صیہونی رژیم پر دباو ڈالے بغیر فلسطینی ریاست کو تسلیم کر کے فلسطینی پرچم لہرانے جیسے علامتی اقدامات کا واحد فائدہ میڈیا پر چرچوں اور سازباز کرنے والے عناصر کو مضبوط بنانے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ جبکہ زمینی حقائق میں حتی چھوٹی سی تبدیلی بھی رونما نہیں ہوئی اور اسرائیل بدستور غزہ کی پٹی کو نگلنے میں مصروف ہے اور ساتھ ہی ساتھ مغربی کنارے اور شام کے جنوبی علاقوں کر بھی ہڑپ کر جانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک کو اسلامی مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لیے سازباز کرنے والے فلسطینی عناصر کو ساتھ ملانے کی ضرورت ہے۔ لہذا وہ اپنے خیال میں اسلامی مزاحمت سے عاری مستقبل کے سیٹ اپ میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ تحریر: محمد زمانی
 
یورپی ممالک نے آخرکار طویل عرصے کی تاخیر (اگر اوسلو معاہدے کو مدنظر قرار دیں) سے فلسطین کی خودمختار ریاست کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ اپنے ان بار بار کے وعدوں پر عمل پیرا ہو سکیں جو مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی راہ حل پر مبنی تھے۔ لیکن اس اقدام میں اتنی طویل تاخیر کے علاوہ اس بات پر بھی ٹھوس شواہد پائے جاتے ہیں کہ یورپی ممالک کا یہ اقدام ان کے منافقانہ ترین سیاسی اقدامات میں سے ایک ہے۔ وہ اس منافقت کے ذریعے درج ذیل بنیادی اہداف حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں:
1)۔ فیس سیونگ اور عزت حاصل کرنا: یورپی ممالک اس سے پہلے بھی غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ کے اسکولوں، اسپتالوں اور صحافیوں پر حملوں کی مذمت کر کے اپنی رائے عامہ میں پائے جانے والے شدید غصے اور ناراضگی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔
 
یاد رہے غزہ میں موجود انسانی بحران کی تصاویر اور رپورٹس ھشائع ہونے کے باعث مغربی رائے عامہ میں اسرائیل کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور وہ اپنی حکومتوں پر بھی اسرائیل کی مدد کرنے کی وجہ سے برہم ہیں۔ مزید برآں، مغربی حکومتیں اس بات سے بھی خوفزدہ تھیں کہ کہیں بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں عوام میں اسرائیل کے خلاف پائی جانے والی نفرت کا فائدہ اٹھا کر الیکشن میں انہیں مشکل حالات سے دوچار نہ کر دیں۔ لہذا اسپین میں حکمفرما بائیں بازو کی حکومت کے علاوہ باقی یورپی حکومتوں کے بارے میں اس بات کا قومی امکان پایا جاتا ہے کہ انہوں نے اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد کے مشورے سے خودمختار فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ یوں اپنی عوام میں موجود بے چینی اور غم و غصے کو کنٹرول کر سکیں اور کسی حد تک اپنی مشروعیت بھی بچا سکیں۔
 
یورپی حکمران اس اعلان کے ذریعے عالمی سطح پر امریکہ کی اپنے اسٹریٹجک اتحادی یعنی اسرائیل کا دفاع کرنے کا راستہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ یوں کہ اپنے اس اقدام کی مدد سے اپنی رائے عامہ کو انتہائی اقدام سے روکنے کی کوشش کریں گے۔ مغربی عوام اس وقت اپنی اپنی حکومتوں سے یہ انتہائی مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم سے ہر قسم کا سیکورٹی تعاون ختم کر دینے کے ساتھ ساتھ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے باعث اس پر پابندیاں بھی عائد کریں۔ اگر بالفرض یورپی حکومتوں نے خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان خلوص نیت سے کیا ہوتا تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کو بنیاد بنا کر اسرائیل کے خلاف پابندیوں کا بھی اعلان کرتے۔ لیکن یورپی حکمران امریکہ سے خوفزدہ ہیں اور کسی قیمت پر اسے ناراض نہیں کرنا چاہتے۔
 
2)۔ ذمہ داری سے جان چھڑانا: اگرچہ کچھ یورپی ممالک نے زبان کی حد تک قبضہ ختم ہونے اور فلسطینیوں کے حقوق فراہم کیے جانے کی بات کی ہے لیکن عمل کے میدان میں انہوں نے بھی اسرائیل کے خلاف موثر اور فیصلہ کن اقدامات جیسے فوجی اور سیکورٹی تعاون منقطع کر دینا، وسیع فوجی پابندیاں یا موثر اقتصادی دباو وغیرہ انجام دینے سے گریز کیا ہے۔ یوں یورپی ممالک نے نہ صرف اسرائیل کے خلاف دو ٹوک اقدامات کی ذمہ داری سے جان چھڑائی ہے بلکہ اسرائیل کو مدد کی فراہم جاری رکھنے اور خفیہ طور پر اس سے فوجی اور سیکورٹی تعلقات بحال رکںے کی خاطر ایک منافقانہ اقدام انجام دیا ہے۔
3)۔ سازباز کے مرتے منصوبے میں نئی روح پھونکنا: یورپی ممالک کی جانب سے خودمختار فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کا ایک اہم مقصد اور محرک سازباز اور مذاکرات میں نئی روح پھونکنا ہے۔
 
یہ بات فرانسیسی صدر کی تقریر میں بہت واضح طور پر دکھائی دیتی ہے جب اس نے فلسطین میں فرانسیسی سفارت خانہ کھولے جانے کو "اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی" سے مشروط کیا۔ اسرائیل کی بربریت اور انسان سوز مظالم پر مجرمانہ خاموشی کے باعث فلسطین اتھارٹی کی حیثیت ختم ہو چکی ہے جبکہ اسلامی مزاحمت کا اعتبار نہ صرف مغربی کنارے اور پوری عرب دنیا بلکہ پوری دنیا میں بڑھتا جا رہا ہے۔ لہذا حماس کے مقابلے میں محمود عباس اور فلسطین اتھارٹی کی حیثیت کا اعادہ کرنے اور اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کے مقابلے میں اسرائیل سے سازباز اور مذاکرات کے نظریے کی حمایت کی خاطر یورپی ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یوں انہوں نے دو ریاستی راہ حل کو مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔ گذشتہ دو برس کے دوران حماس کی جانب سے شاندار مزاحمت کے باعث سازباز کا نظریہ دم توڑ رہا ہے اور آخری سانسیں لے رہا ہے۔
 
4)۔ مزاحمت سے عاری سیٹ اپ میں اپنا حصہ بنانا: گارنٹی فراہم کرنے اور غاصب صیہونی رژیم پر دباو ڈالے بغیر فلسطینی ریاست کو تسلیم کر کے فلسطینی پرچم لہرانے جیسے علامتی اقدامات کا واحد فائدہ میڈیا پر چرچوں اور سازباز کرنے والے عناصر کو مضبوط بنانے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ جبکہ زمینی حقائق میں حتی چھوٹی سی تبدیلی بھی رونما نہیں ہوئی اور اسرائیل بدستور غزہ کی پٹی کو نگلنے میں مصروف ہے اور ساتھ ہی ساتھ مغربی کنارے اور شام کے جنوبی علاقوں کر بھی ہڑپ کر جانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک کو اسلامی مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لیے سازباز کرنے والے فلسطینی عناصر کو ساتھ ملانے کی ضرورت ہے۔ لہذا وہ اپنے خیال میں اسلامی مزاحمت سے عاری مستقبل کے سیٹ اپ میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کو مغربی کنارے کو ضم کرنے کی اجازت نہیں دوں گا، صدر ٹرمپ
  • اب بہت ہوچکا، اسرائیل کو مغربی کنارے کے انضمام کی اجازت نہیں دونگا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • اسرائیل کو مغربی کنارے کے انضمام کی اجازت نہیں دوں گا: صدر ٹرمپ کا دوٹوک اعلان
  • اب بہت ہو چکا، اسرائیل کو مغربی کنارے کے انضمام کی اجازت نہیں دوں گا، صدر ٹرمپ
  • مغربی کنارے اور اردن کے درمیان مرکزی بارڈر کل کھلنے کا امکان
  • اسرائیل نے مغربی کنارے کو ضم کیا تو ابراہیم معاہدوں کی حیثیت ختم ہوجائے گی: میکرون
  • مسئلہ فلسطین میں یورپ کی منافقت
  • فلسطینی ریاست بنانی چاہیے لیکن حماس کی گنجائش نہیں،ٹرمپ
  • مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجی کیمپ پر فائرنگ، سرایا القدس نے ذمہ داری قبول کر لی