روس، چین، پاکستان اور ایران نے افغان حکومت سے دہشت گرد گروہوں کے خاتمےکا مطالبہ کیا ہے۔ایرانی خبر رساں ادارے ایران پریس کی رپورٹ کے مطابق چین، ایران، پاکستان اور روس کے وزرائے خارجہ نے افغانستان کے حوالے سے اپنی چوتھی چار فریقی میٹنگ نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر روسی فیڈریشن کی دعوت پر منعقد کی۔ایک مشترکہ بیان میں چاروں ممالک نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ افغانستان کو ایک آزاد، متحد اور مستحکم ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جو دہشت گردی، جنگ اور منشیات سے پاک ہو۔مشترکہ بیان میں افغانستان سے پیدا ہونے والے دہشت گردی کے خطرات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور داعش، القاعدہ، مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم)، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، جیش العدل اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسی تنظیموں کو خطے اور دنیا کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا گیا۔وزرائے خارجہ نے افغان حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے، بھرتی اور مالی معاونت روکنے  اور تربیتی مراکز و ڈھانچے بند کرنے کے لیے قابل تصدیق اقدامات کریں۔وزرائے خارجہ نے افغانستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے علاقائی اقدامات کی حمایت کی اور اس بات پر زور دیا کہ افغان عوام کی خراب معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے مسلسل اقتصادی تعاون ضروری ہے۔انہوں نے 1988 کے پابندیوں کے نظام میں زمینی حقائق کے مطابق نرمی کرنے پر زور دیا اور خاص طور پر طالبان حکام کے سفر پر پابندیوں سے متعلق رعایتوں میں دہرے معیار اور سیاسی مفادات سے خبردار کیا۔اگست 2022 سے اب تک طالبان رہنماؤں کو سرکاری اور ذاتی وجوہات کی بنا پر تقریباً چار درجن بار سفری پابندیوں سے استثنیٰ دیا جا چکا ہے۔ روس نے حالیہ ہفتوں میں امریکا کے اس نئے مؤقف پر تنقید کی ہے کہ وہ 1988 کی طالبان پابندی کمیٹی کے کام کو سیاسی بنانے اور اپنے تنگ مفادات کے لیے استعمال کر رہا ہے۔وزرائے خارجہ نے افغان عوام کو بلا سیاسی امتیاز مزید ہنگامی امداد فراہم کرنے کے لیے عالمی برادری سے اپیل کی اور اس بات پر زور دیا کہ انسانی ہمدردی کی امداد کو جاری رکھا جائے۔چاروں ممالک نے پوست کی کاشت میں کمی کی کوششوں کو سراہا لیکن میتھ ایمفیٹامین جیسے مصنوعی منشیات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے منشیات کے خلاف جامع اقدامات، منظم جرائم کے نیٹ ورکس کے خلاف مشترکہ کارروائی، اور متبادل روزگار و زرعی معاونت کے لیے بین الاقوامی مدد پر زور دیا۔چاروں وزرائے خارجہ نے کہا کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کی بنیادی ذمہ داری نیٹو رکن ممالک پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے یکطرفہ پابندیاں ختم کرنے، منجمد افغان اثاثے واپس کرنے اور افغانستان یا اس کے ارد گرد کسی بھی غیر ملکی فوجی اڈے کے قیام کی مخالفت کا مطالبہ کیا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: وزرائے خارجہ نے افغان پر زور دیا کے لیے

پڑھیں:

افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان کو سنگین مسائل کا سامنا ہے؛ خواجہ آصف

ویب ڈیسک : وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے، حملوں میں ہمارے شہری،فوجی شہید ہورہےہیں، افغانستان ہمارےخلاف استعمال ہو تو دوست ملک کیسے کہا جاسکتاہے۔ آپ کے گھرسے حملے ہوں اور ہم بھائی کہیں یہ منافقت ہوگی، افغان طالبان ہمارےبھائی ہیں نہ دوست، اگر طالبان حکومت نے رویہ نہ بدلا تو پاکستان کو سخت اقدامات اٹھانا پڑیں گے۔

ان خیالات کا اظہار خواجہ آصف نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کیا، کہا کہ افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان کو سنگین مسائل کا سامنا ہے، افغان باشندے پاکستان کے پرچم کو سلام نہیں کرتے اور نہ ہی "پاکستان زندہ باد” کے نعرے لگاتے ہیں، ایسے میں انہیں بھائی کہنا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین نے پاکستان کے ٹرانسپورٹ بزنس پر قبضہ کرلیا ہے اور ریلوے کو بھی نقصان پہنچایا ہے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت اسمگلنگ کے لیے استعمال ہورہی ہے جبکہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہونے والی دہشت گردی کو بھی افغانستان سے پشت پناہی مل رہی ہے۔

پی ٹی آئی کارکن فلک جاوید کو گرفتار کر لیا گیا

 وزیر دفاع نے کہا کہ افغانستان سے متعلق میرے خیالات پر وزیراعظم اور فیلڈ مارشل سے کوئی اختلاف نہیں، اسی لیے مجھے بات کرنے سے نہیں روکا گیا۔ انہوں نے کہاکہ افغان مہاجرین کے مسئلے کا حل مہینوں کی نہیں بلکہ دنوں کی بات ہے، اگر افغانستان جنت نظیر بن گیا ہے تو مہاجرین کو واپس جانا چاہیے۔

 خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعاون کی تاریخ رہی ہے اور پہلی بار دونوں ملکوں کے دفاعی تعاون کو باقاعدہ معاہدے کی شکل دی گئی ہے، سعودی عرب میں اس وقت 1600 پاکستانی فوجی موجود ہیں اور مستقبل میں دفاعی تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔

فیصل آباد سے کراچی جانیوالی فرید ایکسپریس کی تین بوگیاں پٹری سے اتر گئیں  

 امریکی صدر ٹرمپ کی تجویز کے حوالے سے سوال پر وزیر دفاع نے کہا کہ غزہ کی صورتحال سنگین ہے، اگر امریکہ کی طرف سے کوئی باضابطہ تجویز آئی تو مسلم ممالک مشاورت کے بعد فیصلہ کریں گے کہ امن فوج بھیجنی ہے یا کنٹرول سنبھالنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان میں دہشتگردی پر تشویش، پاکستان، چین، روس اور ایران کا افغان حکومت سے فوری اقدام کا مطالبہ
  • چین، ایران، پاکستان اور روس کا افغانستان پر مشترکہ اعلامیہ
  •  اسداللہ بھٹوکی زیرقیادت ملی یکجہتی کونسل کے وفد کی افغان قونصل جنرل سے ملاقات
  • افغان دشمنی کی وضاحت
  • پاک افغان تعلقات کا نیا چیلنج
  • دباؤ میں ایران یورینیم کی افزودگی ترک نہیں کرے گا، خامنہ ای
  • افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان کو سنگین مسائل کا سامنا ہے؛ خواجہ آصف
  • پاکستان میں بڑھتی دہشتگردی: کیا افغان طالبان کی ٹی ٹی پی پر گرفت کمزور ہوگئی؟
  • جوہری معاہدے کے بارے امریکہ اور یورپ کا ایران کیخلاف دباؤ کا مشترکہ منظر نامہ