آئی سی سی کا فیصلہ: سوریاکمار یادو اور حارث رؤف پر 30 فیصد جرمانہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دبئی: انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے ایک اہم فیصلے میں پاکستانی فاسٹ باؤلر حارث رؤف اور بھارتی کپتان سوریاکمار یادو پر میچ فیس کا 30 فیصد جرمانہ عائد کردیا ہے۔
اس فیصلے نے ایک بار پھر پاک بھارت کرکٹ تعلقات میں جاری کشیدگی کو شہ سرخیوں میں اجاگر کردیا ہے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق آئی سی سی نے پاکستان کے بیٹر صاحبزادہ فرحان کو سخت وارننگ بھی جاری کی ہے، تاہم ان پر جرمانہ عائد نہیں کیا گیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق یہ کارروائی اس وقت عمل میں آئی جب سوریاکمار یادو کے متنازع بیان پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے باضابطہ شکایت درج کرائی تھی۔ آئی سی سی نے اس شکایت پر بھارتی کپتان کو طلب کیا اور تحقیقات کے بعد ان پر جرمانہ عائد کیا گیا۔
دوسری جانب بھارتی بورڈ نے بھی جمعے کے روز حارث رؤف اور صاحبزادہ فرحان کے خلاف شکایت درج کرائی تھی، جس پر دونوں کھلاڑیوں کو آئی سی سی میں پیش ہونا پڑا۔
ذرائع کے مطابق آئی سی سی کے فیصلے سے واضح ہوتا ہے کہ تنظیم دونوں بورڈز کی شکایات کو برابر وزن دے رہی ہے اور کھلاڑیوں کے رویے پر سختی برتنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
یہ اقدام نہ صرف کھلاڑیوں کے لیے ایک انتباہ ہے بلکہ دونوں ممالک کے بورڈز کو بھی یہ پیغام دیتا ہے کہ کرکٹ میدان کے اندر اور باہر کسی بھی قسم کی غیر سنجیدہ حرکت برداشت نہیں کی جائے گی۔
یہ فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ تعلقات انتہائی حساس مرحلے میں ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ جرمانہ نسبتاً ہلکی سزا ہے لیکن اس سے کھلاڑیوں کو مستقبل میں محتاط رہنے کا ضرور پیغام جائے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ترسیلات زر بڑھنے کے ساتھ تجارتی خسارے میں بھی اضافہ، ماہرین کا انتباہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: پاکستانی معیشت کے لیے ایک جانب بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر نے وقتی سہارا فراہم کیا ہے، تو دوسری طرف بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ ماہرین کے نزدیک خطرے کی نئی گھنٹی بجا رہا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2025 کے دوران بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے وطن عزیز میں 3.42 ارب ڈالرز کی ترسیلات بھیجیں، جو گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں تقریباً 11.9 فیصد زیادہ ہیں۔ یہ اضافہ وقتی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری کا اشارہ ضرور دیتا ہے، لیکن بڑھتی ہوئی درآمدات اور سکڑتی برآمدات نے حکومت کے لیے ایک نیا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے عبوری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2025-26 کے ابتدائی چار ماہ (جولائی تا اکتوبر) میں ترسیلات زر 12.96 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 9.3 فیصد زیادہ ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب بدستور سب سے بڑا ذریعہ ہے جہاں سے اکتوبر میں 820.9 ملین ڈالر موصول ہوئے، جو ماہانہ بنیاد پر 9.3 فیصد اور سالانہ بنیاد پر 7.1 فیصد زیادہ ہیں۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات سے 697.7 ملین ڈالر (15 فیصد اضافہ)، برطانیہ سے 487.7 ملین ڈالر (4.7 فیصد اضافہ) جب کہ امریکا سے ترسیلات 290 ملین ڈالر رہیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 8.8 فیصد کم ہیں۔
اسی طرح یورپی یونین کے ممالک سے مجموعی طور پر 457.4 ملین ڈالر موصول ہوئے، جو 19.7 فیصد سالانہ اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔
دوسری سمت صورتِ حال تشویشناک ہے۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق مالی سال کے ابتدائی چار ماہ میں تجارتی خسارہ 12.6 ارب ڈالر تک جا پہنچا، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ ہے۔ اس عرصے میں درآمدات 15.1 فیصد اضافے سے 23 ارب ڈالر تک جاپہنچیں جب کہ برآمدات 4 فیصد کمی کے ساتھ 10.5 ارب ڈالر پر سکڑ گئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف اکتوبر کے مہینے میں درآمدات 6.1 ارب ڈالر تک پہنچیں جو مارچ 2022 کے بعد سب سے زیادہ سطح ہے جب کہ برآمدات 2.8 ارب ڈالر رہیں، یوں ماہانہ تجارتی خسارہ 3.2 ارب ڈالر تک جا پہنچا — جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 56 فیصد زیادہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ترسیلات میں اضافہ وقتی ریلیف ضرور ہے، لیکن مستقل حل برآمدات میں اضافے اور درآمدی انحصار میں کمی سے ہی ممکن ہے۔ اگر حکومت نے فوری طور پر برآمدی پالیسی میں اصلاحات نہ کیں، تو موجودہ درآمدی دباؤ ایک بار پھر بیرونی کھاتوں پر شدید بوجھ ڈال سکتا ہے۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو اب درآمدی معیشت سے نکل کر پیداواری معیشت کی طرف جانا ہوگا تاکہ پائیدار اقتصادی استحکام حاصل کیا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق وزیرِاعظم نے بڑھتے خسارے سے نمٹنے کے لیے توانائی، ٹیکس اصلاحات اور برآمدی پالیسیوں پر مشتمل آٹھ ورکنگ گروپس قائم کر دیے ہیں، جو رواں ماہ کے وسط تک اپنی سفارشات پیش کریں گے، تاہم معیشت پر دباؤ کم کرنے کے لیے عملی اقدامات، صنعتی شعبے کی بحالی اور برآمدکنندگان کو سہولتیں دینے کے بغیر کوئی پائیدار بہتری ممکن نہیں۔