عالم اسلام متحد نہ ہوا تو سب کی حالت غزہ و کشمیر جیسی ہوگی، خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT
سیالکوٹ میں اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع کا کہنا تھا آج علامہ اقبالؒ کا یوم پیدائش منایا جا رہا ہے، علامہ اقبالؒ کا کلام ہمیشہ زندہ و پائندہ رہے گا، بدقسمتی سے ہم علامہ اقبال کا پیغام بھلا بیٹھے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ امت اس وقت بھٹکی ہوئی ہے، غزہ سے کشمیر تک ظلم ہو رہا ہے، اللہ تعالی ہمیں ہمت اور طاقت دے کہ ہم مظلوم بہن بھائیوں کی مدد کر سکیں، مظلوموں کے کیلئے آواز بلند کر سکیں اور لڑ سکیں۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اُمت نے اسلام دشمن قوتوں کیخلاف متحد ہو کر لڑائی نہ لڑی تو پھر ہم سب کی حالت بھی غزہ اور مقبوضہ کشمیر کی طرح ہو جائے گی۔ سیالکوٹ میں اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا آج علامہ اقبالؒ کا یوم پیدائش منایا جا رہا ہے، علامہ اقبالؒ کا کلام ہمیشہ زندہ و پائندہ رہے گا، بدقسمتی سے ہم علامہ اقبال کا پیغام بھلا بیٹھے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ امت اس وقت بھٹکی ہوئی ہے، غزہ سے کشمیر تک ظلم ہو رہا ہے، اللہ تعالی ہمیں ہمت اور طاقت دے کہ ہم مظلوم بہن بھائیوں کی مدد کر سکیں، مظلوموں کے کیلئے آواز بلند کر سکیں اور لڑ سکیں۔وزیر دفاع کا کہنا تھا اگر ہم اپنی اپنی مملکتیں بچاتے رہے اور ملکر نہ لڑے تو باری باری مشکل میں مبتلا ہوں گے، عالم اسلام نے متحد ہو کر یہ لڑائی نہ لڑی تو پھر سب کی حالت غزہ اور کشمیر کی طرح ہو گی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علامہ اقبال خواجہ آصف کا کہنا کر سکیں رہا ہے
پڑھیں:
یوم اقبال اور ہم
نومبرکا مہینہ شروع ہوتے ہی علامہ اقبال کے افکار عالیہ پاکستان کا خواب اور اس سلسلے میں قائد اعظم محمد علی جناح سے خط وکتابت، اسلام کی محبت سے سرشار، شاعری، ان کا طرز زندگی اور یوم پیدائش اور جائے ولادت غرض علامہ کی زندگی کا ہر دور نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے۔
شاعر مشرق علامہ اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کی اہمیت شاعری کے علاوہ مفکر، دانشور، حکیم الامت کے طور پر مسلم ہے۔
ان کے والد شیخ نور محمد نے علامہ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ انھوں نے انگریزی تعلیم سیالکوٹ کالج سے حاصل کی، اسی کالج میں انھیں میر حسن جیسے کامل استاد سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔
گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لینے کے بعد انھوں نے فلسفہ، عربی اور انگریزی مضامین کا انتخاب کیا، وہیں مسٹر آرنلڈ اور سید شیخ عبدالقادر (مدیر مخزن) سے متعارف ہوئے۔ 1901 میں انھوں نے ’’چاند‘‘ اور دوسری نظمیں تخلیق کیں، ان کی تخلیقات کی بہت جلد دھوم مچ گئی اور ان کے قدر دانوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
فلسفہ میں ایم اے کرنے کے بعد تاریخ و فلسفہ و سیاسیات کے لیے لیکچرار کی حیثیت سے تقرری ہوئی۔ 1905 میں فلسفہ اور معاشیات میں امتیازی سند حاصل کی اور تین سال لندن میں قیام کے دوران اسلامی موضوعات کو بروئے کار لاتے ہوئے خطیب اور اعلیٰ پائے کے مضامین نگار کے طور پر سامنے آئے۔
لندن یونیورسٹی کے شعبہ تدریس میں معلمی کے فرائض انجام دیے، میونخ سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ اور لندن سے قانون کا امتحان پاس کیا، اقبال نے وکالت شروع کی لیکن ان کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی، ان کی آسمانوں کی وسعتوں میں طواف کر رہی تھی، اور اسی سطوت علم کے چاند تاروں سے اپنی بصیرت وبصارت کو مرصع کرنے کے لیے بے قرار تھی۔
اسی دوران دوران انجمن حمایت الاسلام کے سالانہ جلسے میں نظم، شکوہ اور دوسرے جلسے میں جواب شکوہ پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ نظم شہرت دوام کے درجے پر پہنچ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے قومی نظم کی صورت اختیارکر گئی۔
مسلمانوں کی روح کو جھنجھوڑنے اور اعمال درست کرنے کی موجب ثابت ہوئی، بے شک یہ اور دوسری نظموں نے انقلاب برپا کر دیا اور ہند کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدارکردیا۔ دور دور تک اس کا شہرہ ہوا، انھوں نے ان مسلمانوں کے لیے اس طرح اظہار خیال کیا ہے جو اسلام کی بنیادی تعلیم سے ناآشنا تھے۔
کل ایک شوریدہ خواب گاہ نبیؐ یہ رو رو کے کہہ رہا تھا
کہ مصر و ہندوستان کے مسلم بنائے ملت مٹا رہے ہیں
یہ زائرین مغرب، ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں
قرآن کہتا ہے من یطع الرسول فقد اطاع اللہ
ترجمہ: جو شخص رسولؐ کی فرماں برداری کرے گا تو بے شک اس نے خدا کی فرماں برداری کی۔ علامہ نے عشق رسولؐ کے حوالے سے اتنا کچھ لکھا ہے کہ احاطہ کرنا ناممکن ہے۔
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں وہی طحہٰ
مومن کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:
عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں
انھوں نے ایک ایسے فرد کا تصور پیش کیا ہے جو اپنی ذات میں مکمل ہو اور دوسروں کے لیے رہنمائی کا باعث ہو۔ علامہ اقبال ایک سچے عاشق رسولؐ تھے، علامہ اقبال نے اپنی شاعری، نثرنگاری سے اپنے عہد بلکہ زمانے میں اپنے نظریات و خیالات سے طلاطم برپا کر دیا تھا۔
انھوں نے نثر میں فکری اجتہاد کا مظاہرہ کیا، یہی بات ان کی شاعری اور ان کے اجتہادات کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ اقبال کے معاصر ناقدین کی رائے کے مطابق کہ ’’ انھوں نے نئی بوتلوں میں پرانی شراب بھر دی ہے۔‘‘
اس بات کی تردید کرتے ہوئے علامہ نے کہا تھا کہ میں نے پرانے خیالات کے کامل ادراک کے بعد تاریخی عوامل کے تناظر میں انھیں جدید زمانے اور فکری و معاشرتی تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہے۔ مسلمانوں کے زوال اور عیش پسندی کی وجہ دین سے دوری اور قرآن پاک کی تعلیم سے بے گانگی نے انھیں ذلت و پستی کے گڑھے میں دھکیل دیا۔ علامہ نے مسلمانوں کی تباہی کو اس طرح شاعری کے سانچے میں ڈھالا ہے۔
واعظ قوم کی پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسمِ اذاں، روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
وہ مسلمانوں کی ترقی اور ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے اس طرح مخاطب ہیں۔
آشنا اپنی حقیقت سے ہو، اے دہقاں ذرا
دانہ تو، کھیتی بھی تو، خرمن بھی تو، حاصل بھی تو
آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو، راہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو
کانپتا ہے دل ترا اندیشہ طوفاں سے کیا
ناخدا تو، بحر تو،کشتی بھی تو، ساحل بھی تو
بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو اپنا نائب بنا کر اس دنیا میں بھیجا، اسے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا، اب یہ صلاحیتیں ہمارے اندر پوشیدہ ہیں۔ انھیں منظر عام پر لانے اور استفادہ کرنے کے لیے کوشش اور جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے وہ چاہے تو آسمان کا تارہ بن جائے اور اگر ترقی کرنے کا مادہ ہی نہ ہو تو تنزلی پر اکتفا کرکے زندگی کے دن گزار لے۔
نہیں ہے وابستہ زیرگردوں کمال، شانِ سکندری سے
تمام سامان ہیں تیرے سینے میں، تو بھی آئینہ ساز ہوجا
علامہ اقبال نے قائد اعظم محمد علی جناح کو جو خطوط لکھے تھے وہ تاریخی اہمیت کے حامل تھے۔ اس کی وجہ یہ خطوط ایک عظیم مفکر، شاعر، حکیم الامت کے تحریر کردہ ہیں۔ 21 جون 1937 کے خط سے چند سطور۔
’’کل آپ کا نوازش نامہ ملا، بہت بہت شکریہ۔ میں جانتا ہوں کہ آپ بہت مصروف آدمی ہیں، مگر مجھے توقع ہے کہ میرے بار بار خط لکھنے کو آپ بار خاطر نہ خیال کریں گے اس وقت جو طوفان شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے اس میں صرف آپ ہی کی ذات گرامی سے قوم محفوظ رہنمائی کی توقع کا حق رکھتی ہے۔‘‘
یوم اقبال اس سال بھی قومی سطح پر منایا جائے گا انشا اللہ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کا پیغام آج کے نوجوانوں تک پہنچ نہیں پا رہا ہے، اسی وجہ سے ہر شخص ذاتی مفاد کا طالب ہے۔
مفکرین مصلح قوم کے دن منان کے مقصد یہ ہے کہ ان کی تعلیمات،کردار اور ایثار و قربانی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی سوچ اور فکرکو تبدیل کیا جائے۔