سابق ڈی سی کُرم کی ٹانگ کی ہڈی جوڑ دی گئی، گولی نہیں نکالی گئی
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
سابق ڈی سی کُرم کی ٹانگ کی ہڈی جوڑ دی گئی، گولی نہیں نکالی گئی WhatsAppFacebookTwitter 0 11 January, 2025 سب نیوز
پشاور:سابق ڈی سی کرم جاوید محسود کی ٹانگ کی ہڈی جوڑ دی گئی تاہم گولی فی الحال نہیں نکالی گئی۔
دہشت گردوں کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے سابق ڈپٹی کمشنر جاوید محسود کا سی ایم ایچ میں کندھے کا کامیاب آپریشن کر لیا گیا ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق ڈاکٹرز نے جاوید محسود کے بائیں کندھے سے 2 گولیاں نکال دیں، تاہم کندھے کے فریکچر کی سرجری ابھی نہیں کی گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مناسب وقت پر جاوید محسود کے کندھے کی سرجری کی جائے گی۔
دوسری جانب جاوید محسود کے بیٹے سکندر محسود نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد کی حالت خطرے سے باہر ہے، حکومت اور پاک فوج کے مشکور ہیں کہ میرے والد کا مکمل خیال رکھا۔
یاد رہے کہ کُرم میں سابق ڈپٹی کمشنر جاوید محسود 4 جنوری کو شر پسندوں کی فائرنگ سے زخمی ہوئے تھے۔
ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
’مدرسے کے ظالموں نے میرے بچے کو پانی تک نہیں دیا‘: سوات کا فرحان… جو علم کی تلاش میں مدرسے گیا، لیکن لاش بن کر لوٹا
مدین(نیوز ڈیسک) مدین کے پہاڑوں سے اُٹھنے والی ایک معصوم آواز، چودہ سالہ فرحان… جسے والدین نے دین کی روشنی کے لیے سوات کے چالیار مدرسے بھیجا، واپس آیا تو ایک بےجان جسم تھا، چہرے پر نیلے نشانات، کمر پر تشدد کے زخم، اور آنکھوں میں زندگی کے بجائے سناٹا تھا۔
تین دن پہلے پیش آنے والا یہ لرزہ خیز واقعہ آج بھی والد ایاز کے لفظوں میں سسک رہا ہے۔ فرحان کے والد نے بتایا، ’میں نے مہتمم صاحب سے ویڈیو کال پر بات کی، کہا کہ بچہ شکایت کر رہا ہے، تکلیف میں ہے… مگر مہتمم نے یقین دہانی کروائی کہ آئندہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔‘
والد کے مطابق، شام ساڑھے چھ بجے دوبارہ رابطہ ہوا۔ مہتمم نے اطمینان سے کہا، ’بچہ ٹھیک ہے، خوش ہے۔‘ باپ نے دل کو تسلی دی کہ شاید بیٹے کا دل لگ گیا ہے، مگر اسی وقت وہ بچہ کسی کونے میں ظلم کے پنجوں میں تڑپ رہا تھا۔
ایاز کہتے ہیں، ’میں نے کہا بچہ تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ کرتا ہے، مگر پھر سنبھل جاتا ہے… شاید اسی وقت اُن درندوں نے اُسے مار ڈالا تھا۔‘ آنکھوں میں نمی اور آواز میں درد لیے وہ بولے، ’میرے فرحان کو پانی تک نہیں دیا گیا… وہ پیاسا مار دیا گیا!‘
فرحان کے چچا نے جب مہتمم کو فون پر بتایا کہ بچے نے ناپسندیدہ رویے کی شکایت کی ہے، تو مہتمم نے قسمیں کھا کر سب الزامات جھٹلا دیے۔ چچا کے مطابق، ’مہتمم کا بیٹا بھی قسمیں کھا رہا تھا… وہی جس پر میرے بھتیجے کو نازیبا مطالبات کرنے کا الزام ہے۔‘
یہ محض ایک بچے کی موت نہیں، ایک خواب کی، ایک نسل کی، اور والدین کے یقین کی موت ہے۔ تین سال سے فرحان اس مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ہر ماہ پانچ ہزار روپے دے کر والدین یہ سمجھتے رہے کہ ان کا بیٹا دین سیکھ رہا ہے۔ مگر مدرسے کی چھت تلے وہ ظلم سیکھ رہا تھا، مار سہہ رہا تھا، اور آخرکار خاموشی سے دم توڑ گیا۔
پولیس نے دو اساتذہ سمیت 11 افراد کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ مرکزی ملزم مہتمم تاحال مفرور ہے۔ مدرسے کے طلبہ نے انکشاف کیا ہے کہ وہاں مار پیٹ معمول کی بات ہے، اور کئی بچے خوف کے عالم میں جیتے ہیں۔ مقتول بچے کے نانا نے الزام عائد کیا ہے کہ فرحان سے جنسی خواہش کا تقاضا کیا جا رہا تھا، جس پر اُس نے مزاحمت کی۔
واقعے کے بعد خوازہ خیلہ بازار میں عوام کا جم غفیر نکل آیا۔ ہاتھوں میں فرحان کی تصویر، زبان پر ایک ہی نعرہ — ”قاتلوں کو سرعام پھانسی دو!“
ضلعی انتظامیہ نے مدرسے کو سیل کر دیا ہے، مگر سوال اب بھی باقی ہے — کتنے فرحان، کتنی ماؤں کی گودیں، کتنے والدوں کی امیدیں، اس نظام کے درندوں کی بھینٹ چڑھیں گی؟
یہ صرف فرحان کی کہانی نہیں… یہ ہر اُس معصوم کی کہانی ہے جو تعلیم کے نام پر کسی وحشی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
Post Views: 3