مشہور بھارتی مزاحیہ اداکار برین اسٹروک کا شکار، حالت تشویشناک
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
بالی ووڈ کے مشہور مزاحیہ اداکار ٹیکو تلسانیا برین اسٹروک کا شکار ہوگئے، جن کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔
اداکار کو ممبئی کے اسپتال میں داخل کروایا گیا ہے جہاں ان کی انتہائی نگہداشت میں ٹریٹمنٹ جاری ہے۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق بتایا گیا تھا کہ ٹیکو تلسانیہ کو دل کا دورہ پڑا ہے، لیکن بعد ازاں علم ہوا کہ اداکار دراصل برین اسٹروک کا شکار ہوئے تھے۔
اداکار کی اہلیہ دیپتی تلسانیا نے بتایا کہ ٹیکو ایک فلم کی اسکریننگ میں شریک تھے جہاں ان کی طبعیت خراب ہونے لگی، جس پر انھیں فوری طور پر اسپتال میں داخل کرایا گیا۔
70 سالہ سینئر اداکار ٹیکو تلسانیا اس وقت ممبئی کے کوکیلا بین دھیرو بھائی امبانی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
اداکار نے اپنے متعدد مزاحیہ اداکاروں سے شہرت پائی ہے اور کئی سپر ہٹ ہندوستانی فلموں میں کام کیا ہے جن میں ہم ہیں راہی پیار کے، انداز اپنا اپنا، قلی نمبر 1، راجہ ہندوستانی، چھوٹے میاں بڑے میاں وغیرہ شامل ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
’فریڈم فلوٹیلا میڈلین نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ‘
9 جون 2025 کو اسرائیلی فوجوں نے بین الاقوامی پانیوں میں میڈلین جہاز کو روک لیا، جو غزہ پٹی کے ساحل کے قریب تھا۔ اس جہاز پر 7 ممالک کے 12 کارکنان اور انسانی امداد کے ساتھ ساتھ خوراک کی سپلائی تھی، جو ایک ہفتے سے زائد عرصے سے سفر کر رہا تھا۔
ان کارکنان میں سویڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی شامل تھیں، جنہیں فلسطینی جدوجہد کی حمایت کرنے پر اسرائیلی سیاستدانوں اور دیگر کی طرف سے مسلسل نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیل نے امدادی سامان غزہ پہنچانے والا بحری جہاز بمباری سے تباہ کردیا
جہاز پر موجود امداد علامتی تھی اور اگر یہ غزہ کے بھوکے فلسطینیوں تک پہنچ بھی جاتی تو زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق غزہ کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے روزانہ کم از کم 500 ٹرک امداد کی ضرورت ہے۔ یہ بھی توقع کی جا رہی تھی کہ اسرائیلی فوجیں اسے غزہ کے ساحل تک پہنچنے سے پہلے ہی روک لیں گی۔
تاہم میڈلین نے ایک اہم مشن سر انجام دیا۔ اس نے دنیا اور ان حکومتوں کو جو غزہ میں نسل کشی کو روکنے اور ناکہ بندی ختم کرنے کے اپنے بین الاقوامی قانونی فرائض سے انکار کر رہی ہیں، ایک واضح پیغام دیا کہ غزہ کو فراموش نہیں کیا جائے گا۔
میڈلین کو فریڈم فلوٹیلا کوآلیشن (FFC) نے منظم کیا تھا، جو فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کی مہم چلاتا ہے۔ گزشتہ مہینے ان کا ایک اور جہاز کونشنس مالٹا کے علاقائی پانیوں سے باہر ڈرون حملے کا نشانہ بنا، جس کی وجہ سے وہ غزہ تک اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکا۔
غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کی کوششیںFFC غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کی ڈیڑھ دہائی سے جاری جدوجہد کا حصہ ہے۔ 2010 میں ترکی سے 6 جہازوں کا ایک بیڑا غزہ کی طرف روانہ ہوا، لیکن اسرائیلی فوجوں نے بین الاقوامی پانیوں میں اسے روک لیا۔ سب سے بڑے جہاز ماوی مرمرہ پر اسرائیلی کمانڈوز نے حملہ کیا اور 9 کارکنان اور صحافیوں کو ہلاک کر دیا۔جن میں سے تمام ترکی کے شہری تھے۔ آج تک، ماوی مرمرہ کے متاثرین کو انصاف نہیں ملا۔
اس واقعے کے بعد، نوم چومسکی نے لکھا:
’دہائیوں سے اسرائیل قبرص اور لبنان کے درمیان بین الاقوامی پانیوں میں جہازوں کو ہائی جیک کرتا آیا ہے، مسافروں کو ہلاک یا اغوا کرتا ہے، کبھی انہیں اسرائیل کے خفیہ جیل/تشدد خانوں میں لے جاتا ہے، تو کبھی سالوں تک یرغمال بنا کر رکھتا ہے۔ اسرائیل کو یقین ہے کہ وہ امریکا کی خاموشی اور یورپ کی بے عملی کی وجہ سے ایسے جرائم بے سزا کر سکتا ہے‘۔
بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیبین الاقوامی قانون کے تحت، ماوی مرمرہ اور میڈلین دونوں کو روکنا غیر قانونی ہے۔ اسرائیلی فوجوں کو بین الاقوامی پانیوں میں کارکنان کو حراست میں لینے کا کوئی قانونی اختیار نہیں۔ جیسا کہ فلسطینی نژاد امریکی وکیل حویدہ عرف اور FFC کی منتظمہ نے کہا:
’یہ رضاکار اسرائیلی دائرہ اختیار میں نہیں آتے اور نہ ہی امداد پہنچانے یا غیر قانونی ناکہ بندی کو چیلنج کرنے پر مجرم ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ ان کی حراست غیر قانونی ہے اور فوری طور پر ختم ہونی چاہیے‘۔(یاد رہے کہ اسرائیلی گریٹا تھاپر سمیت تمام گرفتار زدگان کو ملک بدر کر دیا ہے)۔
غزہ کا سمندری محاصرہغزہ بحیرہ روم کے کنارے واقع ہے، لیکن دہائیوں سے ہمسایہ ممالک سے بالکل کٹا ہوا ہے۔ اسرائیلی فضائی، زمینی اور بحری ناکہ بندی 2007 سے جاری ہے، لیکن اس سے پہلے بھی اسرائیلی بحریہ غزہ کے ساحلوں تک رسائی پر پابندیاں عائد کرتی رہی ہے۔
1993 کے اوسلو معاہدے نے فلسطینیوں کو اپنے پانیوں پر مکمل خودمختاری نہیں دی، بلکہ صرف 20 ناٹیکل میل (37 کلومیٹر) تک ماہی گیری، سیاحت اور قدرتی وسائل (جیسے گیس) کے استعمال کی اجازت دی۔ یہ UN کنونشن ’آن دی لا آف دی سی‘ کے تحت خودمختار ممالک کو دیے گئے 200 ناٹیکل میل کے حق کا صرف 10 فیصد ہے۔ لیکن اسرائیل نے ان 20 ناٹیکل میل کو بھی کبھی تسلیم نہیں کیا، بلکہ فلسطینی ماہی گیروں کو ساحل کے چھوٹے سے چھوٹے حصے تک محدود کر دیا۔
اسرائیل نے فلسطینیوں کو بیرونی دنیا سے بالکل کاٹ دیا ہے اور غزہ کی ماہی گیری کی روایت اور صنعت کو تباہ کر دیا ہے۔
ماہی گیروں پر حملےماہی گیروں کو انتہائی محدود علاقے میں مچھلیاں پکڑنے پر مجبور کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے سمندری وسائل کا شدید استعمال ہوا ہے۔ نسل کشی کے آغاز کے بعد سے غزہ کے ماہی گیروں کو نشانہ بنایا گیا، ان کے جہازوں کو بمباری سے تباہ کیا گیا اور ان کا سامان ضائع کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیل کا غزہ جانے والی امدادی کشتی پر چھاپہ، گریٹا تھنبرگ اور گیم آف تھرونز کے اداکار سمیت تمام کارکن گرفتار
انہی تباہ حال ماہی گیروں میں میڈلین کلب بھی ہیں، غزہ کی واحد فلسطینی خاتون ماہی گیر، جن کے نام پر فریڈم فلوٹیلا نے جہاز کا نام رکھا تھا۔ 4 بچوں کی ماں میڈلین کو نسل کشی کے دوران بارہا بے گھر کیا گیا اور اب وہ اپنے تباہ شدہ گھر میں پناہ لے چکی ہیں۔ ان کی ماہی گیری کے دن ختم ہو چکے ہیں۔
یورپی حکومتوں کی بے حسیبین الاقوامی قانون کے تحتUN رکن ممالک پر فرض ہے کہ وہ نسل کشی جیسے سنگین جرائم کے خلاف کارروائی کریں۔ ان پر پابندیاں عائد کرنے بشمول ہتھیاروں پر پابندی، کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن یورپی یونین جہاں سے میڈلین کے زیادہ تر کارکن تعلق رکھتے ہیں، نے نہ صرف یہ ذمہ داری ترک کی ہے، بلکہ اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنا جاری رکھا ہوا ہے۔ حالانکہ یورپی عوام کی اکثریت اسرائیلی حکومت اور اس کی جاری نسل کشی کی مخالف ہے۔
آخری پیغاممیڈلین کے کارکن جانتے تھے کہ وہ اپنی منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے، لیکن انہوں نے یکجہتی کا یہ خطرناک اقدام اس لیے کیا تاکہ دنیا کی توجہ دوبارہ غزہ پر مرکوز ہو اور اپنی حکومتوں کی مجرمانہ بے عملی کو اجاگر کیا جا سکے۔ جیسا کہ گریٹا تھنبرگ نے کہا:
’ہم یہ اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ ہمیں کوشش جاری رکھنی ہے، چاہے مشکلات کچھ بھی ہوں۔ کیونکہ جس دن ہم کوشش کرنا چھوڑ دیں گے، اس دن ہم اپنی انسانیت کھو دیں گے‘۔
میڈلین کو تو سمندر میں روک لیا گیا، لیکن اس کا یہ پیغام دور تک پہنچ چکا ہے:
’ناکہ بندی ختم ہوگی، اور فلسطینی آزادی تک سمندر جدوجہد کا ایک اہم محاذ رہے گا‘۔
۔۔۔۔۔۔
الجزیرہ میں شائع مضمون کی مصنفہ ’یارا ہواری‘ فلسطینی پالیسی نیٹ ورک الشباکا کی شریک ڈائریکٹر ہیں۔ وہ اس سے قبل فلسطین پالیسی فیلو اور سینیئر تجزیہ کار کے طور پر کام کر چکی ہیں۔ یارا نے اپنی پی ایچ ڈی یونیورسٹی آف ایکسیٹر میں مشرق وسطیٰ کی سیاست میں مکمل کی، جہاں اس نے مختلف انڈرگریجویٹ کورسز پڑھائے اور ایک اعزازی ریسرچ فیلو بنی رہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل غزہ فریڈم فلوٹیلا فلسطین گریٹا تھنبرگ میڈلین