بلوچستان کے ایک ہزار 116 لیویز اہلکار پولیس میں ضم
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
کوئٹہ:
حکومت بلوچستان نے صوبے کے ایک ہزار 116 لیویز اہلکاروں کو پولیس میں ضم کر دیا۔
بلوچستان کے چار اضلاع کوئٹہ، گوادر، حب اور لسبیلہ کے لیویز اہلکاروں کو پولیس میں ضم کرنے کی منظوری دی گئی۔
صوبائی حکومت نے اے ایر یا میں شامل ہونے والے کوئٹہ، لسبیلہ، حب اور گوادر کے ایک ہزار 116 لیویز اہلکاروں کو پولیس میں ضم کیا۔
ڈائریکٹر جنرل لیویز فورس بلوچستان نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ بلوچستان کو مراسلہ ارسال کر دیا جس میں کوئٹہ، گوادر، لسبیلہ اور حب میں لیویز کو پولیس میں شامل کرنے کی سفارش کی ہے۔
صوبے کے چار اضلاع میں لیویز فورس کے گریڈ 1 سے گریڈ 11 تک کے اہلکاروں میں انسپکٹر، محرر، رسالدار، نائب رسالدار، دفعدار، خاسدار، جمعہ دار اور حوالدار شامل ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پولیس میں ضم کو پولیس میں
پڑھیں:
بنوں میں امن کیلئے آواز اٹھانے کی پاداش میں سولہ پولیس اہلکاروں کو برطرف کیا گیا، پروفیسر ابراہیم
جماعت اسلامی کے صوبائی امیر کا کہنا تھا کہ اتحاد و اتفاق سے حکومت اور سیکورٹی فورسز پر امن کی بحالی کے لیے دباؤ ڈالیں گے، ہماری جدوجہد پُرامن ہے اور اس پُر امن جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ بنوں امن پاسون کمیٹی کے وفد نے ڈومیل میں احمد زئی قوم کے مشران اور عمائدین سے ملاقات کی۔ وفد میں جماعت اسلامی خیبر پختونخوا جنوبی کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء باز محمد خان اور میریان قوم کے رہنماء ڈاکٹر پیر صاحب زمان شامل تھے۔ کمیٹی نے احمد زئی قوم کے مشران کے سامنے اپنا مدعا پیش کیا اور ان سے تعاون کی درخواست کی۔ احمد زئی قوم نے مشاورت کے بعد عید کے پہلے ہفتے میں جرگہ منعقد کرکے اپنے جواب سے آگاہ کرنے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی خیبر پختونخوا جنوبی کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے احمد زئی قوم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بنوں امن پاسون صرف مغوی سرکاری استاد فرمان علی شاہ کی بازیابی کے لیے نہیں، بلکہ ضلع میں ہمہ گیر امن کے لیے ہے۔ ہم امن کے لیے کوشاں ہیں اور امن کے حصول تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ہم ناامید نہیں ہوئے، ان شاء اللہ بنوں، خیبر پختونخوا ور پورا ملک امن کا گہوارہ بنے گا۔
انہوں نے کہا کہ بنوں میں امن کے لیے آواز اٹھانے کی پاداش میں سولہ پولیس اہلکاروں کو برطرف کیا گیا جن میں سے ایک گزشتہ دنوں بحالی کی آس میں دنیا سے رخصت ہوگیا۔ کچھ لوگوں کو شیڈول فور کی صورت میں عذاب کا سامنا ہے۔ سڑکیں بند ہیں، بنوں چھاؤنی میں عوامی دفاتر ہیں لیکن ان تک جانے کے لیے فوجی چیک پوسٹ پر سے گزرنا پڑتا ہے جہاں عوام کی تذلیل کی جاتی ہے۔ یہ صورتحال پچھلے بیس سالوں سے جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ، چیف سیکرٹری اور کورکمانڈر سمیت دیگر اہم شخصیات نے ملاقاتوں میں تسلیاں دیں، وعدے وعید کیے لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے۔ مسئلے کے حل کے لیے حکومت کی جانب سے سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بنوں کی تمام تحصیلوں کا دورہ کر رہے ہیں، عمائدین سے ملاقات کر رہے ہیں، انہیں متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اتحاد و اتفاق سے حکومت اور سیکورٹی فورسز پر امن کی بحالی کے لیے دباؤ ڈالیں گے، ہماری جدوجہد پُرامن ہے اور اس پُر امن جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔