حکومتی رویہ مذاکرات کی کامیابی کا تعین کرے گا، علامہ ناصر عباس
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
حکومتی رویہ مذاکرات کی کامیابی کا تعین کرے گا، علامہ ناصر عباس WhatsAppFacebookTwitter 0 12 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس )سربراہ مجلس وحدت المسلمین اور رکن پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے حکومت اور پی ٹی آئی کے جاری مذاکرات کی کامیابی کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی رویہ ہی مذاکرات کی کامیابی کا تعین کرے گا۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ حکومت نے مذاکراتی کمیٹی کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت دینے سے انکار کر کے مذاکرات میں ایک ہفتے کی تاخیر کی، جس کام میں ہفتے لگ رہے ہیں وہ گھنٹوں میں ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر مذاکرات کو کامیاب بنانا ہے تو ہماری عمران خان نے ایک نہیں کئی ملاقاتیں کرانی چاہییں، 190ملین پاونڈز کیس میں عمران خان یا ان کے خاندان کا کوئی شخص بینیفشری نہیں۔
تحریک انصاف کے مطالبات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پورا ملک جانتا ہے کہ پی ٹی آئی کے مطالبات کیا ہیں؟ جبکہ حکومت صرف تحریری طور پر مطالبات مانگ کر قوم کا وقت ضائع کر رہی ہے۔علامہ ناصر عباس نے کہا کہ اتوار کو ملاقات کو دوران بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ حکومت کو مطالبات کا ڈرافٹ دے دیں، 190ملین پاونڈ میں پراسیکیوشن پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اس میں کوئی بندہ بینیفشری نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پارٹی رہنماوں سے ملاقات میں 9مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعادہ کرتے ہوئے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
رکن پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی نے کہا کہ سیاستدانوں کو عوام میں اپنا اعتماد پیدا کرنا چاہیے، سیاستدان کہیں اور دیکھیں گے توان کا وقار کم ہوگا، آزاد جوڈیشل کمیشن بنانے میں آخرحرج کیا ہے؟۔علامہ ناصر جعفری کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے مل بیٹھنا چاہیے، پی ٹی آئی کا تحریری ڈرافٹ جلد حکومت کے پاس پہنچ جائے گا، مذاکرات کے راستے بند ہو گئے تو پھر دوسرا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا سینیٹر اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈرز بنیادی مطالبہ ہیں تو علامہ ناصر جعفری نے کہا کہ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ فریقین میں اعتماد کی فضا پیدا ہوسکے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کا رویہ ہی مذاکرات کی کامیابی کا تعین کرے گا، حکومت کو پی ٹی آئی کے مطالبات تسلیم کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے تاکہ اہم ملکی معاملات پر توجہ مرکوز کر سکے۔سربراہ ایم ڈبلیو ایم نے مزید کہا کہ مذاکرات کی کامیابی سیاست دانوں کی شبیہ درست کرنے میں مدد ملے گی کہ وہ ملک میں فیصلے کرنے کے لئے آزاد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان لیڈر ہے، وہ سمجھتا ہے کہ کب اور کس وقت کیا بیان دینا ہے، جنگیں ہو رہی ہوں تو بھی مذاکرات ہوتے رہتے ہیں، حکومت کو دل بڑا کرنا پڑے گا، بیان بازی پر مذاکرات کو ثبوتاژ نہیں ہونا چاہیے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ نے کہا کہ حکومت علامہ ناصر پی ٹی آئی حکومت کو
پڑھیں:
بلوچستان اور کے پی میں حکومتی رٹ نہیں، دہشتگردی کا خاتمہ تو دور کی بات، مولانا فضل الرحمٰن
اسلام آباد:جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ بہت دور کا لفظ ہے، افسوس حکومت نام کی رٹ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بالکل بھی نہیں۔
ملی یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام مجلس قائدین اجلاس اور ’’قومی مشاورت‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ دن کے وقت بھی دہشتگرد دندناتے پھرتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں، ریاست اپنی ناکامیوں کا بوجھ ہم پر مت ڈالے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بدامنی ریاستی اداروں کی نااہلی ہے یا شعوری طور پر کی جا رہی ہے، اس حوالے سے ہمیں جرأت مندانہ موقف لینے کی ضرورت ہے، مسلح جدوجہد جائز نہیں۔ افغانستان پر جب امریکا نے حملہ کیا اس وقت ایک انتشاری کیفیت تھی، اس وقت ملک میں متحدہ مجلس عمل فعال تھی، اتحاد امہ کے لیے ہم اس وقت جیلوں میں بھی گئے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان میں دینی مقاصد کے لیے بھی اسلحے کو اٹھانا غیر شرعی قرار دیا، پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ہم حرام قرار دے چکے اور اس وقت سے آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ دہشت گردی کے خلاف سوات سے وزیرستان تک آپریشن ہوئے مگر جو مہاجر ہوئے وہ آج بھی دربدر ہیں، یہ لوگ جو افغانستان گئے تھے وہ کیسے گئے اور واپس کیوں آئے؟
26ویں ترمیم
مولانا فضل الرحمٰن نے واضح کیا کہ ہم نے 26 ویں ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبرداری پر مجبور کیا، اس کے بعد یہ 22 نکات پر منحصر ہوا جس میں ہم نے پھر مزید اقدامات کیے۔
انہوں نے بتایا کہ سود کے خاتمے کے حوالے سے 31 دسمبر 2027ء کی تاریخ آخری ہے اور اب باقاعدہ دستور میں درج ہے کہ یکم جنوری 2028ء تک سود کا مکمل خاتمہ ہوگا، ہم سب کو اس پر نظر رکھنی چاہیے کہ حکومت اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم کورٹ میں گئے تو حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا کہ وہ اپنے ہی آئین کے خلاف اٹارنی جنرل کھڑا کرے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف کوئی بھی سپریم کورٹ کا اپیلٹ کورٹ میں جائے تو وہ معطل ہو جاتا ہے، اب صورتحال یہ ہے کہ آئینی ترمیم کے بعد اب یکم جنوری 2028ء کو اس پر عمل ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس کے خلاف کوئی اپیل ہوئی تو ایک سال کے اندر یہ مہلت ختم ہوگی اور فیصلہ نافذ العمل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت کا کوئی چیف جسٹس نہیں بن سکتا تھا لیکن اب شرعی عدالت کا جج شرعی عدالت کا چیف جسٹس بن سکتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات بحث کے لیے پیش کی جائیں گے، پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی صرف سفارشات پیش ہوتی تھیں اب اس پر بحث ہوگی۔
غیرت کے نام پر قتل
انہوں نے کہا کہ یہ کون ہے جو جائز نکاح کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرے اور بے راہ روی کو راستہ دے، یہ کیسا اسلامی جمہوریہ ہے کہ زنا بالرضا کی سہولت اور جائز نکاح کے لیے دشواری؟
جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل انتہائی قابل مذمت اور غیر شرعی ہے، قانون سازی معاشرے کی اقدار کے مطابق ہونی چاہیے۔ اگر معاشرتی اقدار کا خیال نہ رکھا جائے تو قانون سازی پر دونوں طرف سے طعن و تشنیع ہوتی ہے۔
مسئلہ کشمیر و فاٹا انضمام
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ریاستی موقف واضح اور دو ٹوک ہوتا ہے، کس طرح مشرف نے کہا تھا کہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہا اور بتدریج جس طرح پاکستان کشمیر سے پیچھے ہٹا یہ سب ہمارے سامنے ہوا۔ مودی نے جب خصوصی حیثیت ختم کی اس وقت ہم مذمتی قرارد میں خصوصی آرٹیکل 370 کا تذکرہ تک نہ کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے فاٹا کا انضمام کر دیا اور اس وقت بھی کہا تھا یہ غلط کیا جا رہا ہے، خطے میں امریکی ایجنڈے کے نفاذ کے لیے جغرافیائی تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی گئیں۔ اب صوبائی حکومت خود کہتی ہے کہ انضمام کا فیصلہ درست نہیں تھا کمیشن بناتے ہیں، اب اگر آپ واپس ہٹیں گے یا صوبہ بنائیں دو تہائی اکثریت صوبائی و وفاق میں چاہیے ہوگی۔
اسرائیلی جارحیت
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ فلسطین پر اسرائیل ناجائز طور پر قابض ہے اور دو ریاستی حل صرف ایک دھوکا ہے، اسرائیل غاصب ہے۔ خالد مشعل نے گزشتہ روز گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 70 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے پہلے صدر نے کہا تھا کہ نوزائیدہ مسلم ریاست کا خاتمہ ہماری خارجہ پالیسی ہوگی، پاکستان نے 1940ء میں فلسطینیوں کے حق کے لیے آواز بلند کی اور سب سے پہلے ہم نے اسے ناجائز ریاست قرار دیا۔ حرمین بھی ہمارا ہے اور قبلہ اول بھی ہمارا ہے، مگر آج قبضہ یہود کا ہے، آج جو کچھ فلسطینیوں پر گزر رہی ہے یہ حضور اکرم کی حدیث ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ایران نے اس کا جواب دیا ہے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا ہم اس کی بھی کھل کر مذمت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاک انڈیا جنگ میں ایران نے جس طرح پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا وہ بھی لائق تحسین ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہم یہ بھی واضح کر رہے ہیں کہ حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے بھی اتحاد امت کے ساتھ میدان میں ہوں گے۔