عقل ہر گتھی نہیں سلجھا سکتی!
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
انسانی زندگی کی اصل حقیقت کیا ہے؟ کوئی حقیقت ہے بھی یا نہیں؟کیا انسان کو قدرت کی طرف سے دی گئی عقل ‘ کائنات کی ہر رمز کو سمجھ سکتی ہے‘ اس کے متعلق وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ کائنات بلکہ ان گنت کائناتوں کاتسلسل ‘ بندے کی فہم سے بالاتر ہے۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ دلیل اور زمینی علوم سے مشکل ترین گتھیاں نہیں کھل پاتیں۔
بات صرف اتنی ہے کہ تمام گتھیاں سلجھ نہیں پاتیں۔ دراصل شعور کی جس سطح پر آج کے دور میں ہم موجود ہیں ، سائنس کی مدد سے متعدد مشکل چیزوں پرعبور حاصل کیا جا چکاہے۔ مگر ہر چیز سائنس کے بس میںنہیں ہے۔ بلکہ درست الفاظ تو یوں ہیں کہ انسانی عقل ہر سطح پر کام کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ بذات خود سائنس کا طالب علم ہوں۔ ایم بی بی ایس بھی کر رکھا ہے۔ بچپن میں بھی سائنسی علوم پڑھتا رہا ہوں۔
مطلب یہ کہ دلیل اور منطق سے اردگرد کے ماحول کو دیکھتا ہوں۔ انسانی رویوں کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مشکل رموز‘ سمجھنے کی جدوجہد میں بھی مصروف رہتا ہوں۔ مگر اب ایسے معلوم ہوتا ہے کہ نہ میرے پاس کوئی علم ہے اور نہ ہی کوئی فہم۔ ایسے لگتا ہے کہ کسی معاملے کا کچھ بھی پتہ نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
چند دن پہلے‘ یوٹیوب دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ایک عالم کو تمام بزرگوں کے متعلق ہرزہ سرائی کرتے ہوئے پایا۔ نام نہیں لکھنا چاہتا ۔ پھر کئی دن اس عالم کو غور سے سنتا رہا۔ تو یہ محسوس ہوا ‘ کہ وہ کافی حد تک درست باتیں کر رہے ہیں۔ مگر اس کے بیانیے میں تضحیک ہی تضحیک تھی۔ انھیں حق حاصل ہے کہ وہ اپنے علم کے مطابق جو درست سمجھتے ہیں وہ ضرور فرمائیں۔ لوگوں کو جعلی پیروں ‘ فقیروں اور پاکھنڈیوںسے دور رکھیں۔ مگر سوال حد درجہ دقیق اور سنجیدہ ہے۔
کیا ہر امر کو انسان اپنے علم اور عقل کے حساب سے دیکھ سکتا ہے، پرکھ سکتا ہے ‘ سمجھ سکتا ہے اور پھر اس پر مکمل گرفت حاصل کر سکتاہے؟ جواب ہر شخص کا اپنا اپنا ہو گا۔ جس میں اس کی تربیت‘ تعلیم اور ایمان کے اجزاء ‘ سب کچھ شامل ہے۔ مگر طالب علم کا ایک سائنسی سوال ہے۔ مگر اس کا کوئی سائنسی جواب نہیں ہے۔ انسانی آنکھ روشنی میں ’’سب کچھ‘‘ دیکھ لیتی ہے۔ میز کہاں پڑی ہے۔ کتابیں کہاں موجود ہیں۔ کمروں کے دروازے وغیرہ کدھر ہیں۔ گاڑی کہاں موجود ہے۔ سطحی چیزیں تو ساری نظر آ جاتی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیاانسان ‘ روشنی کی بدولت ’’سب کچھ‘‘ دیکھنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ فزکس کے حساب سے اس کاجواب مکمل نفی میں ہے۔ روشنی‘ سات مختلف رنگوں کی آمیزش ہے۔
یعنی محدود سے رنگ جب ملتے ہیں تو روشنی کا وجود ہوتا ہے۔ مگر کیا یہ جائز سوال نہیں ‘ کہ کیا صرف کائنات میں صرف اور صرف سات رنگ ہیں۔ دلیل کی بنیاد پر عرض کرتا ہوں کہ کائنات میں ان گنت رنگ ہیں۔بلکہ لا محدود رنگوں کی آمیزش ہے ۔ سات رنگ تو حد درجہ محدود روشنی کو جنم دیتے ہیں۔اگر ہم اپنے شعور کو صرف اس ناپائیدار روشنی تک محدود کر لیں۔ تو یہ شعور کی بھی توہین ہو گی۔ مگر کیا رب کائنات جس نے ہر چیز پیدا کی ہے۔
اس نے پوری بنی نوع انسان کو محض محدود Spectrumدیکھنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس کا منطقی جواب یہ ہے کہ یہ سب کچھ‘ اللہ رب العزت کی طرف سے ودیعت ہے کہ وہ کس کو ‘ کونسی روشنی دیکھنے کی قوت دیتا ہے۔ اور یہ اختیار بھی اسی کا ہے کہ وہ جسے چاہے‘ کوئی بھی طاقت عطا کر دے۔یعنی بصیرت کی حد کو کھول کر رکھ دے۔ آپ روشنی کے معاملے سے آگے بڑھیے تو معاملہ اور بھی کمزور معلوم پڑتا ہے۔ انسانی آنکھ حد درجہ پیچیدہ چیز ہے ۔ ہماری بصارت ‘ دو قدرتی اجزاء پر بنی ہے۔ جسے روڈز اور کونز کہا جاتا ہے۔ یعنی آنکھ میں روڈز اور کونز کی بدولت‘ ہم دیکھ پاتے ہیں۔ درست بات تو یہ ہے کہ ان دونوںاجزاء کی دیکھنے اور دکھانے کی قوت بھی حد درجہ کم ہے۔
یہ ہر وجود کو دیکھ ہی نہیں سکتی ۔ یعنی موجودہ روشنی کے سات سے زیادہ اجزاء نہیں ہیں۔ اور روڈز اینڈ کونز جو دکھا سکتے ہیں ان سے زیادہ ان کے مطابق مزید اشیاء وجود نہیں رکھتیں۔اگر ہم اسی زاویے سے سوال کریں ۔ تو اس کا جواب میری نظر میں سادہ سا ہے۔ روشنی کے اجزاء بھی ان گنت ہو سکتے ہیں۔ اور روڈ اینڈ کونز کی طاقت بھی محدود سے لا محدود ہو سکتی ہے۔ یہ اختیار صرف اور صرف خدا اور قدرت کے پاس ہے۔ اس طاقت کو عقل اور دلیل کی بنیاد سے بڑھ کر بھی پرکھا جا سکتا ہے۔ خدا نے ان گنت مخلوقات ایسی پیدا کی ہیں۔ جو گھپ اندھیرے میں بالکل اسی طرح دیکھ سکتی ہیں جس طرح روشنی میں ۔ صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ جو بات ہمیں سمجھ نہ آئے۔
ضروری نہیں کہ وہ غلط ہو‘ فراڈ ہو۔ من گھڑت حکایتوں کی بابت بھی بات کر رہا ہوں۔ مگر ‘ حد درجہ محدود انسانوں کو خدا اگر اپنے حکم سے ‘ نواز دیتا ہے ۔ اور وہ دنیا میں دین کی سربلندی کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ انسانی وجدان بھی ایک ذریعہ ابلاغ ہے۔ Metaphysicsپر غور کیجیے۔ یہ مضمون اب اعلیٰ ترین درسگاہوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس کی ساری جہتیں سمجھے بغیر ‘ اس کو تسلیم کیا جا چکا ہے۔ دنیا کے متعدد سائنسدانوں نے Metaphysics کو تسلیم کیا ہے ۔ اور آج تک اس کی نفی نہیں ہو پائی۔ دراصل انسان‘ ہر بات سمجھنے کی اہلیت سے محروم رکھا گیا ہے۔ مگر بہت کم لوگ‘ چنے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ ان کاکوئی ذاتی کمال نہیں ہوتا ‘ بلکہ قدرت ان کے لیے خاص اہتمام کرتی ہے۔ اس کیٹیگری میں بزرگان دین‘ ولی‘ صوفی اور دیگر برگزیدہ ہستیاں آتے ہیں۔
ضعیف العتقادی نہیں پھیلا رہا۔ مگر داتا گنج بخش‘ نظام الدین اولیا‘ بابا فرید‘ خواجہ اجمیری ہرگز ہرگز عام آدمی نہیں تھے۔ یہ خدا کے وہ نیک بندے تھے امریکانے اپنی محدود زندگی میں‘ اتنے بلند پایا کام کیے کہ صدیوں بعد بھی وہ زندہ و جاوید ہیں۔اگر روحانی اعتبار سے ہم ان کو سمجھ نہیں سکتے تو ہمیں کوئی حق حاصل نہیں کہ ان کے متعلق منفی رویہ رکھیں۔ عقل اور دلیل کی حد درجہ محدود سی قوت میں نے تھوڑی دیر پہلے عرض کر دی ہے۔
توازن سے سوچئے ۔ ہر انسان کی زندگی میں ایسے واقعات ضرور ہوتے ہیں جو وہ سمجھ نہیں پاتا ان کی کوئی توجیہہ بھی نہیں ہوتی۔ طالب علم کی زندگی میں بھی ایسے پیہم تجربات وقوع پذیر ہوئے ہیں جن کا کوئی استدلال نہیں ہے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ ہوائی جہاز کا حادثہ ہوتا ہے ، سب مسافر مارے جاتے ہیں مگر ایک شخص‘ ہاں صرف ایک شخص اپنی کرسی سمیت ‘ جہاز سے یوں باہر نکال لیا جاتا ہے کہ اسے کوئی خراش تک نہیں آتی۔ کوئی قصہ نہیں سنا رہا۔ یہ واقعہ چند برس پہلے ‘ ہمارے ملک کے اندر ہی ہوا ہے۔
اس خوش نصیب شخص سے پوچھا گیا کہ سب کچھ کیسے ہوا تو جواب حد درجہ حیرت انگیز تھا۔بتایا کہ میں بے ہوش ہو چکا تھا آخری آواز جو مجھے اندر سے گونجتی ہوئی سنائی دی وہ صرف ایک تھی کہ ابھی تمہارا وقت نہیں آیا۔ یہ شخص کوئی ان پڑھ انسان نہیں تھا بلکہ پنجاب کے ایک بینک میں اعلیٰ ترین عہدے دار تھا۔
اب اس واقعہ کو آپ دلیل کی روشنی میں کیسے سمجھائیں گے۔ اس طرح کے متعدد واقعات ہوتے ہیں جہاں قدرت اپنا وہ رنگ دکھاتی ہے جو انسانی عقل سوچ بھی نہیں سکتی۔ جو لوگ انسانوں پر خدا کی خصوصی مہربانیوں کا انکار کرتے ہیں ‘ میرا ان سے سوال ہے کہ اس حادثہ میں صرف ایک انسان کے بچنے کی عقلی دلیل عطا فرمائیں۔ وہ مسافر آج بھی زندہ ہے اور آپ لاہور میں اس سے خود مل بھی سکتے ہیں۔
گزارش ہے کہ ہمارے بزرگوں اور ولیوں کا ٹھٹھہ مت اڑائیے ۔ اس رویہ سے کروڑوں مسلمانوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ اور پھر محدود زاویہ سے‘ لا محدود کو سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ برصغیر پاک و ہند بلکہ پوری دنیا میں خد ا کے برگزیدہ بندے موجود تھے‘ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ اگر ہم روحانیت اور سلوک کی جزئیات کو سمجھ نہیں پاتے یا سمجھنا نہیں چاہتے۔ تو پھر ہمیں یہ اختیار قطعاً حاصل نہیں ہے کہ ہم ان بلند پایہ لوگوں کے متعلق ہتک آمیز رویہ رکھیں۔
ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ ان سے منسوب تمام واقعات ‘ صرف اور صرف حکایتیں اور کہانیاں ہیں۔ ان میں سچ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ میرا خیال ہے کہ یہ رویہ مناسب نہیں ہے۔ اگر آپ کسی بزرگ کے ایک معاملہ کو رد کرتے ہیں تو آپ اپنی حد تک تو ٹھیک ہیں۔ مگر ان کی عامیانہ تضحیک سے ان گنت لوگ دکھی ہوتے ہیں۔ جو اچھی بات نہیں ہے۔ہمارے خطے میں اسلام پھیلانے والے بزرگوں نے حد درجہ مشقت کی ہے ۔
خدا کے حکم سے انھوں نے دین کی روشنی ان گنت لوگوں کے دلوں میں منور کی ہے ۔ ان بزرگوں کے بلند پایہ کام کو آپ صرف دلیل کی روشنی میں پرکھ نہیں سکتے ۔ ایسا کرنا بھی نامناسب ہے۔ آخر میں صرف یہ عرض کروںگا کہ عقل اور دلیل‘ زندگی کی ہر گتھی کو سلجھا نہیں سکتی!
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے متعلق کو سمجھ سکتا ہے نہیں ہے سب کچھ
پڑھیں:
اسد زبیر شہید کو سلام!
کے پی پولیس کے ایک اور بہادر افسر ایس پی اسد زبیر نے اپنے بہادر باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وطنِ عزیز پر اپنی جان نچھاور کردی۔ اسد زبیر کو پوری قوم کا سلام ہو، اُس سے یہی امید تھی، وہ ایک جرات مند باپ کا بہادر بیٹا تھا، جو شجاعت کی لوریاں اور شہادت کی کہانیاں سن کر جوان ہوا تھا، شہادت ہی اس کی آرزو تھی اور شہادت ہی منزل۔ اس کی آرزو قبول ہوئی اور خالقِ کائنات نے اسے اپنے پسندیدہ ترین (Most favourite) افراد یعنی قافلۂ شہداء میں شامل کرلیا۔
دہشت گردی کی آگ نے پھر خیبر پختونخواہ کے پورے صوبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، کوئی دن نہیں جاتا جب ہماری سیکیوریٹی فورسز کے گبھرو جوان اور خوبرو افسران وطنِ عزیز پر قربان نہ ہوتے ہوں۔ کہنا اور لکھنا آسان ہے مگر جب جوان بیوہ چھوٹی سی بچی کو اٹھاتے ہوئے اپنے شہید شوہر کی وردی وصول کرتی ہے یا جب بوڑھی ماں اپنے قابلِ فخر بیٹے کی میّت دیکھتی ہے تو وہ کس قیامت سے گذرتی ہیں، ان کا دُکھ اور کرب کوئی نہیں جان سکتا۔ کوئی بھی نہیں۔
دہشت گردی کی موجودہ لہر دیکھ کر مجھے وہ دور یاد آتا ہے جب میں بھی خیبرپختونخواہ میں خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ سب سے پہلے ڈیرہ بازار میں پولیس کی پک اپ دہشت گردی کا نشانہ بنی جس سے پولیس کے تین جوان شہید ہوگئے، اس کے بعد ٹانک میں کئی پولیس افسران ملک پر قربان ہوئے۔
مجھے یاد ہے کہ جس روز میں کوہاٹ پہنچا، اسی رات کو کنٹونمنٹ کی مسجد میں خودکش دھماکا ہوگیا، جب ہم مسجد میں داخل ہوئے تو صحن میں انسانی اعضاء بکھرے پڑے تھے اور مسجد کی دیواروں پر نمازیوں کی چربی لتھڑی ہوئی تھی۔ ورثاء آہ وزاری کررہے تھے اور ہر باشعور شخص سوال کررہا تھا کہ کیا ایسی درندگی کا مظاہرہ اسلام سے معمولی سی بھی عقیدت رکھنے والے لوگ کرسکتے ہیں؟ سب کا جواب ناں میں تھا اور سب دہشت گرد قاتلوں پر لعنت بھیج رہے تھے۔ چند روز بعد ھنگو کے پولیس ٹریننگ کالج کے گیٹ پر دھماکا ہوگیا۔
یہ 2006-8کی بات ہے جب ہم ہر روز کسی نہ کسی ساتھی کا جنازہ اٹھاتے تھے، جنازہ گاہ سے نکلتے تو اسپتال پہنچ جاتے جہاں زخمیوں کی عیادت کی جاتی۔ مگر پورا ملک یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ خیبر پختونخواہ کی پولیس نے اس وقت بھی جس مردانگی، جرأت اور شجاعت سے دہشت گردی کا سامنا کیا تھا اور آج بھی جس بہادری سے اس درندگی کا مقابلہ کررہی ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کے پی پولیس کا کوئی جوان اور کوئی افسر خطرناک ترین چوکی پر تعیناتی سے کبھی نہیں گبھرایا، نہ کبھی کسی نے ناں کی ہے اور نہ کبھی کسی نے کوئی عذر پیش کیا ہے۔ نیچے سے لے کر اوپر تک تمام افسروں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر مادرِ وطن کا دفاع کیا اور اب بھی کررہے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ اُس وقت کے کور کمانڈر پشاور جنرل مسعود اسلم (جو کیڈٹ کالج حسن ابدال میں ہمارے ساتھ لیاقت ونگ میں ہی ہوتے تھے) سے وہاں سیکیوریٹی امور کے سلسلے میں اکثر ملاقات رہتی تھی۔ 2009 میں پریڈ لین راولپنڈی میں جمعہ کی نماز پر مسجد میں دھماکا میں جب ان کا 26 سالہ اکلوتا بیٹا شہید ہوگیا تو میں ان کے ہاں تعزیّت کے لیے گیا۔ وہ اُس صدمے کی حالت میں بھی پوری طرح حوصلے میں تھے اور اُس حالت میں بھی مجھ سے ملتے وقت پشاور پولیس کی تعریف کرتے رہے۔ وہ بار بار کہتے رہے،
"I Salute Peshawar police" جب بھی کوئی خودکش سامنے آیا ہے تو پولیس کا جوان نہ کبھی بھاگا ہے نہ پیچھے ہٹا ہے۔ اُس نے خودکش کو جپھّا ضرور مارا ہے جس کا مطلب ہے وہ موت کو گلے لگانے سے بھی نہیں گبھراتے، I Salute KP Police"۔ بلاشبہ خیبرپختونخواہ پولیس کے جوانوں اور افسروں نے ایسی غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کیا ہے جو صرف فلموں میں ہی نظر آتی ہے۔ بے شمار واقعات یاد آتے ہیں،
ایک بار ایک خود کش ضلع کچہری کے قریب پہنچ گیا، اس کا ٹارگٹ تھا کچہری کے اندر جاکر سیکڑوں لوگوں کے درمیان جاکر جیکٹ پھاڑے تاکہ بہت زیادہ جانی نقصان ہو مگر اسے مشکوک سمجھ کر سیکیوریٹی پر معمور حوالدار دلاور خان نے اسے للکارا۔ خودکش بمبار نے اسے بار بار وارننگ دی کہ ’’دیکھو میری تمھارے ساتھ کوئی دشمنی نہیں، میں تمہیں موقع دیتا ہوں کہ تم اپنی جان بچاؤ اور پیچھے ہٹ جاؤ میں موت ہوں میرے قریب مت آنا‘‘ یہ سن کر دلاور خان کہ آواز گونجی ’’پیچھے کیسے ہٹ جاؤں، میں ہی ان سیکڑوں لوگوں کا محافظ ہوں، میں تمہاری موت بن کر تمہیں جہنّم واصل کردوں گا‘‘ یہ کہہ کر دلاور خان نے خودکش بمبار کو جپھّا مارا، ساتھ ہی دھماکا ہوا، دلاور خان نے اپنی جان دے دی مگر سیکڑوں شہریوں کی جانیں بچالیں۔ بے شک فوج کے ساتھ کے پی پولیس کے افسروں اور جوانوں نے اپنے خون سے جرأت اور سرفروشی کی حیرت انگیز داستانیں رقم کی ہیں۔پورے خیبرپختونخواہ کی سرزمین شہیدوں کے خون سے لالہ رنگ ہے۔ انھوں نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔ بے شک پوری قوم ان کی مقروض ہے۔
شہید ایس پی اسد زبیر غیر معمولی جرات مند محافظوں کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے دادا شہاب الدّین آفریدی بھی قیامِ پاکستان سے پہلے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس رہ چکے تھے اور اعلیٰ خدمات کے باعث کئی میڈل حاصل کرچکے تھے۔ اسد کے والد اورنگ زیب آفریدی 1962میں پولیس سروس میں شامل ہوئے۔ وہ ایک اسپورٹس مین تھے اور پاکستان کی فٹ بال ٹیم میں بھی کھیل چکے تھے۔ 22 مارچ 1978کو تجوڑی (ضلع بنوں) میں وہ بڑی جوانمردی کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے ہوگئے۔ شہید کے پوسٹ مارٹم کے مطابق انھیں سینے میں تین گولیاں لگی تھیں جو جان لیوا ثابت ہوئیں۔ اورنگ زیب آفریدی شہید کو ان کی شہادت کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دور میں غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کرنے پر قائداعظم پولیس میڈل دیا گیا۔
اسد زبیر اپنے شہید والد کی شہادت کے چند ماہ بعد پیدا ہوا۔ وہ بیس سال کی عمر میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے طور پر پولیس سروس میں شامل ہوا۔ جرأت اور شجاعت اس کے خون میں تھی اور جذبۂ شہادت اس کے خاندان کا ورثہ تھا۔ اس لیے وہ ایک نڈر اور بے خوف افسر تھا۔ اس کے علاوہ انتہائی خوش اخلاق تھا اور اپنی فورس میں بے حد مقبول اور ہر دلعزیز بھی تھا۔ 24 اکتوبر 2025کو جب دہشت گردوں نے سیکیوریٹی چیک پوسٹ غلمینہ کو نشانہ بنایا تو اسد زبیر (جو ہنگو میں ایس پی آپریشنز تھے) فوری طور پر اپنے ساتھ دو گن مین لے کر موقع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوئے۔ دہشت گرد اسی تاک میں تھے جب وہ دربند پہنچے تو دہشت گردوں کی نصب کردہ (Improvised Explosive Device) IED پھٹ گئی جس سے ایس پی اسد زبیر اور ان کے گن مین شہید ہوگئے۔
ہنگو پولیس کا ہر جوان دکھی دل سے کہتا ہے کہ اگر ان کی گاڑی بلٹ پروف ہوتی تو ہم اتنے اعلیٰ کمانڈر سے محروم نہ ہوتے۔ ہمارے محافظوں کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں، ان کے خون کا ایک ایک قطرہ قیمتی اور مقدّس ہے، بڑی سے بڑی رقم اور بڑے سے بڑا میڈل ان کی قربانی کا کفارہ ادا نہیں کرسکتا۔ صوبائی حکومت کے علاوہ وفاقی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ سیکیوریٹی فورسز کی اپنی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھائے اور اس کے لیے جتنا بھی پیسہ خرچ کرنا پڑے خرچ کر ڈالے۔ فوری طور پر کے پی اور بلوچستان پولیس کو بلٹ پروف گاڑیاں مہیا کی جائیں تاکہ سینئر رینک کے افسر جب پٹرولنگ کے لیے نکلیں تو دہشت گردوں کی جانب سے نصب کردہ IED سے محفوظ رہ سکیں۔ بلٹ پروف گاڑیوں کے علاوہ انھیں ہیوی ویپن، ڈرون اور ہیلی کاپٹر بھی فراہم کیے جائیں تاکہ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ وفاق کے حکمران بھی صوبے کے شہداء کے گھروں پر تعزیّت اور یکجہتی کے اظہار کے لیے ضرور جایا کریں۔
یہ بات بہت خوش آیند ہے کہ خیبرپخونخواہ میں دہشت گردوں کے لیے عوامی سطح پر سپورٹ یا ہمدردی میں بہت کمی آئی ہے۔ عوام اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ دہشت گرد مذہبی لوگ نہیں بلکہ کرائے کے قاتل ہیں جو دشمن ملک سے پیسے لے کر وطنِ عزیز میں شیطانیت اور درندگی کا کھیل کھیل رہے ہیں اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بہارہے ہیں۔
فوج اور پولیس کے افسران اور جوان اپنے لہو سے امن اور سلامتی کے جو چراغ روشن کررہے ہیں، ان کی روشنی بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے اور جہالت اور درندگی کے اندھیرے کم ہورہے ہیں، انشاء اللہ بہت جلد سحر طلوع ہوگی، دیرپا امن، سکون اور خوشحالی کی سحر۔ خیبرپختونخواہ پولیس کے شہیدوں کو سلام۔ اور شہریوں کی حفاظت کرنے والے جری اور بہادر جوانوں اور افسروں کے لیے دعائیں۔ اللہ تعالیٰ عوام کے محافظوں کو اپنے حفظ وامان میں رکھیں۔