دنیا کے ہر مذہب، فلسفے اور علم کی روشنی میں موت ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ زندگی فنا ہے اور با لآخر انسان اپنی منزل یعنی مٹی میں مل جاتا ہے۔ اس زمین میں جو کچھ بھی موجود ہے وہ فنا ہونے والا ہے اور (صرف) تمہارے پروردگار کی جلال اور فضل و کرم والی ذات ہی باقی رہے گی۔ موت ہر جاندار چیز کی زندگی کا ایک ایسا امرِ حقیقی ہے جس سے راہ فرار کسی عظیم و طاقتور بادشاہ کو نصیب ہو سکی نہ ہی کوئی نیک، صالح اور عالم فاضل ہی اس کے شکنجے سے بچ نکلا۔ بچوں کو یتیم بنانے والی، عورتوں کو بیوگی کا لبادہ اوڑھانے والی، مسکراتی آنکھوں میں اشک رواں کرنے والی، بستیوں اور شہروں کو اُجاڑنے والی، ہر دنیاوی لذت کو ختم کرنے والی اٹل حقیقت ہی موت ہے۔ جو ظالموں اور بدکاروں کو جہنم جبکہ نیکو کاروں اور پرہیزگاروں کو جنت میں پہنچانے والی ہے۔ یہ کبھی چھوٹوں پر رحم کرتی ہے اور نہ ہی بڑوں کی تعظیم۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ’’دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔‘‘ شاید اسی لیے اقبالؒ فرماتے ہیں:
زندگانی ہے صدف قطرۂ نیساں ہے خودی
وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے
ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
موت زندگی کا ایک ایسا پہلو ہے جو انسان کو اس کی کمزوریوں اور انسانیت کی اصل حقیقت سے روشناس کراتا ہے۔ ایک ایسا غور و فکر کا لمحہ اولادِ آدم کو زندگی کے مقصد پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’وہی ہے جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے بہتر جد و جہد کون کرتا ہے اور وہی عزت بخشنے والا ہے‘‘۔ ہر جاندار کی زندگی خواہ وہ کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو با لآخر ایک نہ ایک دن وہ ختم ہونے والی ہے۔ جب بھی دو جہانوں کے مالک کا حکم ہوتا ہے تو موت خالق کائنات کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے تمام دنیاوی رکاوٹوں کو پار کرتی مطلوبہ ہدف کو حاصل کر لیتی ہے، پھر چاہے وہ سورج کی شعاع میں موجود ہو یا ظلمت شب کی تاریک راہوں میں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے موت خود زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے لیے اس کا وقت بھی مقرر کر دیا ہے اور مقام بھی۔ کسی روح کا جسم سے جدا ہو کر ایک عارضی (دنیاوی) گھر سے دوسرے ابدی گھر (برزخ) میں منتقل ہونے کا عمل ہی موت ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگانی ہے لہٰذا موت اور حیات ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں‘‘۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر جاندار چیز فنا ہونے والی ہے۔ قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ہر نفس نے موت کا مزہ چکھنا ہے‘‘۔ یعنی انسان ہوں، جن یا پھر فرشتہ، غرض یہ کہ اللہ رب العزت کی ذات کے سوا ہر زندہ کو موت آنی ہے اور ہر چیز فانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون امیر، غریب، ظالم اور مظلوم سب کے لیے برابر ہے، پس ہر نفس کو ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے، موت جیسی اٹل حقیقت سے کسی کو مفر نہیں اور سب کو حساب دینا ہے جو کچھ دنیا میں انہوں نے کیا۔ مقام افسوس کہ بنی نوع سب سے زیادہ غفلت بھی اپنی موت سے ہی برتتا ہے، وہ گھڑی جس سے ایک نہ ایک دن سب کو جا ملنا ہے انسان اس کے متعلق سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتا اور دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرنے جیسی اٹل حقیقت سے جان بوجھ کر غافل رہتا ہے۔ فرعون کو موت سے اس کی بادشاہت بھی نہ بچا سکی، ابو جہل اور یزید کی سرداری، شداد کی جنت، نمرود اور قارون کی دولت شہرت اور بادشاہت بھی موت کے سامنے ان کے کام نا آ سکی کیونکہ موت کا ایک وقت موعودہے جب آتا ہے تو کسی صورت بھی نہیں ٹلتا اور نا ہی کوئی دنیاوی طاقت اسے ٹال سکتی ہے۔ ہمارے کتنے ہی قریبی رشتے جنہیں ہماری آنکھوں کے سامنے موت نے آ لیا، پھر انہیں ان کے اعلیٰ نصب، ان کی حسین صورتوں سمیت منوں مٹی تلے دفنا دیا گیا اور وہ وقت مقررہ پر اپنے بچوں کو یتیم، بیوہ کو روتا چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے کپڑے اور سامان پڑا رہ گیا۔ ہر مومن کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح محفلوں میں قہقہے لگانے والے خوش اخلاق لوگ آج منوں مٹی تلے خاموش ہیں۔ ہم جب کبھی موت کو دیکھتے یا سوچتے ہیں تو ہمیں یہ فراق نظر آتی ہے، بظاہر یہ اپنے عزیز و اقارب، اہل و عیال اور اپنے مال و متاع سے جدائی لگتی ہے لیکن در حقیقت یہ ابدی زندگی اور اپنے خالق سے ملاقات کا سبب ہے۔ یہ ایک ایسی یاد دہانی ہے کہ زندگی کا اختتام ایک وقت مقررہ پر ہو گا، اور اس کے بعد ایک ایسی نئی زندگی کا آغاز ہو گا جو دائمی ہو گی۔
دنیا کی زندگی کچھ بھی نہیں آخرت کے آگے مگر متائے حقیر۔ موت سے کیا ڈرنا جب اسے ہر صورت آنا ہی ہے اس اٹل حقیقت سے کسی کو رستگاری یا فرار حاصل نہیں، کوئی بھی موت کو ٹال نہیں سکتا لہٰذا ہر وقت اپنی موت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی تیاری کی فکر میں رہنا چاہیے۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: ’’اگر تنگ دستی میں موت کو یاد کرو گے تو یہ تمہیں تمہاری زندگی پر راضی رکھے گی‘‘۔ موت کی یاد ایمان کو نئی جلا بخشتی ہے اور انسان کو برائیوں سے روکتی اور نیکیوں کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: زندگی کا ا کی زندگی ا ہے اور موت سے موت کو
پڑھیں:
شدید گرمی سے ہونے والی اموات، سندھ حکومت اور نجی اداروں کے اعدادوشمار میں بڑا تضاد
کراچی:گرمی کی لہروں کے دوران ہونے والی اموات کے حکومت اور نجی اداروں کے اعدادوشمار میں بڑا تضاد پایا گیا ہے۔ اموات کے اعدادوشمار سرکاری سطح پر چھپائے جاتے ہیں اور گرمی سے ہونے والی اموات کو اسپتال میں brought death کہا جاتا ہے تاکہ یہ معلوم نہ ہو سکے کہ یہ اموات گرمی سے ہوئی ہیں۔
ادھر محکمہ صحت ہیٹ ویو کا سرکلر جاری کرکے اپنی جان چھڑا لیتا ہے، محکمہ صحت اور حکومت سندھ دونوں ہیٹ مینجمنٹ پلان جاری کرتے ہیں جس میں ایمرجنسی الرٹ کا لفظ استعمال کر کے دونوں ہی اپنی جان چھڑا لیتے ہیں، لیکن حکومت اور محکمہ صحت کی جانب سے عملی طور پر اس حوالے سے کوئی اقدامات دکھائی نہیں دیتے۔
محکمہ موسمیات نے ہیٹ ویو چلنے کے بارے میں متنبہ کیا تھا کہ عوام کو چاہیے کہ گرمی کے موسم میں ٹھنڈے پانی اور گھر کے تیار کردہ مشروبات کا زیادہ استعمال کریں، لوگ بلا وجہ دھوپ میں باہر نہ نکلیں اور اگر کسی ضروری کام سے باہر جانا پڑے تو سر کو بڑے رومال یا کیپ سے ڈھانپیں۔
گرمی سے گھریلو خواتین بھی زیادہ متاثر ہوتی ہیں کیونکہ باورچی خانے میں کام کرتی ہیں، چولہے کی تپش اور گرمی کی وجہ سے انکے جسم سے پسینہ خارج ہوتا ہے جس کے باعث جسم سے نمکیات اور دیگر vital ضائع ہوتے ہیں، اس صورتحال میں خواتین میں چکر آتے ہیں اور وہ نقاہت اور گھبراہٹ محسوس کرتی ہیں۔
ان حالات میں خواتین کو پانی کا زیادہ استعمال کرنا چاہیے اور گھر میں تیار کردہ لیموں پانی یا دیگر مشروبات استعمال کرنے چاہیے، بچوں کو بھی دھوپ میں نکلنے سے روکنا چاہیے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ شدید گرمی کے دوران سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیرات میں کام کرنے والے مزدوروں اور ریڑھی بانوں کو بھی اپنے سروں کو گیلے کپڑے یا تولیے سے ڈھانپنا چاہیے تاکہ وہ ہیٹ اسٹروک سے بچیں۔
گزشتہ پانچ برسوں سے کراچی میں گرمی کی لہریں مسلسل شدت اختیار کر رہی ہیں اور ہر سال درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2019 میں کراچی میں درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا جس کے دوران سرکاری طور پر تقریباً 60 اموات اور نجی تخمینوں کے مطابق تقریباً 200 اموات ہوئیں۔ سال 2020 میں درجہ حرارت 43 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا، جس کے دوران سرکاری طور پر تقریباً 30 اموات اور نجی تخمینوں کے مطابق تقریباً 150 اموات ہوئیں۔
سال 2021 میں درجہ حرارت 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا، جس کے دوران سرکاری طور پر تقریباً 45 اموات اور نجی تخمینوں کے مطابق تقریباً 180 اموات ہوئیں۔ سال 2022 میں درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا، جس کے دوران سرکاری طور پر تقریباً 50 اموات اور نجی تخمینوں کے مطابق تقریباً 220 اموات ہوئیں۔ سال 2023 میں درجہ حرارت 43.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا، جس کے دوران سرکاری طور پر تقریباً 35 اموات اور نجی تخمینوں کے مطابق تقریباً 170 اموات ہوئیں۔
حکومت اور نجی اموات کے اعداد و شمار کے درمیان یہ بڑا فرق سنگین سوالات اٹھاتا ہے کہ گرمی سے ہونے والی اموات کی حکومتی سطح پر درست اطلاعات کیوں نہیں دی جا رہی۔
کراچی کے ہر سال کی طرح امسال بھی ہیٹ ویو یا گرمی کی لہر سے متاثرہ افراد کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے جاتے، ہیٹ اسٹروک سے متاثرہ مریضوں کو سرکاری اسپتالوں میں لایا جاتا ہے جہاں پر ڈرپ لگا کر اور او آر ایس تجویز کرکے روانہ کر دیا جاتا ہے، سرکاری اسپتال میں ہیٹ اسٹروک کے مریضوں کو داخل نہیں کیا جاتا۔
دیکھا گیا ہے کہ ہر سال ہیٹ اسٹروک سے ہزاروں افراد مختلف اوقات میں اسپتالوں میں لائے جاتے ہیں لیکن کسی بھی اسپتال میں مریضوں کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات دیکھنے میں نہیں آتے، صوبائی محکمہ صحت ہر سال ہیٹ اسٹروک کے حوالے سے تمام اسپتالوں کے سربراہوں کو ایمرجنسی الرٹ جاری کر دیتے ہیں، کوئی علیحدہ سے یونٹ نہیں بنایا جاتا۔
موسمیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والے ماہر مجتبیٰ بیگ نے بتایا کہ شہر کے صرف 5 فیصد سے بھی کم حصے پر درخت ہیں، سڑکیں اور محلے کنکریٹ پر مشتمل ہیں جو دن میں حرارت جذب کرکے شام کو خارج کرتے ہیں جس کی وجہ سے گھروں میں رات دیر تک تپش برقرار رہتی ہے۔ پانی کے غیر منصفانہ انتظام کے باعث پانی کی قلت شہر میں بدستور موجود ہے، کراچی میں بیشتر علاقے ایسے ہیں جہاں لوگ کئی کئی ہفتے پانی کی بوند کو ترستے ہیں، جس کی وجہ سے جسم کو ہائیڈریٹ رکھنا ایک روزمرہ جدوجہد بن گیا ہے۔
شہر کا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم تقریباً ناکارہ ہوگیا ہے، بسوں اور ویگنوں میں لوگ کھچا کھچ بھر ہوتے ہیں۔ ان خستہ حال گاڑیوں میں وینٹیلیشن نہیں ہوتی جس کی وجہ سے سفر کرنے والے مسافر انتہائی بدحال ہو جاتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ عمر رسیدہ اور خواتین و بچوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گرمی سے سب سے زیادہ خطرے میں دیہاڑی دار مزدور ہوتے ہیں جن میں سے بہت سوں کو ٹھنڈک یا ایمرجنسی کیئر تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
حکومت کی جانب سے کراچی ہیٹ مینجمنٹ پلان میں اسپتالوں کو ایمرجنسی الرٹ جاری کرنا اور نجی کمپنیوں کی جانب سے عارضی کولنگ سینٹرز قائم کرنا تو شامل ہے۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ صرف عارضی حل ہے، طویل مدتی اقدامات جیسے درخت لگانا، پانی کی فراہمی کو بہتر بنانا، یا پبلک ٹرانسپورٹ کو ٹھیک کرنا کہاں ہے؟
سرکاری ریکارڈ نجی اسپتالوں اور قبرستانوں کے مقابلے میں گرمی کی لہر سے ہونے والی بہت کم اموات ظاہر کرتے ہیں۔ اس تضاد سے پتہ چلتا ہے کہ حکام یا تو کم رپورٹنگ کر رہے ہیں یا ہلاکتوں کو مناسب طریقے سے دستاویزی شکل دینے میں ناکام ہیں۔
موسمیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ دیگر شہروں کے برعکس کراچی ٹپنگ پوائنٹ جیسے ایک خطرناک چکر میں پھنسا ہوا ہے یعنی گرمی میں شہر کا درجہ حرارت بڑھتا ہے تو بجلی کی طلب بڑھ جاتی ہے کیونکہ لوگ زیادہ اے سی استعمال کرتے ہیں جس سے باہر کا ماحول اور زیادہ گرم ہواؤں کی زد میں آجاتا ہے جو درجہ حرارت میں مزید اضافے کا باعث بنتا ہے۔ عمارتوں میں لگا کنکریٹ اور اسفالٹ حرارت کو جذب کرتے ہیں (اربن ہیٹ آئی لینڈ افیکٹ) اور ٹھنڈک کے لیے بہت زیادہ تعداد میں درخت یا کھلی جگہیں نہیں ہیں، جس کی وجہ سے شہر ایک تندور کی طرح بن جاتا ہے۔
ماہرین نے مزید کہا کہ ہیٹ ویو اس وقت ہوتی ہے جب گرمی صرف ناقابل برداشت محسوس نہیں ہوتی بلکہ جان لیوا بن جاتی ہے۔ تکنیکی طور پر شدید گرمی کا ایک طویل دورانیہ ہوتا ہے جو اکثر نمی کی وجہ سے مزید خراب ہو جاتا ہے، جس سے جسم کے لیے خود کو ٹھنڈا رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
کراچی میں درختوں اور ہریالی کی کمی اور بلند و بالا عمارتوں کی تعمیرات بھی درجہ حرارت میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے۔ دوسری جانب سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بڑھ رہا ہے، شہر میں سڑکوں کی حالت انتہائی خراب ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہو رہی ہے اور گھنٹوں ٹریفک جام رہتا ہے، اس دوران گاڑیاں اسٹارٹ رہتی ہیں جن سے خارج ہونے والی کاربن موسم کو مزید گرم کرتی ہیں اور آلودگی پھیلاتی ہے۔
اس شہر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کراچی کی دعویدار جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں ان کے مقامی رہنما موسمیاتی تبدیلی کی الف ب سے بھی واقف نہیں جبکہ دو سال تک صوبائی وزیر موسمیاتی تبدیلی رہنے والے مرتضیٰ وہاب جو اب مئیر کراچی ہیں، نے موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کا لمبا چوڑا منصوبہ تو بنوا کر رکھ لیا ہے مگر اس پر عمل درآمد کے لیے بلدیہ کراچی کے پاس نہ تو اختیارات ہیں اور نہ ہی عملہ اور فنڈز ہیں۔ اسی لیے مذکورہ منصوبے کو موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین شیخ چلی کا منصوبہ کہتے ہیں جو ایک غیر ملکی امدادی ادارے کے فرائض منصبی میں شامل ہونے کے باعث مفت میں بنوا تو لیا گیا ہے مگر اس پر عمل درآمد کے لیے نہ ارادے کے پاس طاقت ہے اور نہ ہی بنیادی موسمیاتی تعلیم اور وسائل ہیں۔
ڈاکٹر آفتاب حسین نے بتایا کہ عوام دن کے گرم ترین اوقات (صبح 11 بجے سے شام 4 بجے تک) گھر کے اندر رہیں، خوب پانی پئیں اور میٹھے یا کیفین والے مشروبات سے پرہیز کریں۔ انہوں نے کہا دوپہر کے وقت ہلکی غذاء کا استعمال کریں اور گھر کے تیار کردہ ٹھنڈے مشروبات استعمال کریں۔
انہوں نے کہا کہ بازاروں میں رنگ برنگے مشروبات فروخت ہونے والے مشروبات سے اجتناب کریں کیونکہ دھوپ میں رکھے مشروبات کی بوتلوں میں مختلف اقسام کے بیکڑیا کی نشوونما ہوتی رہتی ہے، والدین اپنے بچوں کو سختی سے منع کریں کہ اسکولوں کے اطراف لگائے جانے والے ٹھیلوں سے شربت نہ پیئیں۔
ڈاکٹر آفتاب حسین نے کہا کہ اسی طرح فریج میں رکھے جانے والے باسی کھانوں کو استعمال نہ کیا جائے، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کھانوں میں مختلف اقسام کے بیکٹریا جنم لیتے ہیں جس سے ہیضہ اور ڈائریا کا مرض جنم لیتا ہے، گرمی کے موسم میں ڈائریا کا مرض شروع ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بزرگوں اور بچوں کا خیال رکھیں۔ شہری اپنے حکام سے جنگلات، قابل اعتماد پانی کی فراہمی اور مناسب پبلک ٹرانسپورٹ جیسی بہتر پالیسیوں کا مطالبہ کریں۔ کراچی میں گرمی کی لہریں نہ صرف بدتر ہوتی جا رہی ہیں بلکہ یہ اس بات کو بھی بے نقاب کر رہی ہیں کہ ان کا کم سے کم نقصانات کے ساتھ سامنا کرنے کے لیے شہر بالکل تیار نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فوری کارروائی کے بغیر ہر موسم گرما پچھلے سے زیادہ جان لیوا ہوگا۔
محکمہ صحت کا موقف
ڈپٹی ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کراچی اور ماہر صحت عامہ ڈاکٹر پیر غلام نبی شاہ جیلانی نے کراچی میں حالیہ ہیٹ ویو کے حوالے سے بتایا کہ وزیر صحت اور سیکریٹری صحت و ڈائریکٹر کراچی محکمہ صحت حکومت سندھ کی جانب سے کراچی کے تمام سرکاری و غیر سرکاری اسپتالوں و دیگر مراکز صحت کے میڈیکل سپریٹنڈنٹس اور تمام ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز کو تحریری صورت میں ہنگامی بنیادوں پر ہدایت جاری کر دی گئی ہیں کہ وہ اپنے اپنے مراکز صحت میں 24/7 اپنے تمام ڈاکٹر اور طبی عملے کی حاضری کو یقینی بنائیں اور تمام چھٹیاں منسوع کر دی گئی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ تمام اسپتالوں میں ہیٹ اسٹروک اسٹینیلازشن سینٹر کا قیام کیا جائے جس میں زندگی بچانے والی ادویات سمیت ٹھنڈے فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
نوٹیفیکشن میں کہا گیا کہ ان مراکز میں بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، اور عملے کی ڈیوٹی کو یقینی بنایا جائے، عوام کو ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کی آگاہی کے لیے شعور اجاگر کیا جائے۔ تمام اسپتال اور صحت کے مراکز تمام صحت کی سہولت کے ساتھ ایمبولینس کی سروسز کو یقینی بنائے۔
اس سلسلے میں محکمہ صحت نے ڈائریکٹر آفس میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر شیر خان جونیجو کو فوکل پرسن مقرر کیا ہے۔
دریں اثنا، ڈاکٹر پیر غلام نبی شاہ جیلانی نے عوام سے اپیل کی کہ غیر ضروری طور پر دھوپ میں نہ نکلیں، چکر، متلی آنے کی صورت ٹھنڈی جگہ پر بیٹھیں، سر میں پانی ڈالیں، ہلکے رنگ کے کپڑے پہنیں۔ انہوں نے گھریلوں خواتین سے کہا کہ گھر میں باورچی خانے میں کھانا پکانے کے دوران جو پسینے آتے ہیں، اس سے جسم کی نمکیات ضائع ہوتے ہیں لہٰذا خواتین بھی دوران کام کاج پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں یا گھر کے مشروبات (نمکول یا اوآر ایس)، فروٹ بھی استعمال کر سکتی ہیں۔ سخت گرمی کے موسم میں ہلکے کھانے استعمال کیے جائیں، اس کے علاوہ صبح 11 بجے سے شام 5 بجے تک گھر سے غیر ضروری باہر نہ نکلیں۔