شک ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس بڑی عدالتوں میں حکومتی ججز کے آنے تک مؤخر رکھا جائے گا، اسد قیصر
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف القادر کیس کا فیصلہ بڑی عدالتوں میں حکومت کی مرضی کے ججز کے آنے تک مؤخر رکھا جائےگا۔
اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رہنما پی ٹی آئی اسد قیصر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے آج قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کیا ہے، جوڈیشل کمیشن کے بننے تک ہمارا احتجاج جاری رہے گا، ایک آزاد جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے جو سب کو قابل قبول ہو، ہمارا دعویٰ ہے کہ 9 مئی انہوں نے کیا ہے، ہمارا دعویٰ ہے کہ 26 نومبر کو انہوں نے گولی چلائی، گولی کیوں چلائی، اس کی تحقیقات کی جائیں۔
یہ بھی پڑھیں: خواجہ آصف اور مریم نواز مذاکرات ناکام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اسد قیصر
اسد قیصر نے کہا کہ ہم صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ کیوں مؤخر کیا گیا ہے، ہم سمجتھے ہیں کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش اور منصوبہ ہے، یہ اس فیصلے کو اس لیے مؤخر کررہے ہیں کہ یہ اعلیٰ عدالتوں میں بھی اپنے من پسند ججز کے آنے کا انتظار کررہے ہیں تاکہ وہاں بھی اس کیس کے فیصلے کو جاری رکھ سکیں، یہ میرا شک ہے کہ کسی طرح عمران خان کو زیادہ سے زیادہ جیل میں رکھا جائے۔
اس موقع پر گفتگو میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ 26 نومبر کو اپنے ہی شہریوں کے اوپر اسنائپر سے فائرنگ کی گئی، جس سے ہمارے بہت سے لوگ زخمی ہوئے، وہ اسلحہ استعمال کیا گیا جو نیٹو نے دہشتگردی کی جنگ لڑنے کے لیے پاکستان کو دیا تھا، جو لوگ زخمی ہوئے ان کے خلاف ایف آئی آرز بھی کاٹی گئیں اور جولوگ اپستالوں میں گئے، ڈر کے مارے انہوں نے رپورٹ بھی نہیں کیا، جو لوگ ہمارے شہید ہوئے ان کی میتیں ہم نے اٹھائیں اور ان کی تدفین بھی کی، کچھ لوگ ہمارے لاپتا ہیں، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بتائے کہ لاپتا افراد کہاں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: القادر ٹرسٹ کیس فیصلے میں تاخیری حربے عمران خان کی بیگناہی کا ثبوت ہے، بیرسٹر سیف
عمر ایوب نے کہا کہ جو ہمارے ساتھی ملٹری کورٹس کی حراست میں تھے، ان پر تشدد کیا گیا، جس سے کئی لوگ ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں، اس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں، قانون اس کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ نہتے شہریوں کو ملٹری کورٹس میں ٹرائل کریں، سپریم کورٹ میں آج اہم نکتہ اٹھایا گیا کہ 1999 میں جن لوگوں نے جہاز ڈائیورٹ کیا تھا، کیا ان کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا تھا یا پھر وہ انسداد دہشتگردی عدالت میں ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنی ساری زندگی پاکستانی عوام کی خدمت میں لگائی، شوکت خانم اسپتال ایک نہیں متعدد بنائے، اس اسپتال میں غریب لوگوں کو مفت علاج کیا گیا اس کے باوجود کہ وہ پرائیویٹ ادارہ ہے، عمران خان نے میانوالی میں جدید ترین یونیورسٹی (نمل) بنائی، انہوں نے القادر یونیورسٹی بھی بنائی جہاں سیرت نبی ﷺ کے کورسز پڑھائے جارہے ہیں، حکومت کو شرم نہیں آتی کہ یہ خود تو کچھ نہیں کرسکتے اور ملبہ عمران خان اور بشریٰ بی بی پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
القادر ٹرسٹ کیس کے حوالے سے حکومت لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ فیصلہ آنے والا ہے، ان کو کیا پتا کہ کیا فیصلے آئے گا، اس کا مطلب ہے کہ ڈرافٹنگ کہیں پہ ہورہی ہے ہا ہوگئی ہے اور ان کو فیصلہ دیا گیا ہے، اس کی ہم مذمت کرتے ہیں، یہ کینگرو عدالت ہے، ہم اس کو مسترد کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں سے سزا سپریم کورٹ کے اختیارات سے تجاوز ہے، عمر ایوب خان
عمر ایوب نے بتایا کہ برطانیہ میں نیشنل کرائم ایجنسی ہے، اس کے ساتھ ایک پاکستانی بزنس مین نے ڈیل کی کہ یہ پیسہ بزنس آف کرائم نہیں ہے، یہ پیسہ واپس پاکستان جانا چاہیے، وہ پیسہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آیا، سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ سے وہ پیسہ سرکار کے اکاؤنٹ میں گیا، اس پیسے کا بشریٰ بی بی اور عمران خان سے کیا لینا دینا، ایک پیسے کا ان سے کوئی تعلق نہیں، القادر کی گراؤنڈ بریکنگ 2019 میں ہوئی اور اس کے ایک سال بعد این سی اے کا کیس آیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ون ہائٹ پارک 190 ملین پاؤنڈ میں بیچا گیا، بیچنے والی پارٹی حسن نواز تھا، ان سے پوچھا جائے کہ ان کے پاس یہ رقم آئی کہاں سے آئی کہ انہوں نے پہلے وہ پراپرٹی خریدی، پھر بعد میں بیچی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
القادر ٹرسٹ کیس بشری بی بی۔ پی ٹی آئی۔ عمران خان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: القادر ٹرسٹ کیس پی ٹی ا ئی القادر ٹرسٹ کیس سپریم کورٹ پی ٹی ا ئی نے کہا کہ انہوں نے عمر ایوب کیا گیا ہیں کہ
پڑھیں:
زیارت: خشک سالی اور حکومتی بے توجہی نے پھلوں کے بیشتر باغات اجاڑ دیے
بلوچستان کا خطہ جہاں کبھی بارشوں کی رم جھم اور برفباری سے وادیاں لہلہاتی تھیں آج خشک سالی کی لپیٹ میں آکر اپنی زرخیزی کھو رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جنگلی ڈرائی فروٹ جو صرف بلوچستان میں کھایا جاتا ہے
زیارت کے رہائشی اور سیب کے باغ کے مالک مقدس احمد نے کئی دہائیوں سے اپنے باغات کو آباد رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق زیارت کے سیب صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اپنی خوشبو اور ذائقے کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں لیکن اب یہ پہچان خطرے میں ہے۔
مقدس احمد بتاتے ہیں کہ سنہ 2022 کے بعد سے بارشوں کی کمی نے ان کے باغات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہر سال باغ کا ایک حصہ سوکھ کر ختم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہی صورتحال رہی تو آنے والے برسوں میں ہمارے باغات ریگستان میں بدل جائیں گے۔
ان کی آواز میں مایوسی کے ساتھ ساتھ زمین سے جڑی محبت بھی جھلکتی ہے اور یہ تشویش صرف ایک باغبان کی نہیں بلکہ بلوچستان کے ہزاروں باغبانوں اور کسانوں کی ہے۔
مزید پڑھیے: بلوچستان: قلعہ عبداللہ میں 27 اقسام پر مشتمل انگور کا سب سے بڑا باغ
کسان اتحاد کے چیئرمین خالد حسین باٹ کا کہنا ہے کہ رواں برس صوبے میں ماضی کے مقابلے میں بارشیں بہت کم ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ چوں کہ بارش کے پانی سے زیر زمین سطح بہتر ہوتی ہے لیکن وہ نہ ہونے کے سبب پانی اب 1000 سے 1500 فٹ نیچے جا چکا ہے۔
ان کے مطابق حکومت نے سولر ٹیوب ویل منصوبوں کا وعدہ کیا تھا مگر اس پر جزوی عملدرآمد ہوا جس سے کسان مزید مشکلات کا شکار ہوئے۔
خالد حسین باٹ نے کہا کہ پانی کی قلت اور برف باری میں کمی کے باعث نہ ڈیم بھر سکے اور نہ ہی زمین کو سیرابی ملی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فصلوں اور پھلوں کی پیداوار میں 25 سے 30 فیصد تک کمی واقع ہوگئی۔
مزید پڑھیں: فروٹ باسکٹ ’کوئٹہ‘ کا سیب ملک میں سب سے لذیذ، مگر کیوں؟
اس خطرناک صورتحال پر ماہرین بھی متنبہ کر رہے ہیں۔ ماہر ارضیات دین محمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی نے بلوچستان کو شدید متاثر کیا ہے۔
دین محمد کاکڑ نے کہا کہ ملک کے دیگر حصے اس وقت اربن فلڈنگ اور طوفانی بارشوں کا سامنا کر رہے ہیں لیکن بلوچستان مسلسل خشک سالی کی لپیٹ میں ہے۔
ان کے مطابق صوبے کے شمالی علاقوں میں زیر زمین پانی کو سولر ٹیوب ویل کے ذریعے بے تحاشہ نکالا جا رہا ہے مگر اس کی بحالی کے لیے بارشیں نہیں ہو رہیں اور نتیجتاً ہر گزرتے سال پانی کی سطح مزید نیچے جا رہی ہے۔
دین محمد کاکڑ نے ماضی کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے شمالی اضلاع میں کبھی کاریزوں (زیر زمین آبپاشی کی نقل و حمل کا نظام) کے ذریعے باغبانی ہوتی تھی جہاں پانی کے منظم استعمال نے زراعت کو سہارا دیا مگر آج تقریباً تمام کاریزیں خشک ہیں اور کسان صرف زیر زمین پانی پر ہی انحصار کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے فوری طور پر واٹر مینجمنٹ پالیسی نہ بنائی تو آنے والے برسوں میں بلوچستان کے سرسبز علاقے ریگستان کا منظر پیش کرنے لگیں گے۔
یہ بھی پڑھیے: کوئٹہ کے پھل اسلام آباد میں آن لائن کیسے فروخت ہو رہے ہیں؟
خشک سالی کی یہ داستان بلوچستان کے قدرتی حسن، زراعت اور معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور سیب کے باغات، انگور کی بیلیں اور انار کے باغ سب ہی پانی کے منتظر ہیں۔ مقدس احمد اور ان جیسے ہزاروں باغبان آج صرف بارش کے چند قطروں کی دعا کر رہے ہیں تاکہ ان کے باغات جن پر ان کی نسلوں کی محنت لکھی ہے ہمیشہ سرسبز رہ سکیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان بلوچستان سیب بلوچستان فروٹ بلوچستان فصلیں زیارت زیارت سیب