اچھے برے کی تمیز اخلاقیات کی بنیاد ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ سفید اور سیاہ کے فرق کو جاننا اخلاق کی کسوٹی ہے۔ حیوانِ مطلق کو قدرت نے یہ خوبی عطا نہیں کی کہ وہ اچھے برے کی پہچان یا شناخت کرسکے لیکن اشرف المخلوقات کو یہ وصف حاصل ہے۔ اسلام وہ واحد دین ہے جس میں اخلاقیات کی اہمیت کو اجاگرکیا گیا ہے۔ نیکی کا صلہ اجر و ثواب کی صورت میں ملتا ہے۔ یہ دنیا ایک کمرہ امتحان ہے۔ بقولِ اقبالؔ:
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی
خود غرضی اور لالچ شیطان کے حربے ہیں جو اچھے بھلے انسان کو گمراہی کے گڑھے میں ڈال دیتے ہیں۔ دینِ اسلام کو دیگر ادیان پر اس لیے سبقت حاصل ہے کہ وہ انسان کو اخلاقیات کے دائرے میں رہنے کا درس دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اس کا دائرہ بہت وسیع ہے جس میں انسانوں اور جانوروں کے ساتھ حسن سلوک، صدقہ و خیرات، معافی و درگزر، ایمانداری، برداشت، انصاف، والدین اور بزرگوں کا احترام، وعدے کی پاسداری، غصہ پر قابو، اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب حضرت محمدﷺ سے محبت شامل ہیں۔ بندگانِ خدا کے ساتھ ہمدردی اور محبت کو خصوصی اہمیت حاصل ہے جسے اقبالؔ نے اس شعر میں خوب اجاگر کیا ہے۔
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
عام خیال یہ ہے کہ جو معاشرے کسی نہ کسی مذہب سے وابستہ ہیں، ان میں اخلاقیات کا عمل دخل نسبتاً زیادہ ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جاپان، سنگاپور، جنوبی کوریا اور اسکینڈے نیوین ممالک میں اخلاقیات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ خوش اخلاقی رشتوں کو مستحکم اور مضبوط کرتی ہے اور اس سے قلب و ذہن کو قوت اور طمانیت حاصل ہوتی ہے جب کہ بد اخلاقی کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ سچ پوچھیے تو بد اخلاقی زہرِ قاتل ہے جس کی وجہ سے پرانے سے پرانے تعلقات اور رشتے بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ بقولِ شاعر:
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
مادہ پرستی نے انسانیت کا جوہر چھین لیا ہے جس سے معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہو رہا ہے۔ ابتدا میں مشرق اس وبا سے محفوظ تھا اور بھائی چارے کا ماحول قائم تھا پھر اس روگ نے مشرق کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اخلاقی پستی کا بھیانک نتیجہ ہم دو عالمگیر جنگوں کی صورت میں دیکھ چکے ہیں جن کی وجہ سے ناقابلِ بیان تباہی و بربادی ہوئی۔
سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم نے ان جنگوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور اب دنیا تیسری عالمگیر جنگ کی تیاری میں مصروف ہے۔ یہ جنگ کتنی تباہ کُن ہوگی اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے لیکن کیونکہ اگر اس میں ایٹمی عنصر شامل ہوگیا تو پوری دنیا راکھ کا ڈھیر بن سکتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حاصل ہے
پڑھیں:
جب ’غیر ملکی ایجنٹ‘ کی رپورٹیں ’آرٹ کا شہکار‘ بن گئیں
داریہ آپاخونچچ ایک روسی فنکار اور سماجی کارکن ہیں جنہیں 2020 میں روسی حکومت نے ’غیر ملکی ایجنٹ‘ قرار دیا۔
اس درجہ بندی کے تحت انہیں ہر سہ ماہی اپنی مالی اور سرگرمیوں سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کروانا ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:روس میں مسافر طیارے گر کر تباہ، بچوں سمیت 49 ہلاک
تاہم آپاخونچچ نے ان رسمی اور سخت نوعیت کی رپورٹوں کو ایک منفرد رنگ دیا۔ انہوں نے انہیں احتجاجی فن (protest art) کی شکل دی، جہاں لپ اسٹک کے نشان، جنگ مخالف خاکے، اور ذاتی تاثرات سرکاری زبان پر طنز بن کر ابھرے۔
ان کی رپورٹس بیوروکریسی کے روبوٹک عمل کو بے نقاب کرتی ہیں اور اس کے پس پردہ موجود سفاکیت، جبر اور منافقت پر روشنی ڈالتی ہیں۔
یہ فن پارے نہ صرف جنگ کے خلاف آواز بنتے ہیں بلکہ ریاست اور فرد کے بیچ تعلق کی تنہائی، الجھن اور بیزاری کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔
وہ اپنی شناخت کو، جو اب ریاست کی نظر میں ’غیر ملکی کارندہ‘ کی ہے، فن کے ذریعے دوبارہ متعین کر رہی ہیں۔
اگرچہ وہ اب جرمنی اور نیدرلینڈز میں رہائش پذیر ہیں، لیکن ان کی تحریریں اور تصویریں بار بار اپنے وطن کی طرف پلٹتی ہیں۔ ایک ایسی زمین کی طرف جو اُن کی محبت اور دکھ کا مرکب ہے، جہاں وہ اپنی ثقافت سے جڑی ہیں لیکن ریاستی جبر کی مخالفت کرتی ہیں۔
ان کے یہ فن پارے اب ایمسٹرڈیم میں ’ Artists Against the Kremlin ‘ کے عنوان سے ایک بین الاقوامی نمائش کا حصہ بنے ہیں، جہاں وہ دنیا بھر کے ناظرین کو مزاحمت، اظہار، اور آزادی کے دفاع میں شامل ہونے کی دعوت دیتی ہیں۔
داریہ آپاخونچچ کا یہ فن احتجاج کی ایک ایسی صورت ہے جو نہ نعرہ ہے، نہ ہنگامہ، بلکہ لفظ، خاکہ اور رنگ کے ذریعے ایک خاموش مگر گونج دار مزاحمت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آرٹ داریہ آپاخونچچ روس غیرملکی ایجنٹ